مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرا پامسٹ بننے کا قصہ ||گلزار احمد

بہر حال ڈیرہ کے گاوں کے مقابلے میں وہاں ہم جدید حماقتیں کرتے تھے ۔گاٶں میں تو دریا میں چھلانگیں لگا کر کئ بار ڈوبتے ڈوبتے بچے یا کانگا ماڑی میں زخمی ہو جاتے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاھور میں اپنی تعلیم کے دوران
ڈیوس روڈ پر میں جہاں رہتا تھا وہاں ہمارا پڑوسی ایک عیسائی تھا جو ہاتھ کی لکیریں پڑھنے یعنی پامسٹری بہت اچھی جانتا تھا اور دور دور سے لوگ اس کے پاس آتے تھے۔۔ میں بھی شام کو اس کے پاس جا بیٹھتا جب وہ ہاتھ ک لکیروں پر پین کی سیاھی لگاتا اور لوگوں کو قسمت کا حال بتاتا ۔میں غور سے دیکھا کرتا۔ایک دن اس نے مجھے ایک کتاب دی کہ یہ پڑھ لو اور تم بھی سیکھ جاوگے۔ میں نے دو دن میں کتاب پڑھ کر حفظ کر لی۔اس نے میرا امتحان بھی لیا اور میرے جوابوں سے خوش ہوا۔ پھر جب رش ہوتا تو ایک دو ایسے گاہک میں بھی دیکھ لیتا اور اس کے علم کی روشنی کے مطابق بتا دیتا۔ اصل میں یہ ایک تُک بندی تھی۔کمزور عقیدہ لوگ اور عورتیں اس پر زیادہ یقین کرنے لگتی ہیں۔ غائب کا علم صرف اللہ پاک کی ذات جانتی ہے ۔خیر کلاس میں جب آدھی چھٹی ہوتی تو ٹائم پاس کرنے کے لیے کسی لڑکے کا ہاتھ میں دیکھ لیتا۔۔ یوں دوسری کلاسوں کے لڑکے بھی میرے گرد جمع ہونے لگے۔ میرا سکول ایمپرس روڈ لاھور پر تھا جو ریلوے سٹیشن سے شملہ پہاڑی کو ملاتی ہے۔اس روڈ پر لائین پولیس بھی واقع تھی۔ بریک کے وقت میں سکول کے گیٹ کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتا اور ہاتھ دیکھتا اور ایسے لطیفے ہوتے کہ لڑکے قہقہے لگاتے۔زیادہ زور شادی کی لکیروں کو پڑھنے پر ہوتا۔۔ہمارے سامنے مجھٹیہ ہاسٹل تھا جس میں کالج کے لڑکے رہتے تھے وہ بھی میرے فن سے فائدہ اٹھاتے حالانکہ وہ سینیر تھے ۔ ون یونٹ کا زمانہ تھا اور لاھور صوبائی ہیڈکوارٹر تھا۔اس زمانے خوشاب کا محمد خان ڈاکو بہت مشہور تھا جس کو پکڑنے ڈیرہ کی پولیس لاھور لائین پولیس آئی ہوئی تھی۔ بعد میں اخبار میں پڑھا کہ ڈیرہ پولیس نے سون سکیسر کی پہاڑیوں میں جا کر اس ڈاکو کو پکڑا بھی تھا جس کی قیادت مرحوم شاہ جہان خان Dsp ڈیرہ جو کچی پایند خان کے رہایشی تھے کر رہے تھے۔ خیر میں بریک کے وقت سکول کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا لڑکوں کے ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ ڈیرہ پولیس کے پانچ سپاہی سفید کپڑوں میں وہاں سے گزرے تو ہمارا تماشا دیکھنے لگے۔ اب ان کی زبان اور لباس سے میں فورا” سمجھ گیا یہ ڈیرہ وال ہیں۔کیونکہ اس وقت ڈیرہ وال ایک فٹ چوڑے پایچے والی سلوار پہنتے تھے۔ ایک سپاہی نے دوسرے کو کہا تم ہاتھ دکھاو تو وہ ہاتھ میرے سامنے آ گیا۔ میں نے کچھ لکیریں ہاتھ پر لگائیں اور کہا یہ ہاتھ صوبہ سرحد کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا ہے اور دو چار باتیں اور جڑ دیں جو تیر کی طرح نشانے پر لگیں۔بس سارے سپاہی میری بیعت پر راضی ہو گیے اور ہر آدمی مجھے ہاتھ دکھانے کی خواہش کرنے لگا۔وہ تو گھنٹی بجی اور بریک ختم ہوئی اور میں کلاس کے لیے سکول کے اندر چلا گیا۔ اس مظاہرے سے دوسرے لڑکوں کا یقین بھی پکا ہو گیا کہ میں پامسٹری کا ماہر ہوں اور سکول میں میرے دوستوں کی تعداد بڑھ گئی۔ بہر حال ڈیرہ کے گاوں کے مقابلے میں وہاں ہم جدید حماقتیں کرتے تھے ۔گاٶں میں تو دریا میں چھلانگیں لگا کر کئ بار ڈوبتے ڈوبتے بچے یا کانگا ماڑی میں زخمی ہو جاتے۔ اس طرح میں زندگی کو آزماتا رہا اور زندگی مجھے آزماتی رہی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

%d bloggers like this: