مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مطالعہ پاکستان کا نیا نصاب||عابدمیر

مَیں جو دوپہر ایک بجے سے سویا ہواہوتا،ماں ساڑھے چار سے پانچ کے بیچ جگادیتی۔مَیں چارپائی سے اُٹھ کر غسل خانہ تک جانے میں ذرا بھی دیر نہ کرتا،نہ ہی نہانے میں بھی زیادہ وقت لگاتا
عابدمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ پاکستان جدید (خالص و اصلی)
احمد اعجاز کی کتاب میں نے حسبِ ارادہ و حسبِ وعدہ عید کے دوسرے دن پڑھ ڈالی۔ میرے جیسی عمر والوں کے لیے شاید اس میں کچھ نیا نہ ہو مگر نئی نسل کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ خصوصاً اس نسل کے لیے جو صرف نصاب میں پڑھائے گئے مطالعہ پاکستان کو ہی اصلی اور پورا سچ سمجھتی ہے۔ ویسے پاکستان میں اکثریت اسی طرز پہ سوچتی ہے، اس میں کسی عمر کی نسل کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس لیے یہ ان سب کے لیے اہم کتاب ہے جو متبادل سچ کو جاننے کی خواہش اور اسے سننے کا یارا رکھتے ہوں۔
احمد اعجاز کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل میں مذہب کا نہیں، جاگیردار و تنخواہ دار مسلم اشرافیہ کا کردار تھا، جسے بعدازاں مولوی نے ہائی جیک کر لیا اور اسے ملک کی نظریاتی اساس بنا دیا، اسی کو وہ پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب قرار دیتے ہیں۔ اور اس مفروضے کو انھوں نے تاریخی واقعات اور دلائل سے ثابت بھی کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کا انداز مدلل اور معروضی ہے۔ کوئی جذباتی پن ہے نہ کوئی پھکڑبازی۔
لیکن میرا خیال ہے کہ کہیں کہیں بہ طور دانشور انھوں نے ٹھوکر کھائی ہے۔ (ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو)۔ مثلاً وہ پاکستانی شناخت کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر قومی شناختوں کو تسلیم کیے جانے کا مقدمہ تو لڑتے ہیں مگر دانستہ یا نادانستہ وہ انھیں مقامی یا علاقائی شناختیں قرار دیتے ہیں ("پاکستانی ہونے کے نیچے بھی کئی مقامی اور علاقائی شناختیں ہیں۔ ص-96)۔ اول تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مقامی یا علاقائی نہیں، قومی شناختیں ہیں (جیسے سندھی، پنجابی، بلوچ، پشتون وغیرہ) یہ قومیں ہزاروں برس سے اپنے اوطان پہ آباد ہیں، پاکستان ابھی کل کی بات ہے۔ اس لیے یہ "پاکستانی ہونے سے نیچے” کی نہیں، اس کے برابر کی شناختیں بھی ہیں۔ یہ غلط فہمی عمومی سہی مگر ایک دانشور کو اس کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اسی طرح ایک جگہ دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "جب بھی کسی مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا سہارا لیا جائے تو یہ دہشت گردی ہے۔” (ص 126) یہ بہت ہی مبہم اور سویپنگ قسم کا اسٹیٹ منٹ ہے۔ کیا اس کی رو سے آزادی کے مقصد کے لیے تشدد اپنانے والے فلسطینی اور کشمیری بھی دہشت گرد کہلائیں گے؟ دہشت گردی کی یہ تعریف امپیریل اور کالونیل قوتوں کی طے کردہ ہے۔ جو "مقصد کے حصول” والے تشدد کو تو دہشت گردی سمجھتے ہیں، اپنے بے مقصد تشدد کے لیے ان کے پاس دفاعی جواز ہوتا ہے۔ اس پہ خیر الگ سے مباحثہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی مکالمے کی راہ کھوٹی کرنے کو بھی فاضل مصنف بھٹو کی پھانسی سے منسوب کرتے ہیں (ص 128) حالاں کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی مکالمے کے راستے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے تھے۔ حیرت ہے کہ فاضل مصنف نے بھٹو کی پھانسی پر تو افسانوی جملہ طرازی کی ہے مگر اسی بھٹو کے ہاتھوں نیپ جیسی ترقی پسند عوامی قوت کی پامالی، بلوچوں پر بم برسانے، ان کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے پر ایک فقرہ بھی نہیں کہا۔ اس ساری تحریک سے وہ کنی کترا گئے ہیں۔ ایک بلوچ قاری اس فکری تضاد کو یقیناً محسوس کرے گا۔
ایک اور مثال دیکھیے۔
"جنوبی پنجاب کے لوگ طبعاً شریف اور بزدل ہیں اور ماردھاڑ کا کلچر یہاں کے لوگوں کا کبھی نہیں رہا۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے جو یہ کہ یہاں کے لوگ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے، تاریخ یہ بتاتی ہے کہ زمین سے جڑے ہوئے لوگوں کی فطرت تشدد سے پاک ہوتی ہے۔” (ص-143)
یہ رائے عصبیت زدہ لگتی ہے۔ پتہ نہیں تاریخ نے کب مصنف کے کان میں آ کر یہ بات بتائی، ورنہ زمین سے جڑا ہوا شخص تو اسے اپنی ماں سمجھتا ہے اور اس کے ناموس کے لیے جان پہ کھیل جاتا ہے۔ جن جن اقوام نے اپنی سرزمین کے لیے کشت و خون کیا، انقلاب کے لیے جانیں لٹائیں، کیا وہ اپنی زمین سے جڑی ہوئی نہ تھیں؟ تاریخ ان کے بارے میں جانے کیا کہتی ہے!
اسی طرح بلوچ قومی شناخت کو مصنف نے بارہا "بلوچی” لکھا ہے۔ بلوچ قوم ہے اور بلوچی اس کی قومی مادری زبان۔ یہ غلطی اکثر پنجابی احباب تو کرتے ہیں مگر لیہ کے سرائیکی سے ایسی توقع نہیں کی جاتی۔
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ حمزہ علوی صاحب کے اقتباسات میں اسے "بلوچ” ہی لکھا گیا ہے۔ 😊
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب چلتے چلتے زبان کی کچھ اغلاط کی نشان دہی ہو جائے۔ (ویسے اوپر کے جملے میں بھی "ایک وجہ ہے’ کے بعد "جو یہ” کے الفاظ اضافی ہیں)۔
مصنف نے دیہی تہذیب کو ایک جگہ دیہاتی تہذیب (ص 35) لکھا ہے، حالاں کہ آگے دیہی مسلم ثقافت، دیہی سیاسی نظام کی اصطلاحات بھی استعمال ہوئی ہیں۔
اسی طرح دیہات کو کئی جگہ دیہاتوں لکھا گیا ہے۔ حالاں کہ دیہات خود دیہہ (گاؤں/قصبہ) کی جمع ہے۔
گرامر کی رو سے جملے میں "نہ ہی” کا استعمال غلط ہے، نہ کے بعد ہی اضافی ہے۔ ایسا بارہا ہوا ہے۔
نظریے اور دیے کو نظرئیے اور دئیے لکھا ہے۔
متنازع کو ہر جگہ متنازعہ لکھا گیا ہے۔
"امریکی عوام سوال کرتی ہے” (ص 139) دو صفحات کے بعد اسی اقتباس کا یہ جملہ یوں ہے: "امریکی عوام سوال کرتے ہیں” (ص 141)۔ عوام بطور مذکر درست، مؤنث غلط ہے۔
ناگزیر کو ناگذیر لکھا گیا ہے۔ (ص 156)
راہ و رسم کو مذکر باندھا گیا ہے، جب کہ یہ مؤنث ہے۔ (ص 40)
"سماج سے مراد افراد کا وہ مجموعہ جو قواعد و ضوابط، اخلاقیات، اقدار، روایات، آزادی، مختلف بندھنوں اور ضرورتوں کے تحت مل جل کر رہتا ہو، سماج کہلاتا ہے.” (ص 97)
اس فقرے میں سماج سے مراد اور آخر میں سماج کہلاتا ہے میں سے کوئی ایک بات ہونی چاہیے۔ اس سے فقرہ تناقض کا شکار ہو گیا ہے۔
"یہ واقعہ چھٹی جماعت کے طالب علم اصغر کا ہے۔ اصغر سرکاری سکول میں چھٹی کا طالب علم ہے۔” (ص 128)
ان دونوں فقروں میں ایک ہی بات بتائی گئی ہے۔ اسے یا تو ایک ہی فقرہ بنایا جاتا یا دی گئی معلومات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا۔
(یہ واقعہ چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا ہے۔ اصغر ایک سرکاری سکول کا طالب علم ہے)۔
نیز یہ کہ ہر باب کے آخر میں "حواشی” کے بطور حوالہ جات تو موجود ہیں مگر کسی بھی کتاب کے ناشر کا نام درج نہیں۔ یہ حوالہ ادھورا ہے۔ یعنی قاری اگر اصل ماخذ تک پہنچنا چاہے تو یہ اس کے لیے سہل نہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاؤہ ازیں مجھے لگتا ہے کہ کتاب کا آخری باب اضافی اور بنیادی مقدمے سے لگا نہیں کھاتا۔ یہ سارا باب حالیہ واقعات کے خبرناموں پر مشتمل ہے۔ شروع میں کتاب کا بنیادی مقدمہ یہ نظر آتا ہے کہ مذہب، قیام پاکستان کی اساس نہ تھا۔ جب کہ آخری باب کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اب پاکستان کی نظریاتی اساس (بھلے سراب سہی) مذہب بن چکا ہے۔ اور اس کی دھاک کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہمارے روشن فکر مصنف کو بھی اپنے قاری کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں مذہب کے ہرگز خلاف نہیں” اور زور دے کر بتانا پڑتا ہے کہ "مذہب نے انسانیت کی خدمت کی ہے۔” (ص 94)۔
اصولاً مصنف کو "حرفِ آخر” کے دو چار صفحات ضرور شامل کرنے چاہئیں تھے، جس میں وہ اپنے سارے مقدمے کا نچوڑ قاری کے سامنے رکھتے اور اپنے دلائل کا خلاصہ اس میں بیان کرتے۔
باوجود اس کے، یہ کتاب پاکستان میں نصاب کی سطح پر رائج مطالعہ پاکستان کا شافی توڑ ہے۔ اسے متبادل نصاب کے بطور رائج ہونا چاہیے اور اس کی پیشانی پہ لکھ دینا چاہیے "مطالعہ پاکستان جدید (خالص و اصلی)”۔
پاکستان کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے بلوچ طلبا کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
May be an illustration
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب عکس پبلی کیشنز لاہور سے چھپی ہے اور اچھی چھپی ہے۔ عکس کی جو ڈاک مجھے آئی ہے، اسے دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں اس وقت اتنی اچھی اور نظری مباحث کی کتابیں کوئی اور ادارہ چھاپ رہا ہوں۔
کتاب کی قیمت یوں تو خاصی ہے مگر پبلشر سے براہِ راست منگوانے پہ خاصا ڈسکاؤنٹ مل سکتا ہے۔ میں پبلشر یہاں مینشن کیے دیتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: