اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کم سن بچی عین نکاح کے وقت بازیاب

حیدر آباد سے اغوا ہونے والی کم سن بچی کو پولیس نے بلوچستان کے علاقے جعفرآباد سےعین نکاح کے وقت بازیاب کرالیا۔

سندھ کے ضلع حیدر آباد سے اغوا ہونے والی کم سن بچی کو پولیس نے بلوچستان کے علاقے جعفرآباد سےعین نکاح کے وقت بازیاب کرالیا۔

سندھ پولیس کے مطابق بچی کو پہلے اغوا کیا گیا اور بعد میں اس کی شادی تین گنا بڑی عمر کے مرد کے ساتھ کروائی جا رہی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے  پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ بچی کو عین اس وقت بازیاب کروایا گیا

جب نکاح کی تقریب جاری تھی اور کمسن بچی سے زبردستی دو بار رضا مندی لے لی گئی تھی جبکہ تیسری بار ہاں کرنے سے پہلے ہی اسے بازیاب کروا لیا گیا۔

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں تعینات سب ڈویژنل پولیس آفیسر سٹی سرکل اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ آف پولیس علینہ راجپر نے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ

حیدر آباد کے علاقے نسیم نگر کی 13 سالہ کمسن بچی نگینہ (فرضی نام) مقامی سکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ ہے

اور اس کے والد کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔

پولیس کے مطابق ان کے ہمسائے میں ایک خاندان جو کہ کچھ عرصہ پہلے ہی اس علاقے میں منتقل ہوا تھا اور اس گھر میں رہنے والی خاتون کا ان کے گھر کبھی کھبار آنا جانا تھا۔

بچی کے بیان کے مطابق گذشتہ ماہ کی 18 تاریخ کو وہ تیار ہو کر سکول جارہی تھی کہ

اس خاتون نے بچی کو پیدل سکول جاتے دیکھ کر کہا کہ وہ پیدل سکول کیوں جارہی ہے؟

اے ایس پی علینہ کے مطابق بازیاب ہونے والی لڑکی کے بقول اس خاتون نے ایک رکشہ کرائے پر لیا

اور اسے اس رکشے میں سوار کروایا اور خود بھی اس رکشے میں بیٹھ گئیں۔

بچی کے بیان کے مطابق سکول کی عمارت قریب آنے سے پہلے رکشے والے کو اشارہ کرکے دوسری سڑک پر جانے کو کہا

جہاں پر پہلے ہی سے ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی جس میں اس خاتون کا بیٹا عبدالشکور پہلے سے ہی موجود تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بچی نے مزید بتایا کہ اس خاتون نے اسے رکشے سے اتار کر زبردستی گاڑی میں سوار کروایا اور اسے نامعلوم مقام پر لے گئے۔

بچی نے پولیس کو بتایا کہ جب اسے زبردستی گاڑی میں سوار کیا جا رہا تھا تو

اس نے شور مچانا شروع کردیا لیکن اس خاتون نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا پھر اس کے بعد اسے بے ہوش کردیا گیا۔

اے ایس پی علینہ راجپر کے مطابق پولیس نے پہلے دو تین دن تو اس واقعہ کا مقدمہ درج نہیں کیا

اور پولیس اور ان کے گھر والے اپنے تئیں اس کو تلاش کرتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ بچی کے والدین کی تو کسی سے دشمنی بھی نہیں تھی

اور نہ ہی وہ اتنے امیر تھے تو پھر اس بچی کو کون اغوا کرسکتا ہے؟

اے ایس پی کے مطابق جب کمسن بچی کا سراغ نہ ملا تو پولیس نے علاقے کی ریکی کرنا شروع کردی تو معلوم ہوا کہ

ان کی گلی میں کچھ لوگ حال ہی میں شفٹ ہوئے تھے اور اس واقعہ کے بعد وہ پورا خاندان غائب تھا۔

انھوں نے کہا کہ کمسن بچی کی والدہ کے بقول اس خاتون کا کبھی کبھار ان کے گھر آنا جانا ہوتا تھا اور اس خاتون کے بیٹے عبدالشکور کے زیر استعمال جو موبائل نمبر تھا وہ مغوی بچی کی والدہ کو معلوم تھا۔

اے ایس پی علینہ کے مطابق پولیس نے اس نمبر پر جب بھی رابطہ کیا تو وہ بند ملا تاہم جدید ٹیکٹالوجی کو استعمال کرتے ہوئے

پولیس کو یہ معلوم ہوا کہ پورے دن میں یہ موبائیل صرف پانچ منٹ کے لیے آن ہوتا ہے جس کے بعد وہ بند ہو جاتا ہے اور اس موبائیل کی لوکیشن سکھر کی بتائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس کی متعدد ٹیمیں وہاں پہنچیں اور یہ موبائل رات کے پچھلے پہر کچھ دیر کے لیے آن ہوتا تھا

اور پھر بند ہوجاتا تھا تو ایسے حالات میں ملزمان کا سراغ لگانا بہت مشکل تھا۔

علینہ راجپر کے مطابق اس عرصے کے دوران اغوا ہونے والی کمسن بچی کا اپنی والدہ کو فون آیا

اور اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور وہ اس وقت سکھر میں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جس نمبر سے ٹیلی فون آیا تھا جب اس کی لوکیشن معلوم کی گئی تو وہ بلوچستان کے علاقے جعفر آباد کی آرہی تھی۔

اے ایس پی کے مطابق سندھ پولیس نے بلوچستان پولیس سے رابطہ کیا اور اجازت ملنے کے بعد پولیس کی دو ٹیمیں جعفرآباد میں

اس علاقے میں گئیں جہاں سے یہ موبائل استعمال ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ پولیس حکام نے علاقے کے با اثر لوگوں سے بھی رابطہ کیا اور انھیں اس واقعہ کے بارے میں بتایا۔

علینہ راجپر کے مطابق علاقے کے لوگوں نے ملزمان کے گھر تک پہنچانے میں پولیس کی مدد کی۔

انھوں نے کہا کہ پولیس نے جب کمسن بچی کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارا تو اس وقت نکاح کی تقریب ہو رہی تھی

اور محلے کا مولوی کمسن بچی کا نکاح چالیس سالہ شخص ارشار عرف معشوق سے پڑھوا رہا تھا۔

اے ایس پی کے بقول اس نکاح سے متعلق اس کمسن بچی کی رضامندی حاصل کی جارہی تھی  انھوں نے کہا کہ اگر

پولیس تھوڑی سی بھی لیٹ ہوجاتی تو اس کمسن بچی کا نکاح ملزم ارشاد سے ہو جانا تھا۔

ملزم ارشاد کے بارے میں اے ایس پی کا کہنا تھا کہ وہ قتل کے دو مقدمات میں اشتہاری ہے اور وہ اس مقدمے میں نامزد دوسرے ملزم عبدالشکور کا رشتہ دار ہے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس نے جب بچی کی بازیابی کے لیے گھر پر چھاپہ مارا تو اس وقت ملزم کی والدہ اور اس کا رشتہ دار عبدالشکور گھر پر موجود نہیں تھے۔

علینہ راجپر کے مطابق بازیابی کے بعد کمسن بچی نے پولیس کو بتایا کہ اس گھر میں چار خواتین موجود تھیں

جو اس سے گھر کی صفائی اور برتن دھونے کا کام کرواتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کہیں غلطی ہوجاتی تو اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔

اے ایس پی کے مطابق بازیاب ہونے والی بچی کا کہنا تھا کہ ایک دن گھر کی صفائی کے دوران ایک کمرے میں موجود موبائل

جو کہ گھر میں موجود خواتین کے زیر استعمال تھا، کو پکڑا اور باتھ روم میں جا کر اپنی والدہ کو اس نمبر سے کال کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ جب وہ اپنی والدہ کو فون کر رہی تھی تو اس نے باتھ روم میں پانی کا نل چلا دیا تھا تاکہ باہر آواز نہ جائے۔

اے ایس پی کے مطابق اگر لڑکی اس موبائل سے اپنی والدہ کو فون نہ کرتی تو شاید اس بچی کا سراغ لگانا ناممکن ہو جاتا۔

کمسن بچی کو بازیاب کروانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں علینہ راجپر کا کہنا تھا کہ

پولیس نے سب سے پہلے ملزم کے بھائی کے زیر استعمال موبائل کا ڈیٹا متعلقہ موبائیل کمپنی سے حاصل کیا

اور اس کے بعد جہاں پر یہ فون استعمال ہو رہا ہے اس کے قریبی موبائل ٹاور کی لوکیشن معلوم کرکے ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس موبائل نمبر پر جنتی کالیں موصول ہوئیں اور جتنی کالیں کی گئیں

اس کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا اور جن نمبروں سے زیادہ مرتبہ کالیں آئی ہوں یا کالیں کی گئی ہوں تو

اس نمبر پر کال کر کے ملزم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

%d bloggers like this: