مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غنیمت||سجاد جہانیہ

روزنامہ "بدلتا زمانہ" کے قارئین کے ساتھ ملاقات کافی دنوں سے واجب تھی مگر یہ گماں نہ تھا کہ پہلی ملاقات جو گزشتہ ہفتے ہوئی، بیماری کے وسیلہ سے ہوگی۔ پہلی ملاقات تو ہنستے کھیلتے اور خوش گوار ماحول میں ہونی چاہئے تھی۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ "بدلتا زمانہ” کے قارئین کے ساتھ ملاقات کافی دنوں سے واجب تھی مگر یہ گماں نہ تھا کہ پہلی ملاقات جو گزشتہ ہفتے ہوئی، بیماری کے وسیلہ سے ہوگی۔ پہلی ملاقات تو ہنستے کھیلتے اور خوش گوار ماحول میں ہونی چاہئے تھی۔
گئے دنوں جب خط لکھے جاتے تھے تو خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا تھا۔ کالم بھی خط ہی کی ایک صورت ہے جو قاری کے نام لکھا جاتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ جس تحریر میں مکتوب نگار کی ذات نظر آئے یا کم از کم بین السطور موجود ہو، وہی کالم ہوتا ہے۔ ایسے حروف و کلمے جو اپنے لکھنے والے کے احوال سے خالی ہوں، مضمون تو کہلائے جاسکتے ہیں کالم نہیں۔ سو جب "روداد” کا لکھنے والا بیمار ہوگا تو کالم کیسے خوش گوار ہو سکتا ہے۔ آج کا یہ دوسرا کالم بھی کچھ ایسی ہی ملی جلی کیفیات کا اسیر ہے۔
انسان بڑا مفاد پرست ہے، خود غرض اور اپنے مطلب کا یار، جب سر پہ پڑی ہو تو گڑگڑاتا ہے، بلکتا ہے اور عجز و انکسار کی اخیر کر دیتا ہے، مطلب نکل جائے اور مانگا ہوا مل جائے تو غافل ہوجاتا ہے. میں اپنے آپ میں پچھلے ڈیڑھ دو ہفتے کے دوران یہ سب مشاہدہ کر چکا ہوں۔ مشاہدہ کیا تجربہ. اب کہ مشکل دن اللہ کے فضل سے گزر گئے ہیں تو اس کے ساتھ تعلق میں وہ خشوع و خضوع نہیں رہا۔ کتنی ہی شعوری کوشش کر لوں، وہ رنگ پیدا نہیں ہوتا۔ میرے بڑے بھائیوں جیسے استاد اور مربی تھے رانا اعجاز محمود، اس موذی وبا نے جولائی 2020ء کو انہیں ہم سے چھین لیا۔ بلا کے دانش وَر تھے اور گفت گو کے فن کے ماہر، سیاست سے مذہب تک اور کلچر سے شعر و ادب تک ہر موضوع پر بلاتکان گفت گو کرنے والے صاحب الرائے۔ اک عمر بائیں بازو کے حامی و وکیل رہے۔
میرے پاس ڈاکٹر وحید عشرت کی مرتبہ ایک کتاب بعنوان "روح کیا ہے” رکھی ہے۔ بہت دن پہلے ایک دفعہ میں اور رانا صاحب، شاکر بھائی کے کتاب نگر گئے۔ رانا صاحب نے کچھ کتابیں لینا تھی، مجھے بھی کہا کوئی کتاب پسند ہو تو بے تکلف لے لو، ناصر ساتھ ہے۔ ناصر، رانا صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں، آج کل دوبئی میں ہوتے ہیں، ان دنوں سعودی عرب سے آئے ہوئے تھے۔ رانا صاحب تو تھے میرے جیسے سرکاری ملازم، چنانچہ ناصر بھائی بہت سے معاملات میں رانا صاحب کے سپانسر ہوا کرتے تھے۔ میں نے ’’روح کیا ہے‘‘ لی اور رانا صاحب سے کہا کچھ لکھ دیں اس پر انہوں نے لکھا
سجاد..! روح…؟؟
تکتے رہتے ہو آسمان کو تم
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
نیچے چوبیس اکتوبر کی تاریخ ڈالی. سن نہیں پڑھا جارہا دو ہزار تیرہ ہے یا شاید چودہ۔
بہر حال اب کوئی سات آٹھ برس ہوئے، رانا صاحب نماز پڑھنے لگے تھے۔ اک روز آصف کھیتران بھائی کے گھر رانا صاحب جائے نماز لپیٹ کر رکھ رہے تھے کہ میں نے کہا رانا صاحب پچاسواں برس لگتے ہی آپ بھی آگئے نماز کی طرف؟
رانا صاحب نے بےساختہ کہا "میں عبادت کے طور پر تھوڑا ہی پڑھتا ہوں نماز، میں تو رب سے گفت گو کرتا ہوں’’
میں نے پوچھا "جواب آتا ہے..؟”
بولے "کبھی آجاتا ہے اکثر نہیں، مگر میں تو اپنی بات کر لیتا ہوں نا‘‘
سچی بات ہے یہ احساس مجھ جیسے نام نہاد مسلمان کو کبھی نصیب نہ ہوا مگر پچھلے ہفتے.
رانا صاحب کی اس بات کے کوئی چھ سات برس بعد کووڈ کا ٹیسٹ پازیٹو آیا تو میں گھر کے ایک کمرے میں قرنطینہ ہوگیا۔ جتنی انفرمیشن سوشل میڈیا اور ٹی وی، اخبارات میری بصارتوں کے راستے میرے اندر انڈیل چکے تھے، وہ سوچوں کی لہروں پر ہچکولے لینے لگی۔ تنفس کی تنگی، آکسیجن، وینٹی لیٹر، ہسپتال اور جانے کیا کیا نظروں کے آگے گھوم گیا۔ پھر اہلِ خانہ کا خیال، روح کانپ کے رہ گئی۔ رات بھیگنے لگی تو میں نے جانماز بچھا لی اور پھر جب پیشانی، گھٹنے اور پیروں کے پنجے ایک سطح پر لا کر بات شروع کی تو لگا مکالمے کا ماحول بن گیا۔ یہ مکالمہ بے صوت تھا، آواز سے عاری مگر کوئی تشفی دیتا تھا، تسلی کے بول کہتا تھا اور دل پر جیسے سکون الہام ہو رہا تھا۔ میں نے آسانیاں طلب کیں اور اس نے بخش دیں۔
اگلے روز جب باقی اہلِ خانہ کا بھی ٹیسٹ دیا اور سہ پہر کے وقت میرے قرنطینہ والے کمرے کے کھلے دروازے سے باہر کھڑے ہوکر زہرا نے مجھے سوتے میں جگا کر بتایا کہ زینب اور امامہ کا کووڈ بھی پازیٹو آیا ہے تو دل ایک مرتبہ پھر ڈوب کے رہ گیا۔ ہمارے اوپر کے پورشن میں دو بیڈروم ہیں۔ ایک میں تو میں تھا ہی، دوسرے میں زینب اور امامہ آگئیں۔ اپنی تکلیف سے زیادہ مشکل بچوں کی تکلیف دیکھنا ہے۔ سو میں پھر سے مکالمے کو پہنچا، اس نے سنا اور بےصوت جواب بھی دیا۔ سکون اور تسلی الہام کی۔
میں سوچا کرتا تھا کہ وہ اتنی بڑی کائنات کا مالک ہے جس میں اربوں کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں دو اڑھائی سو ارب ستارے/سیارے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کی زقند بھرنے والی روشنی ہانپ ہانپ جاتی ہے اور ایک سے دوسری کہکشاں تک پہنچنے میں لاکھوں برس لگا دیتی ہے۔ اس مسلسل پھیلتے بے کنار خلا کی ان گنت کہکشاؤں میں سے ایک میری کہکشاں ملکی وے، اس کے چار سو ارب سیاروں میں سے ایک یہ میری زمین۔ زمین پر بستے سات ارب انسانوں میں سے ایک میں. میری بھلا کیا اوقات اور کیا حیثیت کہ وہ میری سنے۔ صحارا ڈیزرٹ کے مالک کو ریت کے کسی ایک ذرے کی کیا پروا، مگر صاحب وہ پروا کرتا ہے۔ جب دل سے پکارا جائے تو کبھی کبھی وہ اپنی کائنات چھوڑ کے پاس آن بیٹھتا ہے، سنتا ہے، توجہ دیتا ہے، مکالمہ کرتا ہے. پکارنے والے کو یوں لگتا ہے اس کی ساری کائنات ہی میں ہوں مگر یہ کیفیت بہت کم بہم ہوتی ہے اور مجھ ایسے عامیوں کو تو بہت ہی کم.
جناب حنظلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیان کردہ حدیث کا آخری ٹکڑا ملاحظہ کیجئے۔’’…میں اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول حنظلہ تو منافق ہوگیا.
رسول اللہ نے فرمایا: کیا وجہ ہے؟
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہوجاتے ہیں۔ جب ہم آپؐ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو، ذکر میں مشغول ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔(صحیح مسلم:جلد سوم: حدیث نمبر 2465)
میں سوچتا ہوں جب کائنات کے سب سے بڑے انسان سے براہِ راست فیض پانے والوں کو یہ کیفیت صرف حضوری کی حالت میں میسر ہوتی تھی تو مجھ جیسوں کی کیا اوقات، مجھ ایسے عامی پر کسی بیماری اور تکلیف کے بہانے ہی یہ کیفیت کچھ دیر کو بہم ہوجائے تو غنیمت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: