مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‏ملتانی مخدوم بمقابلہ بلاول بھٹو||سید راحت نقوی

وہ سلمان نعیم کی ممبر شپ معطل کرانے میں تو کامیاب رہے ‏مگر ان کی مقبولیت کا توڑ نہیں کرسکے جو آج بھی اس صوبائی حلقے میں مخدوم صاحب سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ بچہ ان کے لئے دردِ سر بن گیا ہے۔

سید راحت نقوی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصل میں مخالفین کو کمتر اور بچہ سمجھنے کی عادت شاہ محمود قریشی میں بہت پرانی ہے۔ اس کا وہ خمیازہ بھی بھگت چکے ہیں، جب 2018ء کے انتخابات ہو رہے تھے تو انہوں نے ملتان میں اپنے صوبائی اسمبلی کی نشست پر حریف سلمان نعیم کو بھی ایک بچہ ہی سمجھا تھا۔ ‏

وہ اس وقت بھی اکثر کہتے تھے اس بچے کی کیا حیثیت کہ میرا مقابلہ کرے۔ وہ اپنی مخدومی اور پارٹی کی وائس چیئرمینی کے خمار میں تھے۔ مگر جب صوبائی حلقے کا نتیجہ آیا تو وہ چاروں شانے چت پڑے تھے۔

جسے وہ بچہ سمجھتے تھے اس نے انہیں بڑے مارجن سے شکست دے دی تھی۔ ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے ‏کے خواب چکنا چور کر دیئے تھے۔ جب یہاں سے شکست ہو گئی تو مخدوم صاحب نے دوسرے طریقے سے سلمان نعیم کو بچہ ثابت کرنے کے لئے یہ عذرداری داخل کروائی کہ شناختی کارڈ میں ان کی عمر زیادہ لکھی گئی ہے اور ان کے پاس دو شناختی کارڈ ہیں۔

وہ سلمان نعیم کی ممبر شپ معطل کرانے میں تو کامیاب رہے ‏مگر ان کی مقبولیت کا توڑ نہیں کرسکے جو آج بھی اس صوبائی حلقے میں مخدوم صاحب سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ بچہ ان کے لئے دردِ سر بن گیا ہے۔

 شاید اسی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی میں کہا کہ ملتانی نمائندہ اب اپنے حلقے میں جانے کے قابل ہی نہیں رہا ہے ‏اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے دستبردار ہو گیا ہے، خیر وہ تو سلمان نعیم تھا ملتان کا ایک نوجوان، جس کی نہ کوئی جماعت تھی اور نہ سیاسی حمایت، مگر اس کے باوجود اس نے شاہ محمود قریشی کو یہ سبق دیا کہ مخالف کو کبھی کمتر یا بچہ نہیں سمجھنا چاہیے، ‏وہ کسی وقت بھی پلٹ کر وار کر سکتا ہے۔ مگر لگتا ہے شاہ محمود قریشی اسمبلی میں یہ سبق بھول گئے۔

وہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی بچہ سمجھ بیٹھے۔ اسمبلی میں ان کے بچپن والے قد کا سائز بتانے لگے۔ یہ بھول گئے کہ جن دنوں کی وہ بات کر رہے تھے، ان دنوں وہ خود پیپلزپارٹی میں تھے ‏اور بلاول بھٹو کی ماں سے سیاسی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے آگے پیچھے پھرتے تھے

سید راحت نقوی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: