مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرے ملتان کا جرم کیا ہے ؟؟||محمود مہے

ملتان جو عظمتوں کی آماجگاہ ہے، تہذیبوں کا گہوارہ ہے، امن آشتی کا مرکز ہے ، ملتان جس کا بوڑھاپا اس کے نیک نیٹ ہونے کی گواہی ہے ، نامعلوم تاریخ سے معلوم تاریخ تک سوتیلوں کا جبر کیوں سہہ رہ ہے ؟ میرے ملتان کا جرم کیا ہے ؟؟

محمود مہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرہ ارض پر دو دریاؤں ( چندر بھاگا چناب اور پرتھوی پر راج کرتا راوی) کے بیچ آباد بوڑھا شہر ملتان جس کے لوگ جو کبھی بھی تلوار اور نیزے سے واقف نا تھے بلکہ دریا کی موجوں جیسا رقص کرتے جنگل میں چھلانگ لگاتے ہرن جیسی اٹھکیلیاں کرتے، ہنس جو دیوتا کی سواری ہے جتنا ایک دوسرے کو مقدس جانتے تھے ۔اس شہر کی قدامت اور خوشحالی اس کا جرم بن گئی۔ مقامی دراوڑو جو پرتھوی کے بیل کو زمین کی غلام گردشوں سے نکال کر اس سے سونا ( گندم) نکال رہے تھے پھر گندم نے ان کو دوشی کیا اور شمال سے آریائی جتھے جو اپنی رنگ و نسل کی عظمت کے گھوڑوں پر سوار تھے ان مقامیوں کو راخشس کہا اور ان کو باہر دھکیل کر اپنے ارد گرد تقدس کا ہالا اوڑ لیا حتکہ زبانوں کو اندرونی و بیرونی دائروں میں تقسیم کر دیا اپنی کو سنسکرت اور مقامی کی کو پراکرت کہا حتکہ کوئی راخشس وہ سنسکرت سنتا بھی تو سیسہ کانوں کی زینت بنتا۔ مقامیوں کے گیتوں، قصے کہانیوں کو فرسودہ کہا اور اپنے چار ویدوں ( رگ وید، یجر وید، سام وید ، اتھر وید) کو نافذ کر دیا، نافذ کیا ہوئے کہ ظلم کی کالی رات چھا گئی دھرتی کے وارث مارے گئے، جو بچ گئے دھرتی چھوڑ جنوب کی طرف دھکیل دیے گئے مردود حرم جو تھے۔
دھرتی کی ایک اپنی کشش ہوتی ہے جو اس کا رزق کھائے اسے اپنا رنگ دیتی ہے، کل کے حملہ آور دھرتی کے بیٹے ہوئے نکال دئے گئے مردود پھر اپنے مٹی کے بنائے ہوئے گگو گھوڑوں راخشس دیو ، اپنے رقص ناٹک کے ساتھ واپس آئے زندگی نے ابھی رقص شروع کیا ہی تھا کہ شمال سے پھر قہر برسا اور پھر کبھی ہن، کبھی سکندر اعظم (مقدونی) کبھی ترکی کبھی افغانی کی شکل میں برستا گیا اتنا خون بہا کہ دریاؤں کے رنگ لال ہوگیے، غزنی کا محمود جب "ایمان” کی طاقت سے نکلا یہاں کے بت گرانے تو خود اس کے شہر میں لارڈ بدھا کے بڑے بڑے مجسمے لگے تھے پر نظر نا آئے ، یہاں کے مردودوں کا اتنا خون بہا کہ شام کو اس کے ہاتھ تلوار کے ساتھ چمٹ گئے ، پھر عرب کے محمد بن قاسم کو یہاں کی "مظلوم لڑکی” کی آواز نے غیرت دلائی اور دیبل سے ملتان تک آ پہنچا یہ الگ بات ہے کہ اس کے چچا حجاج بن یوسف کے حرم میں کتنی نامحرم لڑکیاں تھیں، اور خود راجہ ڈاہر کی بیٹیوں پر عاشق ہو گیا تھا یہ سب تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔
پھر مغلوں سے کانے راجے رنجیت سنگھ تک ملتان کے بیٹے نواب مظفر خان شہید اپنی بیٹی صفیہ خانم سمیت اپنے خون کا خراج دیتے رہے اور آخر میں انگریز سامراج نے ملتان سے اس کی خود مختاری کا درجہ چھین کر داتا گنج بخش کی کشف المحجوب کے مطابق ملتان کے مضافات میں ایک قصبے لاہور کے حوالے کر دی اور آج تک خود مختار دھرتی قصبے جو کئی شہر نگل گیا ہے کے زیر تسلط ہے۔
اس ساری کتھا کا مقصد کہ وہ شہر جہاں دنیا کے پہلے مواحد پرہلاد بھگت کا جنم ہو جس نے اپنے باپ ہری کنشیپ کو للکارا کہ وہ خدا نہیں اور جہاں سے ہولی کی رسم کا آغاز کو لیکن بابری مسجد کی شہادت ہر سزا یہاں کا قدیم پرہلاد بھگت کا مندر بھگتے ، ملتان جس کے سورج میانی میں سوریا دیوتا کا مندر جہاں سے ایک حملہ آور کئی ہزار من سونا لے جائے اور آج کسی ملکہ کی طرح اپنے اجڑنے پر ماتم کناں ہو، ملتان جس کی تقدیس کی گواہی یہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے پہلے لوگ اس کی سرحدوں پر واقع جنوب میں سورج کنڈ، مشرق میں بدھلہ سنت، مغرب میں منا بھگت کے گھاٹوں سے اشنان کر کے آتے تھے اپنی بے حرمتی کا رونا کس کے سامنے روئے، ملتان جہاں دنیا کا پہلا رومانوی ناول کدمبری بھان بھٹ کی قلم سے نکلے وہ اپنی زبان چھن جانے کا مقدمہ کس عدالت میں پیش کرے ؟ ملتان جس کے تجارتی راستے دلی گیٹ سے نکل کر چولستان سے ہوتے ہوئے مونا باؤ تک جاتے ہوں پر نفرت کی گرد پڑے اور کرتار پور کھل جائیں تو اس بے انصافی کی دہائی کہاں دے؟ ملتان جس کے بیٹے راجہ داہر، مول راج ، دیوان ساون مل تو مذہب کی بھینٹ چڑھ جائیں لیکن اس خطے کی مقدس مقامات پر گھوڑوں کے اصطبل بنانے والے رنجیت سنگھ کا مجسمہ لگا دیا جائے اپنا ہیرو بنا کر تو اس دو رنگی کو خاک بنا کر سر پر کیوں نا ڈالے ؟
ملتان جو عظمتوں کی آماجگاہ ہے، تہذیبوں کا گہوارہ ہے، امن آشتی کا مرکز ہے ، ملتان جس کا بوڑھاپا اس کے نیک نیٹ ہونے کی گواہی ہے ، نامعلوم تاریخ سے معلوم تاریخ تک سوتیلوں کا جبر کیوں سہہ رہ ہے ؟ میرے ملتان کا جرم کیا ہے ؟؟

%d bloggers like this: