اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خوشبودار رپورٹر||مبشرعلی زیدی

باہوش ذرائع کے مطابق خوشبودار موبائل میں مزید آڈیوز بھی تھیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اور کس کس کا کون کون سا مال ریکارڈ پڑا ہوگا اور اگلی بار جانے کس پر کون سا الزام لگنے والا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ویری اوڈ امریکن فکشن، یعنی وی او اے ایف)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں جس ادارے میں کام کرتا تھا، اس میں ایک خاتون رپورٹر نہاتی نہیں تھیں۔
آپ کہیں گے، مجھے کیسے معلوم؟ ہاں بھائی، یہ کوئی سنی سنائی یا سونگھی سنگھائی بات نہیں۔ میرے سامنے ایک کیمرامین نے باس سے شکایت کی کہ خاتون رپورٹر سے شدید بدبو آتی ہے۔ اسائنمنٹ پر جاتے ہیں تو کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
باس کو سارے عملے کی ایک میٹنگ بلانا پڑی۔ اس میں انھوں نے تمام کارکنوں کو نہانے دھونے اور اس کی فرصت نہ ملے تو باڈی اسپرے استعمال کرنے کی ہدایت کی۔
کچھ عرصے بعد ان خاتون رپورٹر نے ایک ویڈیو ایڈیٹر پر جنسی ہراسمنٹ کا الزام لگادیا۔
الزام سچا ہی ہوگا اور خاتون رپورٹر نے شواہد بھی پیش کیے ہوں گے، تبھی اس کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
سب کارکنوں کو مجرم پر سخت غصہ آیا۔ ایک تو اس لیے کہ اس نے ایک معصوم خاتون کو جنسی ہراساں کیا۔ دوسرے اس لیے کہ کم بخت، تیری ناک نہیں ہے کیا۔ بلکہ شاید آنکھیں بھی نہیں ہیں۔ بقول شخصے، وہ رپوٹر اس قدر خوبصورت ہیں کہ ملکہ جنات منتخب ہوسکتی ہیں۔ کیا پتا، ہوچکی ہوں۔
کسی کے کچھ بھی کھانے پینے پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں۔ لیکن کوئی پیٹ بھر کے پی لے اور اسی حال میں دفتر آجائے تو شکایت بنتی ہے۔ ایک دن خوشبودار رپورٹر نے اسی عالم میں سب کے سامنے باس پر زبانی چڑھائی کردی۔ باس کی گھگھی بندھ گئی۔ سوچا ہوگا کہ کوئی جواب دیا تو ان پر بھی الزام نہ لگادے۔ کان دبا کے ایک کونے میں نکل لیے۔
ایک دن کیا ہوا کہ دفتر کے قریب ترین مشروب خانے میں چار کولیگ جوس یا اس سے ملتی جلتی کوئی شے پی رہے تھے۔ ان میں سے ایک وہ خوشبودار رپورٹر تھیں۔ ایک ساتھی کو کچھ شک ہوا۔ اس نے خوشبودار کا موبائل فون اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں ریکارڈنگ آن تھی۔ جتنی دیر سے وہ سب باتیں کررہے تھے، جن میں دوسروں کی اچھائیاں برائیاں شامل تھیں، وہ سب ریکارڈ ہورہی تھیں۔
تینوں کولیگز سخت ناراض ہوئے۔ ایک کو تو اتنا غصہ آیا کہ وہ ہاتھ اٹھاتے اٹھاتے رہ گیا۔ خوشبودار رپورٹر کو جان بچانے کے لیے وہ آڈیو ڈیلیٹ کرنا پڑی۔
باس کو یہ واقعہ بتایا گیا تو انھوں نے سرکاری قواعد و ضوابط والی کتاب نکالی۔ وہ زندگی کے تمام معاملات اسی سے دیکھ کر انجام دیتے ہیں۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ دفتر کے باہر کچھ بھی ہوتا رہے، آپ کو اس کا نوٹس نہیں لینا۔ البتہ پوری دنیا کا سوشل میڈیا دفتر کا حصہ ہے۔
باس نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر نہیں ہوا، اس لیے ہم اس میں غیر جانب دار رہیں گے۔
باہوش ذرائع کے مطابق خوشبودار موبائل میں مزید آڈیوز بھی تھیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اور کس کس کا کون کون سا مال ریکارڈ پڑا ہوگا اور اگلی بار جانے کس پر کون سا الزام لگنے والا ہے۔
کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ ویڈیو ایڈیٹر کو اسی طرح پھنسایا گیا یا وہ باولا واقعی سونگھنے کی حس سے محروم تھا۔
واللہ اعلم بالصواب

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: