اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیڑا۔۔۔۔||سید حسن محمود گیلانی

ایک دہائی گزاری ان شہدا ء کے وارثان نے اپنے لئے انصاف قربان کرکے، تمام ریشہ دوانیوں کو جھیل کر اور دہائی کا آدھ گملوں کے وار سہہ سہہ کرکہ جمہور جو انکے پرکھوں کی دین تھی، پر آنچ نہ آنے دی۔ ا

سید حسن محمود گیلانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا خیال ہے کہ میں ۵یا۶ سال کا تھا جب ایک جمعے کو ہم اپنے بڑے تایا کے گھر نہ گئے جوکہ ہر جمعے کا معمول تھاسو اس خلاف معمول بات پر جناب نے تمام صحن کی دیواروں پر کوئلہ چاکنگ کر ے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ واقعے کا بتانے کا مقصد تھا کہ مزاحمت کا کیڑاشروع سے ہی کافی شدو مد سے پایا جاتا تھا جو چونکہ تلف ہو نہ پایا بلکہ پڑھا پھلا پھولا اور آج یہ سطریں لکھنے پر مجبور کر ڈلا۔ ایک حقیقت تو آپ امجھ ہی گئے ہونگے کہ جوکیڑا ابتدا سے ہی پایاجائے تو اس سے جان چھڑانا خاصا مشکل ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک کیڑا اس مملکت خدادا د کے اولین دن جب اس ریاست کے بانی اپنا آئینی حلف اٹھا رہے تھے، تب اٹھا۔
اب جناح صاحب نے تو اپنے تئیے اس کیڑے کا مکو ٹھپا لیکن زبانی کلامی جسکا نتیجہ۔۔۔خیر جو ہوا وہ سب جانتے ہیں، مانیں چاہیں نا۔اصل معاملہ جو ہوا خراب وہ یہ تھا کہ اسی ریاست کے دوسرے جنم میں بھی اس وقت کے بانی سے کچھ ایسی ہی غلطی سرزد ہوگئیمطلب جہاں دینی تھی سزا،وہاں دیا سب دبا۔سمجھ سکتے ہیں کہ نیک نیتی میں تھے لیکن نیک نیتی کی سزا پھر خود بھگتی اور کیا مردانہ وار بھگتی کہ شہید ہوکر نام رہتی دنیا تک امر کراگئے اور نہ صرف یہ بلکہ اپنی اگلی نسل میں بھی وہی جوالا بھرگئے جمہوروالا۔ مگر ان سب کے ساتھ ساتھ وہ کیڑا جی جی وہی مرنا تو دور کی بات اور پنپتا رہا اور اتنا پنپا کہ مالک کل بن بیٹھا۔ اسی شہید کی بیٹی کو بھی یہی کیڑا کھاگیا لیکن وہ بینظیر خاتون اپنے خون سے اس ریاست کو ایک بار پھر جمہور دے گئیں۔
ایک دہائی گزاری ان شہدا ء کے وارثان نے اپنے لئے انصاف قربان کرکے، تمام ریشہ دوانیوں کو جھیل کر اور دہائی کا آدھ گملوں کے وار سہہ سہہ کرکہ جمہور جو انکے پرکھوں کی دین تھی، پر آنچ نہ آنے دی۔ اب کیڑا واپس بل میں تو گیا تھا مگر مرا نہیں تھا سو اس دہائی کے بعد اپنے گملوں کو گھما پھرا کر پھر سے جمہور پر شب خون دے مارا۔ مگر شہیدوں کے وارثوں کے باعث کھل کر قبضہ تو نہ کرسکا لیکن ہاں کھل کر ننگا ہوگیا۔
اب تو وہ جو اس کیڑے کو نجات دہندہ سمجھے بیٹھے تھے، وہ بھی سوشل میڈیا کے تھڑوں پر کھل لعن طعن کرنے لگے اور اکژکوئی تاریک راہوں میں سے نامعلوم کے ہاتھ چڑھ بھی جاتا تھا مگر چونکہ ان نامعلوم ہوچکے تھے معلوم تو شور زورشورسے بپاہوتا تو سیر سے واپسی زندہ ہونے بھی لگی۔ جمہور یت پسندوں کی آوزیں قدآور ہونے لگیں اور ہوتیں بھی کیوں نا شہیدوں کا خون جو شامل تھااور انھی شہیدوں کے وارث کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے اصل مشن میں سر دھڑ سے لگ گئے،سیاسی شعور! پارلیامنٹ، انتخابی میدان اور ابلاغ عامہ کے ہر وہ عوام کو انکے حقوق کا ادراک دینے، انکوسیاست کی اہمیت بتاتے اور سیاست کو پراگندا کرنے والوں کا مکروہ چہرہ بینقاب کرتے، اپنے شہداء کا حق نبھارہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اب جبکہ نئے پرانے گملوں میں کیڑے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا بھی ننگا ہورہاہے تو اب ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ تاریخ کے صحیح جانب کھڑے ہوں تاکہ کیڑے کا سفر تلافی سے آخر تلفی تک پہنچ پائے!

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: