اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کا ٹی ہاٶس||گلزار احمد

ڈیرہ میں ادیبوں اور شاعروں کے لیے کوئی ہال نہیں ہے اس لیے ڈیرہ کے ادیب اپنی بیٹھک کے لیے یونائیٹڈ بک سنٹر میں جمع ہوتے ہیں جو ان ادیبوں شاعروں کے لیے ٹی ہاٶس کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ میں ادیبوں اور شاعروں کے لیے کوئی ہال نہیں ہے اس لیے ڈیرہ کے ادیب اپنی بیٹھک کے لیے یونائیٹڈ بک سنٹر میں جمع ہوتے ہیں جو ان ادیبوں شاعروں کے لیے ٹی ہاٶس کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ جب دامان آرٹس کونسل کی تنظیم زندہ تھی تواس کا ایک دفتر بھی تھا جس میں ادیب و شاعر بیٹھا کرتے تھے مگر پھر ہم سب نے ملکر اس کا مَکُو ٹھپ کے رکھ دیا اور تنظیم بھی گئی اور دفتر بھی چلا گیا۔ اب ادب کے متوالے شھر کی گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں کہ منجی کتھے ڈھاواں ۔ آج صبح جب میں یونائیٹڈ بک سنٹر پہنچا تو خوشحال ناظر اور ذیشان پہلے سے یہاں موجود تھے۔ لطیف صاحب تیز بخار کے باوجود سنٹر کھول کے بیٹھے تھے کیونکہ ادیبوں کی میزبانی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفیں کے صوبائی صدر ثنا اللہ شمیم گنڈہ پور اور تنظیم کے سرپرست اعلی ارشاد حسین شاہ پہنچ گیے۔ پھر عنایت عادل اور ڈاکٹر اخلاق احمد آگیے۔ ممتاز شاعر رحمت اللہ عامر ۔سعد الدین ۔ علمی ادبی اور سماجی شخصیت ریحانہ فردوس ڈومرا ۔ پروفیسر طارق ۔ ابوالمعظم ترابی صاحب بھی آ گیے۔ تو جناب ڈیرہ کے ادیبوں کاخود بخود ایک خوبصورت اکٹھ ہو گیا۔ اس کے بعد اچانک ڈیرہ کی معروف ادبی و علمی شخصیت ایڈیشنل کمشنر ایف بی آر جناب سلطان محمد نواز ناصر صاحب پہنچ گیے اور اپنی گفتگو سے غیر رسمی سی تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ انہوں نے ڈیرہ کے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کی خدمات کے حوالے سے بڑی علمی باتیں کیں ۔ وہ خود بہت بڑے شاعر ۔ادیب اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف ۔ شھید عشق ۔ کے نام سے ہے۔
دوسری کتاب ۔۔سیرت نور۔۔ ہے جو نور سلطان القادری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت سے متعلق ہے۔ تیسری تصنیف ۔۔کہیں نہیں ۔۔۔ انکی آزاد نظموں کا مجموعہ ہے اور چوتھی کتاب انہوں نے اپنے دادا اور جمعہ شریف کے پیر غلام باہو رحمتہ اللہ کے خطوط پر مبنی لکھی ہے جو ایک اہم دستاویز ہے۔ اس موقع پر ثنا اللہ شمیم گنڈہ پور نے بتایا کہ کرونا کی بیماری کے باوجود ڈیرہ کے ادیبوں اور شاعروں نے گزشتہ سال بہت سی کتابیں شائیع کیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ ممتازشاعر ۔مصنف اور ادیب خوشحال ناظر میں ایک بہت اعلی خوبی میں نے دیکھی ہے کہ جب بھی کوئی ادب کی تقریب ہو وہ ہمیشہ ایک بہترین میزبان بن جاتے ہیں اور ادیبوں کو ہر قسم کی سھولیات پہنچاتے ہیں۔ آج کے اکٹھ میں بھی وہ پیش پیش رہے اور ایسا بندوبست کیا کہ دل خوش کر کے رکھ دیا۔ ہماری باب العلم کی گزشتہ تقریب میں بھی انہوں نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر کے خراج تحسین وصول کیا۔ عنایت عادل صاحب نے ادیبوں کے لیے کیموٹی ہال کی ضرورت پر زور دیا اور اس مقصد کے لیے تگ و دو کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ رخسانہ ثمن صاحبہ اور احسان بلوچ نے اس اکٹھ کی تصاویر واٹس ایپ پر دیکھ کر ان کو اطلاع نہ کرنے کا گلہ کیا۔عرض یہ ہے کہ یہ غیر رسمی ملاقات تھی جس میں شرکت کی کوئی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ ریحانہ فردوس صاحبہ نے تمام حاضرین کو مریالی موڑ پر اپنے کاٹیج میں چائے کی دعوت دی جو قبول کر لی لی گئی۔ہو سکتا ہے ادیبوں کا اگلا اکٹھ ان کے ہاں ہو۔ رحمت اللہ عامر نے ریحانہ ریحانہ فردوس ڈومرا کو اپنی کتاب جلیبیاں پیش کی۔

%d bloggers like this: