مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاباش خان، ڈو مور سے نومور تک کا سفر||سارہ شمشاد

ان حالات میں ضروری ہے کہ اب پاکستان کو سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی ہر سطح پر اختیار کرنی چاہیے تاکہ پاکستان دنیا بھر میں ایک مقام حاصل کرسکے یہی وقت کا تقاضا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لئے اڈے نہیں دے سکتے۔ وزیراعظم کے افغانستان میں ایکشن لینے کےلئے کسی کو بھی پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، خان کے دبنگ اعلان سے پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے کہ وہ سفر جو 9/11کے بعد ڈومور کے مطالبے سے شروع ہوا تھا، اب اس کا نومور سے بڑے جرات مندانہ انداز میں اختتام ہوا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ڈو مور سے نو مور تک سفر کوئی آسان نہیں پاکستان نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بڑی قربانیاں دیں جس کا سہرا ہمارے سکیورٹی ادارے بالخصوص عوام مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے 9/11کے بعد جس طرح صبر کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان دنیا کی وہ واحد قوم ہے جس نے ان دیکھی دہشت گردی کو مار بھگایا بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ کثیرالجہتی دہشت گردی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہاں فوج کی جرات، بہادری اور قربانیوں کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کہ محدود وسائل کے باوجود اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور حریف کو چاروں شانے چِت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنی فوج پر فخر ہے کہ جو ہر مشکل کا مقابلہ جرات سے کرتی ہے۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے چند روز قبل امریکہ کو افغانستان کے لئے ہوائی اڈے دینے کی تصدیق کرنے کا تاثر جنم لے رہا تھا لیکن وزیراعظم کے جرات مندانہ انکار کے بعد اس تاثر کی نفی ہوئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی اور ملک میں بنتی ہے بلکہ عمران خان پاکستان کے وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے انتہائی پراعتماد انداز میں دنیا کو باور کروایا ہے کہ اب پاکستان کو مزید ڈکٹیشن نہیں دی جاسکتی۔
اسی طرح چند روز قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا وزیراعظم کو فون آیا تو عمران خان نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ اب معاملات اور بات چیت دونوں برابری کی سطح پر کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے ’’Absolutly No‘‘کے رسپانس سے ہر پاکستانی بہت خوش ہے کیونکہ اس دبنگ انداز سے ایک مضبوط اور خودمختار ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے کہ یہی وہ خواب ہے جو اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے اسی مقصد کے حصول کے لئے علیحدہ وطن حاصل کیا تھا کہ جب کسی امیر ملک کا غلام بننے کی بجائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ جب امریکہ کو انکار کا سامنا ہے بلکہ امریکی خود بھی حیران اور پریشان ہیں اور سکتے کی حالت میں ہیں کہ کس طرح ایک کمزور معیشت رکھنے والا ملک ان کو انکار کی جرات بھی کرسکتا ہے لیکن چونکہ اب عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ اور جرات دونوں رکھتے ہیں اس لئے تو امریکی دھمکیاں بھی کارگر اس حقیقت کے باوجود نہیں ہورہیں کہ پاکستان کی حالیہ قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیا میں عزت صرف خوددار قوموں کی ہی ہوتی ہے۔ تاہم جہاں تک امریکہ کو فوجی اڈے نہ دینے کا تعلق ہے تو اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت کا اچھی طرح علم ہے کہ امریکہ کی جنوبی ایشیائی خطے میں موجودگی چین پر نظر رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب سے چین اور بھارت کے تعلقات خراب ہوئے ہیں اور بھارت مسئلہ کشمیر کے معاملے سمیت دیگر کئی ایشوز کی بنا پر خود متنازعہ ہوکر رہ گیا ہے اور دنیا بھر میں اس کی سبکی ہورہی ہےبلکہ خود امریکہ بہادر نے بھی بھارت کو آنکھیں دکھائی ہیں ان سب کے باوجود اگر پاکستان امریکہ کو گھاس نہیں ڈالتا تو پھر چاروناچار امریکہ کو بھارت پر ہی انحصار کرنا ہوگا اور کچھ اسی قسم کا رویہ امریکہ کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے موقع پر اپنائے جانے کی توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف میں ووٹ ڈالے گا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض انکار سے امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ پاکستان کواس طرف بھی نظر رکھنی چاہیے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے امریکہ طالبان معاہدہ قطر چونکہ امریکہ کے اپنے مفاد میں تھا توپھر Use & waste کی پالیسی پر عمل پیرا امریکہ پاکستان سے کیونکر اچھے رویے کی توقع کرسکتا ہے۔ امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کا مطلب اپنی خودمختاری کو دائو پر لگانا تھا خاص طورپر اس وقت جب امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد خونریزی کا خدشہ پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ گیا ہے تو ضروری ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت مزید بہتر بنانے کی طرف توجہ دے کیونکہ افغانستان اس وقت اسلحہ کا ڈھیر ہے جس کا ملک دشمن عناصر بالخصوص بھارت فائدہ اٹھاسکتا ہے اس لئے پاکستان کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھے اور انہیں ناکام بنانے کے لئے ابھی سے پلاننگ کرے تاکہ دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف کسی دوسرے ملک نے پاکستان جتنی قربانیاں دی ہوں تو وہ سامنے آئے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے اور اپنے امیج کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے وطن عزیز میں کوئی بھی امریکی ڈرون اٹیک نہیں ہوا جس پر حکومت یقیناً مبارکباد کی مستحق ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دی ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا کا چوتھا ملک قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان سے اوپر جن ملکوں کے پاسپورٹ ہیں ان میں شام، عراق، افغانستان اور صومالیہ ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے جس طرح امریکہ کو کسی صورت فوجی اڈے نہ دینے کا دوٹوک جواب دیا ہے اسی طرح اگر معاملات بالخصوص معیشت کے حوالے سے بھی پاکستان کو اسی قسم کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے تاکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ظالمانہ شرائط سے غریب عوام کو نجات دلوائی جاسکے۔ آج تک پاکستان کے جتنے بھی بجٹ آئے وہ سب کے سب آئی ایم ایف کی من مانیوں کے تابع تھے۔ بلاشبہ اس چنگل سے نکلنا کوئی آسان نہیں ہوگا لیکن پاکستانی حکومت کو اب اپنی پالیسیاں چاہے وہ خارجہ ہوں یا یا داخلی سب خود ہی بنانی چاہئیں جس میں صرف اور صرف پاکستان اور اس کے عوام کا مفاد سب سے پہلے ہو۔ ایسا اگر ہو ہوگیا تو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں قیام امن کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ اکیلے پاکستان پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے افغانستان کی پیچیدہ تر ہوتی ہوئی صورتحال اور مسئلہ کشمیر جیسے بنیادی ایشوز کو جب تک سنجیدگی کے ساتھ دنیا نہیں لے گی اس وقت تک جنوبی ایشیائی ترقی محض ایک خواب ہی رہے گی۔ ایسے میں وزیر خارجہ کا بین الاقوامی برادری سے اس جانب توجہ دینے کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ اب پاکستان کو سب سے پہلے پاکستان کی پالیسی ہر سطح پر اختیار کرنی چاہیے تاکہ پاکستان دنیا بھر میں ایک مقام حاصل کرسکے یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: