اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک کالم ’’مومنہ‘‘ والے حافظ جی کے لئے||حیدر جاوید سید

’’اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ہی ہے بھارت یا امریکہ کی ہرگز نہیں اگر اسے مداخلت بیجا سے پیدا شدہ مسائل کا ادراک ہوگیا ہے اور وہ محفوظ راستے کی طلبگار ہے تو راستہ دینا چاہیے۔‘‘

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یکِ از عاشق صادق ’’(ن) لیگ حافظ صفوان محمد قبلہ کا پیغام سول سپر میسی و اسٹیبلشمنٹ جمع پیپلزپارٹی موصول ہوا۔ حافظ جی کی خیر ہو صاحب علم آدمی ہیں پچھلے کچھ عرصہ میں چند کتابیں پھڑکا(مرتب و تدوین)چکے۔ ملتانی منڈلی کی رونق ہیں۔ عام زندگی میں برداشت کمال کی ہے دوستوں کی محفل میں کھل اٹھتے ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل ملتانی منڈلی کے ایک کٹھ میں ہم نے عرض کیا تھا
’’اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ہی ہے بھارت یا امریکہ کی ہرگز نہیں اگر اسے مداخلت بیجا سے پیدا شدہ مسائل کا ادراک ہوگیا ہے اور وہ محفوظ راستے کی طلبگار ہے تو راستہ دینا چاہیے۔‘‘
حافظ صاحب کا خیال یا گمان یہ ہےکہ جب یہ بات ہوئی تھی تب پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ’’محبتوں‘‘ کا سلسلہ جاری تھا اس لئے ہماری رائے یہ تھی۔
اب چونکہ اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ کے درمیان ٹوٹے ہوئے رشتے پھر سے استوار ہورہے ہیں تو شاہ جی کی رائے بدل گئی ہے۔
مکرر عرض ہے (ن) لیگ یا پیپلزپارٹی یا کوئی نئی تخلیق کردہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دے میری رائے وہی ہے جو پہلے عرض کرچکا ہوں
محفوظ راستہ اس شرط پر کہ اسٹیبلشمنٹ اعتراف کرے کہ جو ہوا وہ وقتی غصہ اور گروہی مفادات کی بدولت تھا۔ مستقبل میں نظام اور سیاسی عمل میں مداخلت کی بجائے دستوری کردار تک محدود رہیں گے۔
اب بھی یہی عرض کروں گا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ہے بھارت امریکہ یا افغانستان کی ہرگز نہیں اس سے بات کرنے، رابطے رکھنے اور درمیانی راستہ نکالنے میں کوئی امر مانع ہے نہ یہ کفروغداری ہے۔
نامناسب بات یہ ہے کہ ایک جماعت (ن لیگ) اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرے، مفاہمت اپنی نہیں بلکہ ان کی ضرورتوں پر کرنے کو تیار ہو اور اس کے "سدھائے ہوئے” صحافی، کالم نگار اور اینکرز پیپلزپارٹی پر چڑھ دوڑیں، حقائق کو مسخ کریں تو جواباً کوئی نہ کوئی تو بات کرے گا۔
وہ کوئی ہم بھی ہوسکتے ہیں۔
اعتراض اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے، رشتے دوبارہ جوڑنے پر نہیں اعتراض اس پر ہے کہ ملاقاتیں راولپنڈی سے لاہور تک آپ کریں اور گالیاں پیپلزپارٹی کو دلوائیں۔
پیپلزپارٹی فرشتوں کی نہیں انسانوں کی جماعت ہے۔ خوبیاں خامیاں سب میں ہوتی ہیں کس میں نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں ہوا کیا ان سطور میں پنجاب سے بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروانے کے حوالے سے دو ملاقاتوں کی بات کی اب بھی اس پر قائم ہوں کہ یہ دونوں ملاقاتیں لاہور چھاونی کے ایک بڑے گھر پر ہوئیں۔
ایک ملاقات راولپنڈی میں ہوئی اس کے لئے شہباز شریف اپنے صاحبزادے کے ساتھ ایک دوست کی گاڑی میں لاہور سے راولپنڈی پہنچے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد ان (شہباز شریف) کے لئے کچھ آسانیاں پیدا کی گئیں۔ اگلے مرحلہ پر حکومت آڑے آگئی پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
شہباز شریف کس کی گاڑی میں لاہور سے پنڈی گئے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ گاڑی ایک آئل کمپنی کے مالک کی تھی (حافظ جی چاہیں تو گاڑی کا نمبر بھی عرض کرسکتا ہوں) عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جو ایکدم مولانا فضل الرحمن، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی بدزبانیوں پر اتر آئے یہ چور مچائے شور والی صورتحال تھی اور ہے میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ (ن) لیگ اور جے یو آئی نے کسی سے طے کیا تھا کہ
’’ہم پیپلزپارٹی سے سندھ اسمبلی خالی کروادیتے ہیں‘‘۔
اس کا مطلب کیا تھا؟
یہ کہ لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی صورت میں ایمرجنسی لگاکر ضمنی انتخابات کروائے جائیں اور مرضی کے نتائج حاصل کر کے 18ویں ترمیم کی قبر کھودی جائے۔
(ن) لیگ کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں پر کوئی اعتراض نہیں اعتراض دو باتوں پر ہے اولاً اپنے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ، اس میں جاتی امرا نیوز گروپ بھی شامل ہوا ثانیاً وہ بدزبانی جو گالم گلوچ تک پہنچی اس کے ذمہ دار فضل الرحمن، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور مریم نواز ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ مریم نواز کہتی ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کا موقف میرا موقف ہے کیا شاہد خاقان عباسی نے ان کی رضامندی سے یہ ’’وعدہ‘‘ کیا تھا کہ مریم نواز کو لندن بھجوادیا جائے گا؟
ہم آگے بڑھتے ہیں، فروری میں اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا تھا قومی حکومت کی تجویز پیش کی گئی ساتھ ہی 18ویں ترمیم میں کچھ ترامیم کے لئے مدد طلب کی گئی۔ پیپلزپارٹی کا موقف تھا ہمارے پاس عدم اعتماد کے لئے تعداد پوری ہے پھر ہم قومی حکومت کے جھنجٹ میں کیوں پڑیں۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ وزیراعظم کو وسط مدتی انتخابات کا مشورہ دیا جائے۔ یہاں آکر معاملات رک گئے اس کے بعد محمد زبیر، شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمن سے رابطے ہوئے ان رابطوں کے بعد ہی لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی شُرلی چھوڑی گئی اور کرائے کے تجزیہ نگاروں کے ذریعے ایسی فضا بنادی گئی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ پی ڈی ایم کے مارچ والے سربراہی اجلاس میں استعفوں کا اعلان ہوجائے گا۔
نوازشریف اگر ان معاملات سے آگاہ نہیں تھے تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جو استعفے نہیں دے گا وہ غدار ہوگا؟
مطلب (ن) لیگ اور جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں میں تھے اور دیا گیا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے پرجوش بھی۔
پی پی پی اور اے این پی نے سربراہی اجلاس میں سوال کیا لانگ مارچ سے قبل استعفوں کا معاملہ کب طے ہوا تھا؟
آصف علی زرداری کی بات کو غلط رنگ دے کر میڈیا تک کس نے پہنچایا۔
دو آدمیوں نے شاہد خاقان عباسی اور عبدالغفور حیدری نے۔
آج صورتحال کیا ہے (ن) لیگ کہاں کھڑی ہے اسے سمجھنے کے لئے صرف کامران خان کو گزشتہ شب دیا گیا شہباز شریف کا انٹرویو سن لیجئے۔
مکرر عرض کروں، اسٹیبلشمنٹ سے جس نے بھی معاملہ کرنا ہے خوشی سے کرے۔ عوام کو بتائے کہ ملاقاتوں میں کیا طے ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ وہ کیا دے گی اور آپ اسے کیا دے سکتے ہیں
یہ نادرست بات ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ظاہری ملاقاتیں آپ کریں، سودے بازی بھی لیکن گالیاں پی پی پی اور اے این کو دلوائیں۔
آخری بات میں نے کبھی کسی سیاسی اتحاد کو فطری یا غیرفطری نہیں کہا لکھا۔ سیاسی اتحاد وقتی ضرورتوں پر بنتے ہیں۔ اور یہ ٹوٹتے بھی ہیں پی ڈی ایم جس طرح ٹوٹا اس پر سب کو افسوس ہے۔
دکھ والی بات یہ ہے کہ پنجاب کی لیڈر شپ نے ایک بار پھر 1980ء کی دہائی والا رویہ اپنایا تب کھل کر آئی جے آئی کی صورت میں اور اب طریقہ واردات قدرے مختلف رہا۔
سیاست مفادات کے لئے ہی کرتے ہیں سب لیکن گالی وہ دیتا ہے جس کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: