مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تامل ناڈ کے "کتھائی سولی” رجن نائرائن بھی چلے گئے||عامر حسینی

رجن نائرائن نے کمیونسٹ پارٹی انڈیا میں شرکت اختیار کی اور وہ 1947ء سے 1951ء تک تامل ناڈو میں چلنے والی کسان بغاوت (کسان اندولن) میں عملی طور پہ شریک رہے اور ان کو قید بھی کاٹنی پڑی۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزری 17 مئی 2021ء کو ہندوستان کی ریاست تامل ناڈو کے ادیب شہیر کی رجن نارائن کا 97 سال کی عمر دیہانت ہوگیا۔ یہ وہ ادیب تھا جو پونڈی چری یونیورسٹی میں لوک کتھا کا پروفیسر تھا حالانکہ اس نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ 2020ء میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا تھا:”میں تو بس بارشوں سے بچنے کے لیے اسکول کی عمارت میں داخل ہوا کرتا تھا اور وہاں سے موسلادھار برستی بارشوں کا نظارہ کیا کرتا تھا”۔
اس نے تامل ناڈو کی سیاہ زمین میں بسنے والے مقامیوں کی کہانیاں بیان کیں اور یہی اس کی شہرت کا سبب بھی بنی ۔ وہ ساری عمر تامل ناڈو کے ایک علاقے کویل پٹی کے ایک گاؤں میں کزاری جو ضلع ٹھوٹھوکڈی میں واقع تھا۔ اور 1989ء میں وہ پونڈوچری میں منتقل ہوا جب اسے وہاں "تامل لوگ ادب” کا پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔
اس نے یوٹیوب پہ موجود ایک انٹرویو میں بتایا کہ 1950ء میں اس نے پہلی کہانی لکھی تھی اور اسزمانے میں سرسوتی رسالے میں وہ چھپی تھی اور اسے اس کہانی لکھنے کے دس روپے ملے تو اس نے پہلی بار سٹین لیس سٹین کے برتن خریدے تھے جبکہ اس زمانے میں تانبے اور کانسی کے بنے برتن استعمال میں ہوتے تھے۔
انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے کی رجن نارائن کو بچپن میں ہی ٹی بی کا مرض لگ گیا تھا اور اس زمانے میں یہ مرض ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا – رجن نائرائن تامل ناڈو میں اپنےآبائی ضلع میں سالویشن آرمی کے بنے ہسپتال کے جنرل وارڈ مومیں کچھ عرصہ داخل رہے جہاں ایک امریکہ سے آیا مشنری ڈاکٹر نوبیل انچارج تھا جو تامل ناڈ کے عام لوگوں کی طرح دھوتی اور کرتہ پہنا کرتا اور تامل زبان میں ہی لوگوں سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ شاید اس کے علاج نے ہی ہمارے اس غریب کسانوں کی زندگیوں کی داستانیں رقم کرنے والے اس ادیب کی جان بچادی تھی اور اس نے 97 سال کی عمر پائی۔
کی رجن نائرین نے تین ناول لکھے اور اس میں پہلا ناول "گوپالا گرام گاؤں” تھا جس کا انگریزی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہوا اور اسے ساہیپہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا۔
اس کی ایک کہانی "دھوتی” بہت مشہور ہوئی ۔ جس میں شہر کی اشرافیہ ایک ایسے آزادی کے سورما کو عزت بخشنے جاتے ہیں تو وہ آزادی کا سورما اپنی پھٹی دھوتی کے چھید ان سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
رجن نائرائن نے کمیونسٹ پارٹی انڈیا میں شرکت اختیار کی اور وہ 1947ء سے 1951ء تک تامل ناڈو میں چلنے والی کسان بغاوت (کسان اندولن) میں عملی طور پہ شریک رہے اور ان کو قید بھی کاٹنی پڑی۔اس کے بعد ان کو 1952ء میں ان کو نیلائی سازش کیس میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ان پہ الزامات واپس لے لیے گئے تھے۔
رجن نائرائن کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے دانشور ادیب تھیمژسلوان کہتے ہیں کہ میں تامل ناڈو میں کسانوں میں کام کرنے والے کامریڈوں کو کہتا ہوں کہ وہ کی رجن نائرائن کی کہانیاں اور ناول ضرور پڑھیں جس سے انھیں حقیقت سے جڑنے میں اور کسانوں کو منظم کرنے میں آسانی ہوگی۔
رجن نائرائن کا کہنا ہے کہ جن دنوں "سرسوتی” میں تامل کے ایک اور نامور ادیب جیا کانتھن کی کہانیاں شایع ہورہی تھیں توانھی دنوں میں انھوں نے بھی لکھنا شروع کیا تھا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن ان سے ملنے "جیا کانتھن ” اس وقت آئیں گے جب وہ ہسپتال میں بیمار پڑیں گے ہوں گے اور وہیں وہ پہلی بار مغربی موسیقی سنیں گے۔
کی نارائن کہا کرتے تھے کہ انھوں نے پہلے پہل باقاعدہ گیت سنگیت کی تربیت لینے کا فیصلہ لیا تھا اورباقاعدہ ایک استاد کی شاگردی اختیار کی تھی لیکن نگوڑی ٹی بی کی بیماری آ لگی اور پھیپھڑوں نے گانے نہ دیا اور پھر سوچا کہ اس کی تلافی وائلن سیکر کر کروں گا لیکن بیماری شدت اختیار کرلی تو وہ خواب بھی پورا نہ ہوا تو بس پھر کہانیاں لکھنے لگا۔
رجن نارائن اپنے آپ کو "کتھائی سولی” (داستان گو) کہلوانا پسند کرتے تھے۔ تامل ناڈ والوں نے ان کے دیہانت کے وقت ان کا سرکاری طور پہ کریاکرم کیا۔
پاکستان میں زبانوں اور بولیوں بشمول ان کے ساتھ جڑے کلچر کو عزت، آدر، نام دلوانے کے لیے خون کے دریا عبور کرنے پڑے ہیں ۔ اور اب تک یہاں دھرتی واسیوں کی زبانوں، بولیوں اور لہجوں کو لیکر مذاق اڑانے اور تضحیک کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب مسلم لیگ نواز کی ایک پنجابی رہنما نے پنجاب کے چیف منسٹر کو خانہ بدوش/ چرواہا کہہ کر ان کا مذاق اڑایا۔ اور یہ ان پنجابی شاؤنسٹوں کے طریقہ کار کی پیروی تھی جو تاحال سرائیکی کو الگ زبان ماننے اور اس کے لہجوں کو شائستہ ماننے سے انکاری ہیں۔
یہاں پہ یو پی اور سی پی کے اردو بولنے والے حکمران اشراف خانوادوں کو پاکستان کی مقامی زبانیں اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے ہریانوی، راجھستانیوں ، بھوچ پوریوں کے لہجے تہذیب اور شائستگی سے عاری لگتے تھے ۔ ان کو بنگالیوں کا اپنی زبان کو قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ گستاخی لگا تھا اور انہوں نے ایسی مانگ کرنے والوں کے جلوس کو ڈھاکہ میں خون سے نہلا دیا تھا- جس مقام پہ بنگالیوں کو خون میں نہلایا گیا تھا انھوں نے وہیں پہ اپنے شہیدوں کی یادگار میں "شہید مینار” تعمیر کردیا۔ سوچتا ہوں ہمارے "رجن نارائن” کو کب ویسا آدر ملے گا جیسا تامل ناڈو کے کی رجن نارائن کو دیا گیا گیا۔
رجن نائرائن کو سرخ سلام
May be an illustration of one or more people

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: