اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ نظرِ کرم ادھر بھی!||رسول بخش رئیس

اس اعتراف کے بعد گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آج کی درسگاہیں‘ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ استعداد بہتر ہے‘ ماحول بہتر‘ نصاب بہتر ہیں اور ہر شعبے کے مضامین میں اتنا تنوع ہے کہ شاید آپ یقین نہ کریں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لکھتا زیادہ تر سیاسی امور اور حالات و واقعات پر ہوں‘ مگر پیشہ تو معلمی ہے۔ سیاست ہی پڑھاتا چلا آ رہا ہوں۔ اب تو کوئی اڑتالیس سال ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ جانے کب اور کہاں ٹوٹے۔ ابھی ریٹائرمنٹ کا سوچا نہیں‘ مگر جب اپنی جامعہ سے ”اگلے سال کیلئے جاری رکھیں‘‘ کا پروانہ موصول نہ ہوا تو شاید درس و تدریس کا یہ طویل دورانیہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے۔ اپنے پیشے سے کبھی تھکاوٹ محسوس ہوئی نہ مایوسی۔ زندگی جامعات کے ماحول میں گزری ہے۔ رہائش بھی وہیں‘ کھانا پینا‘ یار دوست بھی وہیں۔ باہر کی دنیا کے ساتھ واجبی سا تعلق رہا‘ ضرورت کے مطابق‘ مگر واپسی اپنے ٹھکانے پر ہی ہوتی رہی۔ ڈیڑھ سال سے ہم سب لوگ وبا کے خوف سے گھروں میں نظر بند ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے فاصلے ختم کر دیئے ہیں۔ آن لائن پڑھانے میں خوش نہیں‘ بس ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ تعلیم کہیں بھی ہو‘ اور تعلیم کی جو بھی سطح ہو‘ ذہنی نمود‘ نشوونما اور تربیت انسانوں کے درمیان میل جول پر منحصر ہیں۔ گھروں میں آپ چھوٹے بچوں کیلئے کتنے ہی پُرکشش انتظامات کریں‘ جس تیزی اور فطری روانی سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کلاس روم اور باہر کھیل کے میدانوں میں سیکھتے ہیں‘ کہیں اور نہیں۔ آن لائن تعلیم میں گزارا ہی سمجھیں‘ خانہ پُری۔ لیکچر بھی جھاڑے‘ سوالات بھی اٹھائے‘ طلبا کو بحث میں شامل ہونے کیلئے کچھ نمبروں کی ترغیب بھی دی‘ مگر ہر بار سامنے کی تصویر میں اکتاہٹ اور تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ فاصلاتی تعلیم جتنا جلد ختم ہو‘ اتنا ہی اچھا ہو گا۔
لوگ کبھی کبھار پوچھتے ہیں کہ آج کا طالب علم کیسا ہے؟ تعلیم کا معیار اب کیسا ہے؟ اساتذہ کی استعداد بڑھی ہے یا اب بھی پہلے والے معاملات ہیں؟ یہی سوالات ہمارے کئی معاصر مبصرین اور کالم نگار بھی اٹھاتے رہتے ہیں‘ اور خود ہی جواب بھی دے ڈالتے ہیں۔ جو کچھ درسگاہوں‘ اساتذہ اور طلبا کے معیار کے بارے میں پڑھتا ہوں‘ یا سنتا ہوں‘ دل پر بہت گراں گزرتا ہے۔ خاموش‘ اپنے دل ہی دل میں سوال کرکے کہ ہمارے ان محترم مبصرین نے آج کے دور کی کن جامعات میں اور کتنے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ وقت گزارا ہے؟ ہو سکتا ہے ان کی تعلیمی میدان پر نظر گہری ہو اور جو کچھ ہماری جامعات میں پڑھایا اور لکھا جا رہا ہے‘ اس کی انہوں نے واقعی جانکاری کرکے کچھ اس بارے میں کہا اور لکھا ہو۔ معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ اکثر باتیں مفروضوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ مانتا ہوں‘ ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مغرب یا کچھ اپنے جیسے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں۔ بالکل درست ہے اور یہ بھی کہ ہم سب علوم میں‘ زراعت سے لے کر خلائی سائنس تک‘ ترقی کی کئی منازل طے کر سکتے تھے‘ مگر قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح راستہ کھو بیٹھے‘ جمود کا شکار ہوئے یا وژن اور سمت متعین کرنے میں کوتاہیاں ہوئیں کہ سفر تو جاری رہا‘ مگر رفتار میں تیزی نہ آ سکی۔
اس اعتراف کے بعد گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آج کی درسگاہیں‘ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ استعداد بہتر ہے‘ ماحول بہتر‘ نصاب بہتر ہیں اور ہر شعبے کے مضامین میں اتنا تنوع ہے کہ شاید آپ یقین نہ کریں۔ نصف صدی پہلے جب ہم جامعہ پنجاب میں آئے تھے تو فقط چند ہزار طالب علم تھے‘ اور وہی انگریزی دور کے شعبے‘ تاریخ‘ سیاسیات‘ اقتصادیات اور عمرانیات۔ اب ہر ایک شعبے میں اتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ انقلاب نظر آتا ہے۔ تب سارے پنجاب میں دو ہی جامعات تھیں‘ پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ اسلام آباد میں صرف ایک اور پورے ملک میں چھ جامعات۔ آج سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ماضی کی سب حکومتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا‘ کچھ نے کم‘ کچھ نے زیادہ۔یہ منصوبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شروع کیا گیا تھا کہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنے۔ انہوں نے کچھ کا قیام اپنے دور میں کر لیا تھا۔ اب یہ پروگرام ہر صوبے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جامعات سے ہی سماجی اور سائنسی انقلاب کی بنیاد بنتی ہے۔ اکثر سنتا ہوں کہ درسگاہیں تو بن رہی ہیں‘ مگر معیار گر رہا ہے۔ ہماری عادت بس ایسی ہے کہ بغیر تحقیق کے بیان داغ دو‘ بیشک کسی کا مشاہدہ بہت ہی محدود یا نہ ہونے کے برابر ہو۔ کئی سال پہلے کوئٹہ‘ بلوچستان میں پرویز مشرف کے زمانے میں قائم کی گئی یونیورسٹی کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ عالمی معیار کی ہے۔ میں اب بھی اپنی رائے پر قائم ہوں۔ اسی صفحے پر آئندہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ گجرات یونیورسٹی اور سرگودھا یونیورسٹی‘ جہاں کئی دفعہ جانے کا موقع ملا‘ دونوں میں یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ صرف مرکزی کیمپسز میں ہزاروں طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ زیادہ خوش کن بات یہ ہے کہ ان میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ کم از کم چار سال زیرِ تعلیم رہنے کے باوجود اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی شخصیت‘ علمی استعداد اور معاشرتی اسلوب پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ چلیں‘ میرے نصف صدی کے لگ بھگ مشاہدے کو بیکار ہی سمجھیں‘ لیکن فقط تھوڑا سا غور فرمائیں تو جامعات کا ماحول ہر لحاظ سے نوجوانوں کی تشکیل کے عمل کو تیز کرکے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ ہر زمانے کے لوگ یہ راگ الاپتے آئے ہیں کہ ”تعلیم تھی تو صرف ہمارے وقتوں میں‘‘۔ چھوڑیں یہ بہت گھسی پٹی باتیں ہیں۔
جب ہم کالج میں تھے تو سیاسیات کا صرف ایک مضمون تھا۔ جامعہ میں آئے تو صرف آٹھ مضامین تھے‘ اور امتحان دو سال کے بعد ہوا‘ ایک ہی امتحان‘ جس کی تیاری آخری چند ماہ میں ہوا کرتی تھی۔ تب کا بی اے کے نصاب کا مواد آج کی ابتدائی مضمون کے فقط دو ہفتے کے برابر ہے۔ جہاں میں پڑھاتا ہوں‘ بی اے کیلئے تقریباً پینتیس مضامین آفر کئے جاتے ہیں۔ اس مواد کا مقابلہ کسی بھی امریکی یا برطانوی یونیورسٹی کے ساتھ آپ کر سکتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں میری جامعہ ہی سے ہر سال ہمارے طلبا براہ راست ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں داخل ہوتے ہیں۔ سرکاری جامعات کے معیارات بھی پہلے سے مختلف ہیں۔ بہت فرق ہے۔ بہت کچھ پڑھایا جا رہا ہے‘ اور سمسٹر سسٹم کی وجہ سے امتحانوں نے اتنا جکڑ رکھا ہے کہ ہمارے زمانوں والی فرصت طالبعلموں کو میسر نہیں۔ اسی لئے تو ہمارے سیاسی حضرات کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جامعات میں بھی اپنے دھڑے کھڑے کریں‘ نرسریاں لگائیں اور ان کو سڑکوں پر لا کر اپنی سیاست چمکائیں۔ کھیل‘ ثقافتی‘ ادبی سرگرمیاں پہلے کی نسبت اب زیادہ ہیں‘ مگر کیا کریں‘ ہمارے کچھ ہمکار نظریاتی کھائیوں میں گم توپ کے گولے پھینکتے ہیں تو ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طالبعلموں کی محنت پر ایک ہی سیاہی کا لیپ چڑھا دیتے ہیں۔ تنقید کیلئے بھی کھلا دل اورکھلا دماغ ہونا چاہئے‘ ورنہ ”کچھ کبھی اچھا ہوا ہے نہ ہی ہو سکتا ہے‘‘ کی فضول تکرار جاری رہے گی۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ میرے طلبا میرے طالب علمی کے زمانے سے ہزار درجے بہتر ہیں‘ پڑھنے‘ بولنے‘ لکھنے اور فکری وسعت میں۔ میرے ہی طلبا میں سے جو امریکی اور برطانوی جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس ہماری جامعات میں اب سینکڑوں کی تعداد میں پڑھا رہے ہیں‘ کم از کم مجھ سے بہتر لکھتے ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالے اور کتابیں‘ جو میں نے لکھا ہے‘ اس سے کئی درجے بہتر ہیں۔ یہ ہماری ناکامیوں میں سے ایک ہے کہ ہم جامعات اور معاشرے کے مابین فطری رابطہ پیدا نہیں کر سکے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت سے گھڑے گئے قصے‘ کہانیاں اور مفروضے دم توڑ جائیں۔ بہت کچھ بدل گیا ہے‘ اس کا ادراک نہیں۔ دعوت ہے کہ کبھی ہماری چھوٹی سی دنیا کی دہلیز پر قدم رنجہ فرمائیں۔ جن پھول پودوں کی آبیاری میں زندگیاں گزار دی ہیں‘ ذرا قریب ہو کر ان کے اصل رنگ دیکھ لیں۔ شاید آپ بھی نئے سویرے اور امید کی بہار کی کیفیت سے آشنا ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: