مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مکالمہ کیجئے اپنوں کی تذلیل نہیں||حیدر جاوید سید

اس حرام حلال کی بحث میں ایک صاحب نے جن کا پورا خاندان برسوں سے کھوسوں اور تحریک انصاف کی چوبداری میں مصروف ہے۔ ایک مسلکی نعرے کی طرح کا نعرہ لکھ کر اس سے انکار کرنے والوں کے بارے میں جو غلیظ جملہ لکھا وہ یہاں تحریر نہیں کیا جاسکتا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپلزپارٹی نے اپنے اعلان کردہ صوبائی تنظیمی یونٹ پی پی پی ’’جنوبی پنجاب‘‘ کے علماء و مشائخ ونگ کی سربراہی کے لئے خانوادہ فرید کے خواجہ کلیم کوریجہ اورکلچر ونگ کی صدارت کے لئے ڈاکٹر اشو لال (ڈاکٹر اشرف شعاع) کی تقرری کا باضابطہ اعلان کردیا۔
خواجہ کلیم کوریجہ سئیں خانوادہ خواجہ غلام فریدؒ کاروشن چہرہ ہیں۔ صاحب مطالعہ اور وضعدار شخصیت بھی۔ ڈاکٹر اشو لال وسیب کے معروف شاعر اور دانشور ہیں۔ متاثرین خصوصاً نوجوان متاثرین کا ایک حلقہ بھی رکھتے ہیں۔ اشو لال لاریب باکمال شاعر ہے۔
سرائیکی وسیب میں قومی سیاسی شعور اجاگر کرنے میں شعرائے کرام، ادیبوں اور اہل دانش کے تاریخی کردار سے انکار کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی شخص خود اپنے نابینا ہونے پرمُصر ہو۔عاشق بزدار، رفعت عباس، عزیز شاہد ، اقبال سوکڑی، جہانگیر مخلص ، اصغر گورمانی، سعید اختر سیال، رحیم طلب، ریاض عصمت، فیض نذیر مگسی، سیدی عصمت اللہ شاہ اور بہت سارے شعرائے کرام نے پچھلی نصف صدی میں وسیبی حقوق اور سرائیکی شناخت کا پرچم سربلند کئے رکھا۔
آپ اور میں کسی شاعر کی فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن سرائیکی ادب اور قومی شعور میں اس کے حصے سے انکار نہیں کرسکتے۔
تمہید کو مختصر کرتے ہوئے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اشو لال پی پی پی جنوبی پنجاب کے کلچر ونگ کے صدر کیا بنے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پانی پت کا معرکہ برپا ہوگیا۔ ابھی پچھلے معرکے سے اٹھی دھول بیٹھ نہیں پائی تھی کہ لشکری تلواریں اور زبانیں نکالے میدان میں اتر آئے۔
یہ جنگ دو طرفہ ہے اور دونوں طرف سے انتہا پسندی کا حسب سابق مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کچھ احباب کے نزدیک پیپلزپارٹی کا جنوبی پنجاب میں حلال ہے، دوسروں کا جنوبی پنجاب حرام۔ اسی طرح کچھ دوسرے احباب کے نزدیک تحریک انصاف اور مرحوم و مغفور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں ہونے والے اشٹام پیپر سمجھوتے میں لکھا صوبہ جنوبی پنجاب حلال ہے لیکن پیپلزپارٹی کا جنوبی پنجاب حرام۔
اس حرام حلال کی بحث میں ایک صاحب نے جن کا پورا خاندان برسوں سے کھوسوں اور تحریک انصاف کی چوبداری میں مصروف ہے۔ ایک مسلکی نعرے کی طرح کا نعرہ لکھ کر اس سے انکار کرنے والوں کے بارے میں جو غلیظ جملہ لکھا وہ یہاں تحریر نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اور صاحب جو کبھی کراچی میں ایم کیو ایم کے نچلی سطح کے کونسلر اور دیہاڑی دار ہوا کرتے تھے، آجکل تبدیلی کے علمبردار ہیں اور خاصی بدزبانیوں کے مظاہرہ میں مصروف ہیں۔ جنوبی پنجاب کی اصطلاح کو گالی قرار دینے والے دوست بھی اپنے لشکریوں میں شامل تہذیب نفس سے محروم لوگوں کو قابو میں نہیں رکھ سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے دو دن سے وسیب کی سماجی روایات اور اخلاقیات کا جنازہ دربدر ہے۔ تدفین کے لئے جگہ نہیں مل رہی۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ کیا سندھ جہاں پیپلزپارٹی ساتویں بار اقتدار میں ہے سارے سندھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ یا جی ٹی روڈ پارٹی نون لیگ جی ٹی روڈ کی واحد سیاسی مالک ہے؟
ایسا نہیں ہے بندگان خدا یہاں تو صوبہ سرحد کو قومی شناخت دلوانے والی اے این پی کے ساتھ خود اس کے اپنے گھر خیبر پختونخوا میں کیا ہوا؟
خیرمیں ذاتی طور پر اے این پی کے حالات کو طاقتوروں کے ہاتھ کی صفائی سمجھتا ہوں پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ کے پی کے میں دوسری سیاسی قوتیں بھی موجود ہیں۔
پیپلزپارٹی نے سیاسی طور پر سرائیکی وسیب کے لئے جو کچھ کیا ایک وفاقی سیاست کرنے والی جماعت اتنا ہی کرسکتی تھی اس سے زیادہ کرتی لیکن 2013ء میں وسیب کی اکثریت نے نون لیگ کو ووٹ دیئے اور 2018ء میں ’’جنوبی پنجاب صوبہ‘‘ کے نام پر تحریک انصاف کو وسیب سے بھاری اکثریت دلوائی۔
یہ بجا ہے کہ اس بار پی پی پی کے پاس بھی وسیب سے قومی اسمبلی کی سات نشستیں ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ جس پارٹی نے سینٹ سے الگ صوبے کے لئے قرارداد منظور کروائی، قومی اسمبلی سے صوبہ کے لئے کمیشن بنانے کی منظوری لی اور کمیشن بنایا اس پارٹی کے ساتھ وسیب نے اگلے دو انتخابات میں کیا سلوک کیا؟
دوسری بات یہ ہے کہ کیا این ڈبلیو ایف پی (صوبہ سرحد) کا نام خیبر پختونخوا ایک دن میں رکھ دیا گیا؟ جی نہیں اے این پی کو لگ بھگ ساٹھ سال لگے صرف نام تبدیل کروانے میں۔
لاریب "صوبہ جنوبی پنجاب ” اس تحریر نویس کے لئے بھی اجنبی نام ہے لیکن کیا صوبہ بن کر اسلام آباد سے روانہ ہوگیا ہے؟ ایسا نہیں ہے جس جماعت نے 100دنوں میں صوبہ کے قیام کا روڈ میپ دینے کے وعدہ پر 2018ء کا انتخابی میلہ لوٹا اس نے اڑھائی سال بعد ایک لُولا لنگڑا سیکرٹریٹ دے کر ’’احسانِ عظیم‘‘ کردیا۔
پچھلے چند ماہ کے دوران پیپلزپارٹی کے کچھ لوگوں اور قوم پرستوں کی صفوں میں موجود کچھ حضرات کی بحث نے خوب دھول اڑائی۔ بے مقصد بحث پر وقت بریاد کیا۔ اب پھر چند دنوں سے عجیب بحث جاری ہے۔ اس بحث کی آڑ لے کر پچھلی بار کی طرح کچھ لوگ ذاتی پسندوناپسند کو نظریہ بناکر پیش کررہے ہیں۔ ہر شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ گامن سچار ہے اور دوسرے قابل گردن زدنی۔ اچھے بھلے سنجیدہ لوگ دھول اڑانے میں جُت گئے ہیں۔
میرا سوال یہی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کا جنوبی پنجاب درست ہے تو دوسروں کا غلط کیسے؟
جذبات کے مظاہرے، طعنوں، گالیوں یا ایک دوسرے کو کوسنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا کام کیجئے۔
اچھا ایک سوال ہے پیپلزپارٹی علماء و مشائخ ونگ اور کلچر ونگ دونوں کے لئے جنوبی پنجاب کا لفظ لکھا ہے پھر توپوں کا رخ کلچر ونگ جنوبی پنجاب کی طرف ہی کیوں ہے؟
ایسا لگتا ہے جیسے اشو لال سے کوئی حساب چکایا جارہا ہے
ورنہ اصولی طور پر پیپلزپارٹی سمیت ان تمام جماعتوں سے جنہوں نے اپنی جماعتوں میں جنوبی پنجاب کے تنظیمی یونٹ کو الگ حیثیت دی ہے۔
مطالبہ ہونا چاہیے کہ یہ جماعتیں ہماری توہین نہ کریں اپنے صوبائی یونٹ کا نام سرائیکی شناخت سے رکھیں۔
آخری بات یہ کہ سرائیکی تحریک کے اولین اگوانوں میں شامل جناب نذیر لغاری نے سرائیکی قومی تحریک کے اس مطالبہ کو دہرایا کہ صوبہ 23 اضلاع پر مشتمل ہو اس پر جن نوجوانوں اور دوسروں نے ان کا تمسخر اڑایا اور پھبتیاں کسیں انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
23ضلعوں کا صوبہ نذیر لغاری کاذاتی مطالبہ اور خواب نہیں، پوچھیں سرائیکی قوم پرستوں سے پچھلے پچاس سال سے یہ کیا مطالبہ کرتے آرہے ہیں اور ان کی پارٹیوں کے منشور میں کیا لکھاہے۔
مجھے امید ہے کہ میرے مختلف الخیال دوست ان معروضات پر غور کے لئے چند لمحات ضرور نکالیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: