عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقسیم کے دوران ریاست بہا ولپور کے ہندو راج پورہ، دِلی اور ہری دوارمیں آکر آباد ہوئے تھے۔ نواب صاد ق محمد کی خصوصی سفارش پر پٹیالہ کے سکھ راجہ نے پٹیالہ کی تحصیل راج پورہ میںبہاولپورکے ہندو شرناتھیوں کو بڑی تعداد میں آباد کروایا تھا،جنہوں نے وہاں پر اپنا بہاولپور بھون تعمیر کیا تھا، اسی طرح ہری دوار میں بھی بہاولپور برادری نے اپنا بھون تعمیر کیا تھا اور بہاولپوری ہندوﺅں کی تیسری بڑی آبادی دِلی میں مقیم ہے ۔اس موقع پرلکشمی نرائن کا کہنا تھا کہ دورانِ ہجرت نواب صادق محمد عباسی نے ہر ممکن مدد کی تھی، وہ صرف نام کے نواب نہیں تھے بلکہ ہجرت کے دوران اندر سے بہت دکھی اور ہندوﺅں کو ”وطن کی کونجیں“ کہا کرتے تھے ۔تقسیم سے قبل ہی نواب صاحب نے دِلی میں ایک عظیم الشان بہاولپور ہاﺅس بنوایا تھا جب وہ دِلی آتے تو اپنے مکان میں قیام کیا کرتے تھے، تقسیم کے بعد بھارتی سرکار نے بہاولپور ہاﺅس کو سرکاری نگرانی میں لے کراس کے اندر آرٹ اور فنون لطیفہ کا مرکز کھول رکھا ہے ۔
دِلی میں سرائیکی زبان کی ترویج اور مستقبل کے بارے میں راکیش دُریجہ، برج موہن اور لکشمی نرائن سے تفصیلی بات چیت ہوئی ۔ آل انڈیا بہاولپور پنچائیت سوسائٹی اپنی طرف سے سرائیکی زبان کو پروموٹ کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہے ۔اس ضمن میں دو تین انٹرنیشنل مشاعرے بھی منعقد کرواچکی ہے اور ہر سال کل ہند سرائیکی مشاعرے اور مجلسیں بھی منعقد کروائی جاتی ہیں جس میں سرائیکی ادیبوں اور دانشوروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انہیں انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔سوسائٹی اپنا ایک رنگین میگزین بھی شائع کرتی ہے جو انگریزی کے ساتھ ہندی رسم الخط میں سرائیکی زبان پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں سرائیکی غزلیں، نظمیں، شاعری، افسانے اور کہانیاں شائع ہوتی ہیں۔ دِلی میں رانا پرتاب سنگھ گنوری مظفرآبادی اور مل نرائن چُرلی بہاولپوری بہت اعلیٰ پائے کے سرائیکی شاعر مانے جاتے ہیں ،لکشمی نرائن نے مل نرائن کی شاعری سے کچھ لائنیں گا کر سنائیں۔خوش وس وے ماہی جے نیئں الیندا ، رُٹھڑی دے ویلے پھیرا نیں پیندا ، خش وس وے ماہی جے نیئں الیندا۔ نرائن چُرلی کب کے سورگ باش ہو گئے، افسوس کہ ان کا کلام ڈاکومنٹ نہیں کیا جا سکا، اس کے بعد لکشمی نرائن نے اپنا پسندیدہ گیت سنایا۔
کڈن ولسو سونہڑا سانول آ، وطن ساڈے غریباں دے ۔ سونہڑا سانول آ ، تھی گیو راہی، تیر مارو وے جانی بے جاہی۔لکھی قسمت ساڈی ایویں ہائی، مینہڑے کھا گے شریکاں دے۔ کڈن ولسو سونہڑا سانول آ، وطن ساڈے غریباں دے۔سونہڑا سانول آ اِتھوں گﺅ چل، رو رو اکھیاں جانی تھی گیاں چھل۔ تیڈی مرضی ول بھانویں نہ ول، اساں چھیڑیا نصیباں تے۔ کڈن ولسو سونہڑا سانول آ، وطن ساڈے غریباں دے ۔ خوبصورت گیت کے آخری بولوں تک آتے ہی وہ شدت ِجذبات سے سسکیاں بھر کر رونے لگے۔ اردگرد بیٹھے سارے چہرے خاموش، افسردہ۔ کوئی سر جھکا ئے بیٹھا تھا تو کوئی دیواروں کو تک رہا تھا۔ہر آنکھ نم تھی، گھر کا آنگن رو رہا تھا ، درودیوار افسردہ تھے۔
واقعی ہجرت ایک ایسا گھاﺅ ہے کہ اس پر چاہے جتنی بار نازُو خان(ڈیرہ اسماعیل خان کا معروف جراح جس کا مرہم اندمالِ زخم کیلئے اکثیر مانا جاتا تھا) کا مرہم کیوں نہ لیپ دیا جائے ، زخم اوپر سے خشک ضرور ہوجاتا ہے مگر مندمل نہیں ہوتا بلکہ اندر کا گھاﺅ ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور زرا سی ٹھیس پہنچتے ہی سالوں کے زخموں سے تازہ خون پھر سے رسنے لگتا ہے۔ برج موہن ماحول پر طاری افسردگی ختم کرنے کی کوشش میں سرائیکی زبان کے زوال پر بولنے لگے۔ اُن کے خیال میں یہاںسرائیکی زبان کے سکڑنے کی بڑی وجہ ہندوستان کی مقامی زبان (ہندی) کا اثر ہے شاید اسی لئے شرناتھیوں کی زبان (سرائیکی) کو یہاں پوری طرح پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل سکا اور یہ گھروں تک ہی محدود رہی ۔تقسیم کے بعد یہاں سرائیکیوں کی اب چوتھی نسل جوان ہو چکی ہے اور ہم تیسری نسل کے نمائندہ ہیں جو سرائیکی بول اور سمجھ سکتے ہیں، چوتھی پیڑھی سمجھ تو لیتی ہے لیکن افسوس کہ پوری طرح بول نہیں سکتی اور یہاں پر سرائیکی کے الفاظ میں مقامی زبانوں کی آمیزش ہو چکی ہے ، ہماری نئی نسل یہ نہیں جانتی کہ پیاج (پیاز) کو سرائیکی میں وصل، جھاڑو کو موکھر ، سائے کو پچھاواں، چارپائی کو منجھی کہتے ہیں۔راکیش دُریجہ بھی برج موہن کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے بولے کہ ہندی اب سرائیکی پر غالب آچکی ہے اور سرائیکی بولنے والی نسل ہماری آنکھوں کے سامنے معدوم ہو رہی ہے، گھروں میں بھی سرائیکی کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے مگر ہم نئی نسل کو اس طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ماں بولی سیکھیں اور اس پر فخر کریں کیونکہ ہمارے پرکھوں کی زبان سنسکرت سے بھی قدیم ہے ،مگر وہ ماحول نہیں بن پا رہا جس میں کوئی زبان پنپ سکے۔
آل انڈیا بہاولپور پنچائیت کے عہدے داران کی باتیں سننے کے بعد میں نے اپنے اندر کی بات سب تک کچھ ان الفاظ میں پہنچائی کہ دِلی میں ہفتہ بھر قیام کے دوران میںنے یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ نوٹ کی ہے کہ سرائیکی تو ایک طرف رہی، ہندوستان کی اپنی کوکھ سے نکلی اُردو بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔اُردو جیسی رابطے کی زبان کا لٹریچریہاں کم شائع ہو رہا ہے اورانگریزی رابطے کی زبان بنتی جا رہی ہے ،یہاں تک کہ ہندی زبان پر بھی پنجابی کا اثر چڑھ چکا ہے، مثلاً جس کسی سے بھی حال احوال پوچھا توجواب ملا”بڑھیا جی“، ” ودھیا”۔
ہندوستانی سرکار کو چاہیے کہ وہ اس خطے کی اصل زبان اُردو سمیت یہاں بسنے والی سرائیکی کمیونٹی کی زبان کو بھی زندہ رکھنے کیلئے کو ششیں کرے ،ساتھ ہی دونوں ملکوں کو ویزے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی نرم کرنا چاہیے خصوصاً سرحد کے دونوں جانب بیٹھے پچاس سال سے اوپر کے بزرگ حضرات جو اپنی زندگی کے آخری پڑاﺅ میں ہیں اور اپنی جنم بھومیوں کو دیکھنے کے متمنی ہیں، کم از کم اُن کیلئے ویزے کی کڑی شرط ختم کر دینی چاہیے تاکہ وہ مرنے سے پہلے اپنی ماتر بھومیاں دیکھ سکیں، ا س کے علاوہ ادبی حوالے سے بھی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں۔اس موقع پر آل انڈیا بہاولپور پنچائیت کے صدر لکشمی نرائن اور سیکرٹری راکیش دُریجہ سمیت چیف پیٹرن برج موہن نے سوسائٹی کی طرف سے ہمیں ایک ٹرافی اور کچھ سرائیکی میگزین بطور تحفہ عنایت کئے ۔
لکشمی نرائن سے گلے ملتے وقت انہیں دلاسا دیا کہ ” لفظ سانول ہماری دھرتی میں آس، امید،روشنی،واپس لوٹ آنے کی علامت ہے“۔ کڈن ولسو سونہڑا سانول آ، وطن ساڈے غریباں دے ۔آپ ہماری دھرتی کے سانول ہو ۔ ہمیں اُ مید ہے کہ ہمارے وطن کی کونجیں، ہمارے سانول اپنا روہی، تھل، دامان دیکھنے ضرور آئیں گے ۔کچھ انہی الفاظ کے ساتھ ان سب سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آئے ۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر