مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مطالعہ اور موسیقی||حیدر جاوید سید

ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ ہمیں دو چیزوں سے بہت دلچسپی رہی بلکہ اب بھی ہے اولاً یہ کہ ہر معاملے کے پیچھے سازش ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ ہمیں دو چیزوں سے بہت دلچسپی رہی بلکہ اب بھی ہے اولاً یہ کہ ہر معاملے کے پیچھے سازش ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
ثانیاً یہ کہ ہم وکھری ٹائپ کی مخلوق ہیں (چنیدہ قسم کی) ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صاحب علم کا ہم نے زندگی میں مذاق اڑایا اس کی دانش بھری باتوں کا تمسخر اڑایا اس کے سانحہ ارتحال کے بعد آسمان سر پر اٹھالیا کہ اُمہ کے سر سے سائبان ہٹ گیا۔
ایک نہیں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن فائدہ کیا۔ یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ ہم کسی صاحب دانش کی باتوں پر غور کرنے کی بجائے اس کے عقیدے یا سیاسی نظریات کو اپنے عقیدے اور سیاسی فہم کی چھلنی سے گزارنے لگ جائیں۔
ماہ و سال گزرگئے ایک دوپہر استاد شاگرد (استاد محترم سید عالی رضوی مرحوم) اداریہ نویسی کی مشقت سے فراغت کے بعد معمول کی گپ شپ میں مصروف تھے ہم نے ان کی خدمت میں عرض کیا، زندگی کی حقیقت کیا ہے؟
عالی صاحب بولے زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جستجو میں رہتا ہے۔ جستجو اس پر سوچ کے نئے در وا کرتی ہے یہی علم کی سمت رہنمائی کا فریضہ ادا کرتی ہے۔
عرض کیا علم کافی ہے ؟
استاد محترم بولے مطالعہ علم سے آشنائی کا آغاز ہے علم کی حد کیا ہے یہ طے کرنا مشکل ہوگا کیونکہ جوں جوں دنیا آگے بڑھے گی تحقیق نئی پرتوں سے پردہ اٹھائے گی۔
تمہید طویل ہوگئی کالم کسی اور موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا بلکہ ہے۔ لکھنے لگا تو بالائی سطور خودبخود لکھی گئیں۔
طالب علم سے جب ہم عصر دوست یا طلباء یہ دریافت کرتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہیے تو میں ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں سوانح عمریوں سے مطالعے کا آغاز کیجئے۔ کچھ وقت نکال کر موسیقی سے ضرور لطف اندوز ہوں۔
ایک دن ایسی ہی کسی بات پر فقیر راحموں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یار شاہ جی مطالعے کے ساتھ موسیقی سننے کا مشورہ تو ایسے دیتے ہو جیسے یہ ہاضمے کا چورن ہو۔
عرض کرنا پڑا اصل میں موسیقی اس اعصابی تناو کو کم کرتی ہے جو مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔
میں خود جب بھی وقت ملے موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہوں دن بھر کی مشقت کے دوران چند لمحات نکال کر یا پھر شب بسری سے قبل۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1980ء کی دہائی کے وسطی برسوں میں، میں اور ارشاد امین جب ماڈل ٹاؤن این بلاک کے ایک ہی فلیٹ میں مقیم تھے تو ہمارے زیادہ پیسے کتابوں اور کیسٹوں پر خرچ ہوتے تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ ایک دو وقت بھوکا رہا جاسکتا ہے لیکن مطالعے اور موسیقی کے بغیر زندگی قبرستان جیسی ہے۔
جب سے یہ جدید موبائل فون آئے ہیں ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ البتہ کتابیں، ان کی ضرورت ہمیشہ پڑتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس شعبہ سے منسلک ہو پڑھتے رہنا اس کی ضرورت ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن میں مطالعہ جاننے کے لئے کرتا ہوں۔
جاننے کے لئے، یعنی ہمیں معلوم تو ہو کہ لمحہ موجود میں چار اور کیا ہورہا ہے۔
ماضی کیا تھا، عروج پانے والوں کو زوال کیوں آیا۔
میں لگ بھگ نصف صدی بعد بھی اپنے ایک استاد سید محمد عباس نقوی رح کی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مطالعہ تہذیب نفس کے لئے بہت ضروری ہے۔
حق تعالیٰ استاد مکرم کے درجات بلند فرمائے ہمیں اردو اور معاشرتی علوم پڑھاتے تھے کیا شاندار انسان اور صاحب علم تھے۔ معاشرتی علوم کا 40منٹ کا پیریڈ اکثر ڈیڑھ گھنٹے تک چلتا وجہ یہ ہوتی کہ وہ کتاب کا سبق پڑھانے اور نصابی شروع کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔
میرے عزیزو! یہ تو وہ تھا جو نصاب کی کتاب میں لکھا اب جو میں آپ کے گوش گزار کروں گا وہ تاریخ میں لکھا ہے۔
یوں ہم ماضی کے حوالے سے وہ بھی جان لیتے جو نصاب ہمیں نہیں بتانا چاہتا تھا۔
جناب سید محمد عباس نقوی سے مجھ طالب علم نے ایک بات اور سیکھی وہ یہ کہ جس موضوع پر مطالعہ شروع کرو اس کے رد میں لکھی گئی آراء بھی معلوم ہونی چاہئیں۔
ان کے اس سبق نے دو کام کئے اولاً یہ کہ تقابلی مطالعہ کی عادت پڑ گئی ثانیاً یہ کہ پڑھ لیا جان لیا ہم درست ہیں کی بدہضمی کبھی نہیں ہوئی۔
نصف صدی سے چند برس اوپر کے مطالعہ نے ایک بات بطور خاص سمجھادی وہ یہ کہ جو ہم جانتے ہیں وہ حرفِ آخر ہرگز نہیں ہے۔
سب جان لیا کا زعم اصل میں علمی اپھارے کی بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔
ظاہر ہے اپھارہ ہو تو پھر آدمی جگہ جگہ بندہ الٹیاں کرتا پھرتا ہے جس سے بدبو کئی کوس تک پھیلتی ہے۔
نقوی صاحب قبلہ کی ایک اور شاندار بات یاد آگئی فرماتے تھے، یہ نہیں کہ ہم یہ پڑھیں گے اور وہ نہیں بلکہ طالب علم کو چاہیے پڑھنے کے لئے جو بھی کتاب، جریدہ دستیاب ہو، پڑھ ضرور لے۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے ان کی، آمین۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: