عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی تمام رادھاﺅں اور کرشنوں کی کہانیاں ایک جیسی ہیں،جن کی محبتیں وعدوں، دعوﺅں اور ارادوں سے بلند ہوتی ہیں۔ ان کے بیچ کوئی جسمانی معاہدہ نہیں ہوتا۔ ان کا پریم ریتوں ،رواجوں کامحتاج نہیں ہوتا اوریہ جسموں کا نہیں روحوں کا بندھن ہوتا ہے ۔
سچل پریم جب روحانیت کی بلندیوں تک پہنچتا ہے توجسم کشن اور روح رادھا بن جاتی ہے۔ کرشن اور رادھا کا معاشقہ اسی معاشرے کی یادگار ہے جہاںعورت ہی اظہار ِعشق میں پہل کیاکرتی تھی۔عورت کی زبان سے برہا کے دکھ اور شوق وصال کا بیان ہڑپہ، موئن جو دڑوکے قدیم مادری نظام معاشرت سے چلا آرہا ہے۔مرد سے عورت کے اظہارِ عشق میں پہل کرنے کی روایت ہندی، سندھی، سرائیکی اور پنجابی ادب و شاعری میں آج تک موجود ہے۔ جس طرحگیتا میں رادھا کرشن سے اظہار محبت کرتی ہے،اسی طرح خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں سسی نے پنوں سے والہانہ محبت کااظہار کیا ہے اوروارث شاہ نے ہیر کے درد فراق اور سوزِ ہجر کو ہیر کی زبان میں بیان کیاہے۔شاہ لطیف اور خواجہ فرید کی شاعری میں سسی، رادھا (روح) ، پُنل ، سانول، شام،شیام،موہن اورکرشن (ازلی محبوب) کی نشانیاں ہیں۔
سانولے کرشن کی بانسری کی صدا کوئی اور سنے نہ سنے رادھا سن لیتی تھی ۔ سوہنی مہینوال ،ہیر رانجھا، سسی پنوں ، رادھا کرشن اور سانول ۔۔یہ سب محبتوں کے استعارے ہیں۔
وَرِنداون کے کرشن کے ہاتھ میں بانسری اورسچل دھرتی کے سانول کے ہاتھ میں اونٹ کی مہاریں۔یہ سب پریم اور تخلیقیت کی علامتیں ہیں۔ جس طرح بانسری کی آواز محبوبہ کو اپنے در پر بلا لاتی ہے،اسی طرح اُونٹ کی مہار سانول کو واپس اپنی محبوب سرزمین( روہی، تھل، دامان) کی طرف کھینچ لاتی ہے ۔
دِلی کے کتے: کوئی رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہماری بس دلی شہر کی حدود میں داخل ہوگئی ، راستے میں ایک دو سواریاں جیسے نیچے اترنے لگیں میں آہستگی سے چلتا ہوا ڈرائیور کے پاس پہنچا اور اس کے کان میں دھیرے سے سرگوشی کی ” مجھے قرول باغ کے میٹرو اسٹیشن کے پاس اتار دیجئے گا “، ڈرائیور نے اپنی نظریں روڈ پر جماتے ہوئے مجھے بغیر دیکھے اثبات میں سر ہلایااور میں مطمئن ہو کر واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
پُوسا روڈ کے قریب قرول باغ اسٹیشن آتے ہی بس نے بریکیں لگائیں، میں اپنابیگ لٹکائے نیچے اترآیا۔ پُوسا روڈ کی دونوں جانب ہو کا عالم تھا۔سڑک پار کرنے کے بعد مجھے دائیں طرف کی گلی سے گزر کرپرنس ہوٹل پہنچنا تھا۔ گلی میں قدم رکھتے ہی میرا دل بے اختیار دھڑکنے لگا، پوری گلی میں اِکا دُکا سرکاری کھمبوں پر لگے بلبوں سے پیلی روشنی آ رہی تھی اور گلی کا بیشتر حصہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔پوری گلی کے اندر آوارہ کتوں کی آوازیں آرہی تھیں،میں جیسے جیسے قدم آگے بڑھاتا جا رہا تھا کتوں کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں اور مجھے خطرے کی بو محسوس ہونے لگی تھی ۔ کچھ کتے دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو قصیدے سنا رہے تھے، چند ایک کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور تین بڑے کتے لنگوٹیا یار کی طرح ٹولی بنائے گلی کے وسط میں گھوم پھر رہے تھے۔
دِلی سے صبح سویرے آگرہ نکل کر آدھی رات کے قریب واپس دِلی پہنچا تھکا ہارا شخص، اُوپر سے اب نئی کتے یخی۔ میں اسی سوچ میں غلطاں چلا جا رہا تھا کہ یکایک ایک کالے رنگ کالحیم شحیم کتا میرے سامنے کھڑے ہو کر غرانے لگا۔کالے کتے کی دیکھا دیکھی گلی کے سارے کتے زور زور سے بھونکنے لگے ۔ ایک تو سب آوارہ کتے تھے دوسرادشمن دیش کے ، نہ جانے انہیں کیسے پتہ چل گیا تھا کہ میں پاکستانی ہوں۔ اگر یہ پڑھے لکھے ہوتے تو میں انہیں اپنا آسٹریلین پاسپورٹ دکھا کر تسلی کروا لیتامگر مجھے خدشہ تھا کہ اگر ان میں سے کوئی پڑھا لکھا کتا میرا پاسپورٹ پڑھ لیتاتو جنم بھومی کے خانے میں ڈیرہ اسماعیل خان واضح طور پر لکھا ہوا تھا ، لہٰذا اس صورت میں اُن کا مجھے مل کر بھنبھوڑنے کا استحقاق بنتا تھا، مجھے پاسپورٹ دکھانے والا آئیڈیا ترک کرنا پڑا مبادہ میں خود ایکسپوز نہ ہو جاﺅں۔ اب اِنڈین کتوں کے آگے میری خیر نہیں تھی، کیونکہ دہلی کے کتے مودی سرکار کے آنے کے بعد کچھ زیادہ ہی شیر ہو چکے تھے ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان میں سے کون کانگریسی ہے اور کون بی جے پی کا ہے۔سارے کتے حسب توفیق اپنا کتا پن دکھا رہے تھے۔جو مسلسل زبانیں باہر نکالے بھونکے چلے جا رہے تھے اُن کے بارے میں پکا یقین تھا کہ وہ مودی سرکار کے بھگت ہیںمگر جونہ چاہتے ہوئے مجبوری میں دوسروں کی بھونک میں اپنی بھونک ملا کر فضا کو گرمانے میںحصہ ڈال رہے تھے ، وہ کانگریسی تھے جن بیچاروں نے اسی گلی میں رہنا تھا ۔ کوڑے کے ڈھیر پر کھڑا خاموش بد رنگی کتا جسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی تھی مجھے سماج وادی لگا، میری بدقسمتی کہ کانگریسی کم، بی جے پی کے سپورٹرز زیادہ تھے۔ دِلی کے کتوں سے دہشت زدہ ہونے کی بجائے مجھے تحمل مزاجی اور بردباری کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے خود کوبچا کر پتلی گلی سے نکل جانا تھا۔ یہ وقت چیخنے چلانے، رونے پیٹنے، واویلا مچانے، بھاگنے دوڑنے ، آہ و زاری اور مار دھاڑ کا نہیں تھا۔ میں دھیمی چال کے ساتھ چلتا رہا اور جیسے ہی کالے کتے سے دو تین قدموں کی دور ی کا فاصلہ رہ گیا، اپنے قدم فریز کرکے وہیں ساکت ہو گیا ۔کالا کتا اپنی لمبی زبان باہر نکالے مجھے مسلسل گھورے جا رہا تھا۔میں کالے کتے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے تھڑے پر بیٹھی کتیا کو دیکھنے لگ گیا ۔قرول باغ دلی کے سارے کتوں کے مقابلے میں تھڑے پر بیٹھی سفید کتیا مجھے زیادہ مہربان لگی، جو بھونکے بنا مزے سے کوئی ہڈی چبا رہی تھی اوراس کے ساتھ دم دبائے چپکا بیٹھا پلا بھی کچھ کھا رہا تھا ۔
یکایک میرے ذہن میں ایک سوال بجلی کی طرح کوندا، مجھے یاد آیا کہ کل رات آگرہ کی تیاری کے دوران ایک جنرل اسٹور سے آلو کے چپس ، دال سیﺅ ،چنے، دال مونگ کے کچھ پیکٹس اوردہی کا ایک درمیانی سائز کا ڈبہ خرید کر سفری بیگ میں رکھ دیا تھا۔انتہائی سکون سے بیگ کو زمین پر رکھ کر زپ کھولی تو اندر چپس ، دال سیﺅ کا ایک ایک پیکٹ اور دہی کا ڈبہ پڑا ہوا تھا اور یہ سامان میری جان بخشی کیلئے کافی تھا۔
سب سے پہلے دہی کے ڈبے کا ڈھکنا کھول کر اسے زمین پر الٹا رکھتے ہوئے کتوں کو دہی کی جانب راغب کیا ۔ ڈبہ زمین پر رکھنے کی دیر تھی کہ کوڑے کے ڈھیر پر کھڑا کتا بھاگ کر میرے قدموں میں پڑے دہی کے ڈبے کی طرف دوڑ کر پہنچا اور لپک کر زبان باہر نکالے دہی چاٹنے لگا، اس کی دیکھا دیکھی تھڑے کے نیچے بیٹھا ایک کاہل کتا بھی اپنے ٹھکانے سے باہر نکلا اور شڑپ شڑپ دہی چاٹنے لگا۔دعوت طعام دیکھتے ہی کالا کتا بھی قدرے دھیما ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ دہی ختم ہو تی مجھے اپنے باقی ماندہ آئٹمز بھی باہر نکالنے تھے۔جلدی سے بیگ کے اندر ہاتھ ڈالا اور دال سیﺅ کا پیکٹ ہوا میں اچھالتے ہوئے کالے کتے کی طرف پھینکا اور ٹانگری کا آخری پیکٹ نکال کر باقی کتوں کی طرف اچھالتے ہوئے آہستگی سے آگے بڑھ گیا سارے کتے بھونکنا بند کر چکے تھے،مگر میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ گلی کی نکڑ تک پہنچتے ہی بائیں جانب مڑتے ہوئے مین اسٹریٹ پر قدم رکھا اور پھر وہاں سے ایسی دوڑ لگائی کہ پرنس ہوٹل کے استقبالیہ ڈیسک پر پہنچ کر ہی دم لیا۔کرسی پر خراٹے لیتا پالے رام ہڑبڑا کر بیدار ہو چکا تھا۔ اُسے اندازہ تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ سر جی گلی کے کتوں نے تنگ تو نہیں کیا؟۔
نہیں یار دِلی کے کتے تو انتہائی اچھے کتے ہیں ،ہاں مگر دلی سے آگرہ کی بس نے مجھے زرا تھکا دیا ہے۔مگر میں نے تو آپ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بس بک کروائی تھی، کہیں دُ رگھٹنا تو نہیں ہوگئی راستے میں؟نہیں پالے رام ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اپنا درد چھپاتے ہوئے اُس سے کمرے کی چابی لی اور دروازہ کھول کر بستر پر ڈھیر ہو گیا۔
کچھ ضروری باتیں اور گلے شکوے مجھے صبح اٹھ کر پالے رام سے کرنا تھے کہ دلی سے آگرہ جانے والی بس براستہ متھرا، وَرِنداون بک کروانے کی کیا منطق تھی؟ تاج محل دیکھ کر بغیر رُکے سیدھا دِلی بھی تو آیا جا سکتا تھا۔ میں کوئی ہندو یاتری نہیں تھا کہ جو متھرا، ورِنداون جیسے دھارمک شہروں کودیکھتا؟ نہ جانے پالے رام نے مجھ مسکین پردیسی سے کس جنم کا بدلہ لیا تھا؟بہت سے ایسے چبھتے سوالات تھے جو میرے ننھے ذہن میں گردش کر رہے تھے، انہیں کل پر چھوڑتے ہوئے میں نیند کی وادی میں اُتر گیا۔
٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر