عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَرِنداون(بندرابن): ہندوﺅں کے بھگوان کرشن سے منسوب قدم قدم پر مندروں سے گھرا شہر ورِنداون اب ہمارے سامنے تھا ۔ مہا بھارت کے مطابق کرشن اسی علاقے کے گوکل نامی علاقے میںاپنی بانسری بجاکر گوپیوں کے سنگ گائے ،بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا، اسی دوران رادھا نام کی ایک چرواہن سے اُسے عشق ہو گیا تھا۔وَرِنداون میں ہر کسی کی زبان پر کرشن اور اس کی محبوبہ رادھا کے چرچے عام تھے۔سارے ویکتی بس سے نیچے اُترآئیں اب ہم یہاں کے سب سے بڑے مندر پر جا کرپھولوں، پھلوں اور مٹھائیوں کے چڑھاوے دیں گے۔بس کو ایک بار پھر ایک بڑے سے مندر سے تھوڑی دوری پر روک دیا گیا، خوش قسمتی سے اب کی بار کچھ سیاح بس کے اندر بیٹھے رہے یوں مجھے بھی سکون سے اندر بیٹھنے کا بہانہ مل گیا۔ کوئی پچیس منٹوں کے بعد بس واپس چل پڑی،پنڈت ابھی تک بس میں سوار تھا۔ ہمارے راستے میں ایک جلوس آ رہا تھا،یہ سب یاتری تھے جو کوئی مورتی اٹھائے” شری کرشن مہاراج کی جے“ کے نعرے اور بھجن گاتے آگے چل رہے تھے۔بس میں بیٹھے پنڈت نے بھی ہاتھ اوپر اٹھا کر ایک نعرہ مارا”جے شری کرشن“۔یاتری شاید کسی مندر پر چڑھا وا چڑھانے جا رہے تھے ، جن کے ساتھ کچھ بوڑھی عورتیں رادھے شیام،رادھے شیام گاتی چلی جا رہی تھیں۔بس میں بیٹھا پنڈت پھولے نہیں سما رہا تھا کیونکہ اس کے دھرم کا کاروبار عروج پر تھا۔پورے ہندوستان کے بینکوں میںجتنے بھی پیسے پڑے ہوئے ہیں، وہ سب دکھاوا ہیں، اصل نوٹ چھاپنے کی مشینیں مندروں کے اندر لگی ہوئی ہیں ۔ہر مندر میں پڑی پتھر کی مورتی کے آگے بیٹھا موٹی توند والا پجاری(پروہت) جس نے پوجا پاٹ کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ مندر کی سیڑھیوں کو چھونے ، چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے اور بھگوان کے آگے جھکنے کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں۔ جتنے زیادہ ریٹ اتنے بڑے درشن۔یہی حال بدقسمتی سے ہمارے بزرگان دین کے مزاروں پر بیٹھے سجادہ نشینوں کا ہے ، جو اپنے سامنے سبز صندوقچی سجائے بیٹھے ہیں، جہاں پر کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ دان کرنا پڑتا ہے۔پاک و ہند میں مذہب سب سے بڑی ٹریڈ انڈسٹری اور اسٹاک ایکسچینج کا درجہ رکھتی ہے جہاں پر دھرمی اسٹاک ایکسچینج کے ریٹ ہمیشہ بڑھے ہیں کبھی کم نہیں ہوئے۔ بس میں بیٹھا پنڈت ، مندر میں بیٹھے پروہت اور پجاری، خواجہ نظام الدین اولیاءکے مزار پر چلتے پھرتے مجاور ، درگاہوں پر قابض ہٹے کٹے سجادہ نشین اور دونوں دیشوں کے سیاسی نظاموں پر شیش ناگ کی طرح قبضہ جمائے بیٹھے مذہبی تنظیموں کے سربراہان۔۔ مجھے ان سب میں کوئی خاص فرق دکھائی نہ دیا۔ دونوں ایک سے ہیں، عامر خان کی فلم (پی کے) کے اصلی رانگ نمبر ۔
چلتی بس کے دائیں جانب ایک گھنے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پنڈت نے سیاحوں کو ایک بار پھر متوجہ کرتے ہوئے بتایا کہ چاردیواری کے اندر فیلے( پھیلے) اس Nidhivan (جنگل) میں ہر طرف تلسی کے بڑے بڑے پیڑ اور گھنے درخت ہیں جن کی شاخیں نیچے جھکی ہوئی ہیں۔اسی جنگل میں کرشن اور رادھا راس لیلا رچایا(رقص کیا) کرتے تھے۔شام ہوتے ہی جنگل کے گیٹ بند کر دئیے جاتے ہیں اور جنگل کے اندر بنے رنگ محل میں سنگھار کا سامان ایک بیڈ پر رکھ کر محل کو سات تالے لگا کر بند کر دیا جاتاہے۔جنگل کے بندر ، چرند پرنداور بھگتوں سمیت سب باہر نکل جاتے ہیں۔اگر کوئی انسان غلطی سے جنگل میں رہ گیا تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی انہونی ہو جاتی ہے۔ ورنداون کے اس جنگل سے منسوب ایک عجیب وغریب داستان پنڈت کی زبانی سننے کو ملی ۔کشن کنہیا اپنی پریتما (رادھا) کے ساتھ جب راس لیلا رچانے آتے ہیں تو جنگل کے سارے پیڑ گو پیا ں بن کر اُن کے سنگ رقص کرتے ہیں ۔کرشن اور رادھا وہاں سے تھک ہار کر آرام کرنے کی غرض سے رنگ محل چلے جاتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے غائب ہو جاتے ہیں ۔ صبح سویرے بھگتوں اور سیاحوں کے سامنے رنگ محل کادروازہ کھولا جاتا ہے تو کمرے میں رکھے گئے لڈو، چبائے ہوئے پان اور سنگھار کا سامان بے ترتیب اور بکھرا ملتاہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی یہاں رات کی تاریکی میں آیا ہوگا ۔بہرحال یہ وہاں کے ہندوﺅں کا عقیدہ ہے کہ رادھاکرشن یہاں ہر رات آتے ہیں۔ پنڈت کی زبانی قصہ سننے کے بعد میرے ذہن میں سوال ابھرا کہ میں اُس سے پوچھوں ”اگررنگ محل اور جنگل میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا دئیے جائیں تو بخوبی پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ رات یہاں کون کون آیا تھا “،مگر پنڈت کی سرخ موٹی آنکھیں دیکھتے ہی مجھے اپنا سوال تھوک سمیت نگلنا پڑا ،مبادا سناتن دھرم کی بے حرمتی کے ضمن میں میری نہ صرف پٹائی کر دی جاتی بلکہ انڈین ٹی وی چینلوں پر لائیو خبر چلنے لگتی کہ ایک پاکستانی دہشت گرد کو ہم نے پکڑ لیا ہے جو رنگ محل کو اڑانے کی نیت سے یاتریوں کی بس میں گھس بیٹھا تھا۔ چونکہ مجھے صحیح سلامت واپس اپنے گھر جانا تھا ،اسی لئے ایسے موقعے پر سرائیکی محاورے ” سِر سلامت جتیاں بہوں“ نے خاصا سہارا دیا ۔میں چپ چاپ بیٹھا سب کچھ سنتا رہا۔جنگل گزرنے کے بعد کسی قریبی مندر کے سامنے بس روکی گئی اور پنڈت جی پرنام کرتے ہوئے بس سے نیچے اتر گئے۔
رادھا کرشن (محبتوں کے استعارے): رادھا کرشن کا ملن بھی عشق کی ایک عجیب داستان تھی۔ کہتے ہیں کہ رادھا کو کرشن سے سچا عشق تھا لیکن دونوں کے درمیان بادشاہت آڑے آگئی تھی۔کرشن جب وَرِنداون چھوڑ کر جانے لگا تواُس نے گوپیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک دن واپس لوٹ کر آئے گا اور ساری گوپیوں کے گھروں کا دروازہ تین بار کھٹکھٹا ئے گا ، جس گھر میں دیا جل رہا ہوگا اور جو گوپی اُس کیلئے دروازہ کھولے گی وہ اُسی کے عشق کو سچا مانے گا ۔ کئی برس گزرنے کے بعد ایک شدید طوفانی رات میںکسی اجنبی نے ورنداون بستی کے در کھٹکھٹانے شروع کر دئیے ۔ وہ ہر مکان پر تین بار دستک دیتا ،اندر اندھیر ا دیکھ کر آگے بڑھ جاتا ۔ کسی گوپی نے اس اجنبی کیلئے اُٹھ کر دروازہ نہ کھولا۔ وہ نااُمید سا ہو کر بستی سے لوٹنے لگا تھاکہ اسے دور ایک جھونپڑی کے اندر مٹی کا دیا جھلملا تا دکھائی دیا۔ وہ تیز قدم اٹھاتا اس جھونپڑی کی طرف بڑھا، دروازہ باہر سے کھلا تھا چنانچہ وہ دبے پاﺅں اند ر داخل ہوگیا۔ اندر دیے کی ٹمٹماتی لو کے سامنے چپ چاپ بیٹھی کوئی بڑھیا کسی کا انتظار کر رہی تھی۔بڑھیا کے سر کے بال کپاس کی طرح سفید ہو چکے تھے اور چہر ے پر جُھر یاں پڑ چکی تھیں ۔ کرشن نے فوراً اپنی محبوبہ کو پہچان لیا اور گلوگیر لہجے میں بولا ۔”رادھا میں ہوں تمہارا کشن “۔ رادھا ! آنکھیں کھولو، میں واپس آگیا ہوں۔ رادھا خاموشی سے دیے کی لَو کو تکتی رہی۔ رادھا مجھے دیکھو۔ کرشن پوری طاقت سے بولا لیکن رادھا جو نہ کچھ سن سکتی تھی ، نہ دیکھ سکتی تھی۔اپنے محبو ب کی راہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں اندھی، کان بہر ے ہو چکے تھے ۔رادھا نے واقعی کرشن سے روحانی عشق کیا تھا ۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر