عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگرہ سے متھرا کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ متھرا کے قریب بس روک لی گئی ،بشیرخان چپکے سے نیچے اترے اور کاندھوں پر زعفرانی چادر لپیٹے نیچے دھوتی پہنے، بالوں کی چوٹی بنائے کوئی پنڈت بس کے اندر سوار ہو گیا ۔ سرخ آنکھوں والے پنڈت کے ننگے پیٹ پر کوئی دھرمی دھاگہ لہرا رہا تھا۔وہ میرے عقب میں پڑی ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گیا اور پھر یہیں سے ہمارے صبر کا امتحان شروع ہوا جو متھرا،ورِنداون گزرنے کے بعد کہیں جا کر تمام ہوا۔ہندو پروہت نے نہ صرف دماغ کی دہی بنا کر رکھ دی بلکہ سارے راستے سناتن دھرم کی خوب مارکیٹنگ کی۔
متھرا(کرشن بھگوان کی نگری ) : مِترو ہم اِس وقت جس آستھا سے گزر رہے ہیں اسے مِتھُورا(متھرا) کہتے ہیں۔متھرا کے ایک جانب یمنا( جمنا) بہتی ہے اورباقی تینوں اطراف مندر ہی مندر ہیں۔ سناتن دھرم کے دھارمک شہروں ایودھیا،ہردوار،وارانسی(بنارس) کی طرح متھرا بھی پوتر نگری مانی جاتی ہے،کیونکہ یہ شری کرشن بھگوان کا جنم استھانی شہر ہے۔ آپ سب ویکتیوں کو کرشن کی نگری سے نمشکار ۔ کر شن جی کے لاکھوں بھگت اپنے بھگوان کاجنم اشمٹی(جنم دن) منانے کیلئے بھارت ورش کے کونے کونے سے یہاںکھنچے چلے آتے ہیں ۔ متھرا میں کرشن بھگتوں کے استقبال کیلئے پندرہ بیس روز پہلے ہی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ویسٹ انڈین سیاح رچرڈ سے شایدپچھلے جنم میں کوئی گناہ سرزد ہوا ہوگا تبھی اُس نے میرے پیچھے بیٹھے پنڈت سے پوچھ لیا :یہ کرشن کون تھا ؟۔رچرڈ کا پوچھنا تھا کہ میرے پیچھے بیٹھا چابی کا کھلونا بولنے لگا ۔ جہاںرچرڈ بیزار ، وہیںہم سب بھی اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ساری داستان پنڈت کی زبانی سننے پر مجبور ۔پنڈت نے فوراً ہندی سے انگریزی چینل بدلا اور بدیسی زبان میں ہندو مت کے قصیدے شروع کر دئیے ۔
کشن کنہیا کی کہانی : سناتن دھرم کے مطابق وِشنو بھگوان دنیا کو راکھشسوں(پاپیوں) سے نجات دلوانے کیلئے ہر دور میں اپنے اوتار زمین پر بھیجتے رہے ہیں۔یہ وِشنو کون تھے ؟ وِشنو آپ کے بائبل والے گاڈ کی طرح ہمارے سناتن دھرم کے گاڈ ہیں۔ جس طرح تمہارے گاڈ نے Jesusعیسیٰ کو زمین پر بھیجا تھا تاکہ وہ لوگوں کے پاپ دور کرے، اسی طرح وشنو زمین پر اپنے اوتار بھیجتا رہا ۔ پنڈت کے منہ سے Jesus کا نام سنتے ہی رچرڈ کی بیوی بھی اب اس کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔ جب دھرتی پر راکھشس لوگ بڑھ جاتے ہیں تب وِشنو دیوتا کسی نہ کسی اوتار کو زمین پر بھیج کردنیا کو برائیوں سے پاک کر دیا کرتے ہیں۔Jesus یعنی عیسیٰ سے کوئی تین چار ہزار سال پہلے جب متھرا کے ظالم راجہ کنس نے دھرتی پر پاپ پھیلایا تب وِشنو کرشن کی شکل میں یہاں آئے تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ گاڈ کرشن کی شکل میں انسانی روپ دھار کر زمین پر اُترا تھا ۔اچھا پھر کیا ہوا ؟ رچرڈ کی بیوی نے چسکے لے کر پوچھا۔ باقی کی کہانی ویسی ہے جیسےMoses موسیٰ کا قصہ ہے۔ کرشن (کشن کنہیا) کی کہانی مجھے بھی تھوڑی بہت دلچسپ لگنے لگی تھی خصوصاً پنڈت نے جب کرشن کے ساتھ رادھا کا ذکر چھیڑا تو میری ”ڈیرے وال رگ“ پھڑ ک اٹھی۔اگرچہ مجھے گول مٹکے جیسے سر والے پنڈت کو دیکھنے کا ہرگز شوق نہ تھا مگر ہندو مت کے تاریخی اوتار سے جڑی کہانی سننا بھی ضروری تھا ۔یہ ہندوﺅں کا مقدس علاقہ تھا اگر غلطی سے بھی میرے منہ سے کچھ اول فول نکل جاتا تو بس کو وہیں روک کر میری پھینٹی لگنا لازمی تھی۔
ہندوﺅں کی مذہبی کتاب رامائن کے مطابق ہندو دیومالا میں راجہ کنس کا کردار ایک ظالم بادشاہ اور انسانی تاریخ میں ایک منفی قوت کے طور پر سامنے آتا ہے جو ظلم وبربریت، خوف اور ہیبت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ راجہ کنس کو جوتشیوں نے خبردار کیا کہ اس کی بہن دیواکی اور بہنوئی وا سدیو کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہو گا جو وِشنو کا اوتار ہوگا اور اس کی راج نیتی کو ختم کرے گا۔ جس پر اس نے بہن اور بہنوئی کو زندان میں ڈال دیا۔ جب دیواکی کے ہاں بچہ ہوا تو واسدیو نے اسے ٹوکری میں چھپا کر جمنا ندی میں بہا دیا ۔ یوں کرشن وَرِنداون میں گوالوں کی بستی کے سردار ” نندا“ کے ہاں پلنے لگا۔نٹ کھٹ ، مکھن چور کرشن کا بچپن ایک چرواہے کے طور پر گزرنے لگا اور وہ وہیں پل کر جوان ہوا ۔اُسی زمانے میں کرشن کی دوستی گوپیوں(گوالنوں ) سے ہوگئی۔ یہ گوپیاں چرواہوں کی بیٹیاں تھیں جو صبح سویرے گائیں چرانے کیلئے جنگل میں نکل جایاکرتی تھیں۔ رادھا ان میں سب سے مشہور چرواہن تھی۔ کرشن ساری گوپیوں کو بانسری بجا کر گھروں سے بلاتا اور پھر سب مل کر گائیں چرایا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ کرشن نے علاقے میں آئی آدم خور بلا کو مارا اور جمنا کے پانی کو زہریلا کرنے والے کالیا ناگ سے مقابلہ کرکے گوکل بستی میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی ۔کرشن رادھا کے ساتھ روحانی بندھن میں منسلک ہوا، واپس متھرا پہنچ کر راجہ کنس کو قتل کرکے اپنے نانا ”اُکراسین“ کو تخت پر بٹھا دیا اور اس طرح انسانیت کو اس کے ظلم وجبر سے آزاد کروا کر امن و آشتی عطاکی۔ ”نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی“، یہ کیا قصہ ہے؟
میرے سوال پر پنڈت بول اٹھا: رادھا کرشن کے ساتھ مل کر مدھو بن(پھولوں سے لدے باغ) میں یمنا کنارے ناچا کرتی تھی ، جس میں بہت سی گوپیاں بھی حصّہ لیتی تھیں۔ مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے۔عموماً چاندنی راتوں میں یہ ناچ ہواکرتے تھے ، جس میں رادھا کے ساتھ اس کی سہیلیاں بھی حصہ لیتی تھیں اور کرشن بنسی (مُرلی) بجایاکرتا تھا۔ رات گئے تک رقص و موسیقی میںکرشن اور رادھا کلا کے کلیان دکھایا کرتے تھے، جس میں رادھا کا ناچ سب سے انوکھا ہوتا تھا ۔ رادھا کجراری آنکھوں والے سانولے سلونے کرشن کی بانسری کی آواز کی دیوانی اور کرشن رادھا کے حسن و رقص کا اسیر ۔ رادھا کے رقص کی شہرت جب قریبی ریاست کے راجہ تک پہنچی تو اس نے رادھا کو اپنے محل میں ناچ دکھانے پر مجبور کرنا چاہا، مگر رادھا صرف کرشن کی بانسری کے سروں کی دیوانی تھی اور صرف اسی کے سامنے ناچتی تھی ، وہ راجہ کو انکار بھی نہیں کر سکتی تھی مبادا وہ دشمنی پر اُتر آتا ۔ اُس نے راجہ کے سامنے یہ بہانہ تراشا کہ جس ناچ کی آپ نے محل میں فرمائش کی ہے اس کیلئے محل کے کونے کونے پر خالص تیل کے دیے روشن کرنے پڑیں گے اور اتنے سارے دیوں کیلئے نو من تیل درکار ہوگا۔اگر آپ نو من تیل کا بندوبست کر سکتے ہیں تو داسی محل میں ناچنے کیلئے تیار ہے۔بھلا نو من تیل کہاں سے آتا؟ ۔ راجہ کے نہ ہی تیل کے کنوئیں تھے اور نہ ہی وہ قطر کویت کا امیر تھا۔غریب راجہ رادھا کی شرط پوری نہ کر سکا ، اس طرح رادھا کی جان بچ گئی۔اُسی دن سے آج تک یہ محاورہ ایک کہاوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کسی کام کو کرنے سے انکار کرنا ہو تو اسے ناممکن بنانے کیلئے یہی محاورہ استعمال ہوتا ہے ”نہ نو من تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی“۔
” مترو متھرا آگیا، اب ہم یہاں سے پیدل شری کرشنا جنم بھومی مندر جائیں گے جہاں کرشن بھگوان نے جنم لیا تھا، وہاں مندر میں کرشن کی مورتی پر فول(پھول) اور فل(پھل) کے چڑھاوے چڑھائیں گے ۔ متھرا کے پیڑے بہت لذیذ ہیں، جس نے لینے ہوں میں دکانیںبھی دکھا دوں گا“ ۔پنڈت کی نشاندہی پر ڈرائیور نے بس روک دی ،ساری سواریاں نیچے اترتے ہی پنڈت کسی پائپ پائپر کی طرف سیاحوں کو اپنے پیچھے لئے مندر کی جانب چل پڑا۔میں بس کے سامنے بنے کھوکھے کے ساتھ پڑے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ کھوکے کا مالک کوئی ہندو تھا، جس نے ماتھے پر تلک لگارکھا تھا ۔کھوکھا ایک چھوٹی سی گروسری شاپ کی مانند تھا جس کے اندر پان، سگریٹ، بوتلیں اور دوسری اشیاءرکھی ہوئی تھیں۔
متھرا وِدواﺅں(بیواﺅں) کا شہر: کھوکھے کے سامنے پڑے کوڑا کرکٹ پر چرتی تین چار مریل سی فاقہ زدہ گائیں، درمیان میںدم اٹھائے چلتے پھرتے تین کتے اور دور سے آتی بوڑھی عورتوں کا گروپ جنہوں نے سفید ساڑھیاں باند ھ رکھی تھیں۔ہندوﺅں کے پوتر شہر متھرا کو وِدواﺅں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سفید ساڑھی باندھے مالا پھیرتی، لاٹھی ٹیک کر چلتی پھرتی یہ وہ بیوائیں ہیں جنہیں سماجی بوجھ سمجھ کر اس شہر(متھرا) میں لا کر چھوڑ دیاجاتاہے ۔کچھ بیواﺅں کو اُن کے رشتے دار چھوڑ جاتے ہیں ،کچھ خود متھرا کا رخ کرتی ہیں۔کوئی یہاں بھیک مانگ کر گزارا کرتی ہے، کوئی مندروں میں بھجن گا کر اپنا پیٹ پالتی ہے تو کوئی متھرا کے کسی مندر میں رادھا کرشن کی داسی یا بھگت بن کر اپنی باقی عمر گزار دیتی ہے۔کھانستی ہوئی، گھٹیاکی ماری رعشہ براندام کرشن بھگوان کی یہ داسیاں محبت کے سُروں میں ڈوبے کشن کنہیا کے شہر میں المناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
لو جی اب ہم وَرِانداون جا رہے تھے جو متھرا سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ورِنداون وہی قصبہ جہاں کرشن جی کا بچپن گزراتھا۔لیجئے پنڈت کی کمنٹری پھر سے شروع ہوگئی۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر