عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاج محل آگرہ نے پہلی نظر میںہی اپنی گرفت میں لے لیاتھا ۔صدیاں گرزنے کے باوجود اس کی خوبصورتی اور شادابی آج بھی قائم ودائم ہے۔تاج محل کی تعمیر ایک بلند سنگ سرخ کے چبوترے پر کی گئی ہے تاکہ دریائے جمنا کاپانی عمارت کی بنیادوں کومتاثر نہ کر سکے ۔یہ عمارت ترکی، ایرانی اور ہندوستانی فنکاری کا مشترکہ شاہکار ہے ۔
تاج محل کے اردگرد ایک بہت بڑا مستطیل باغ ہے،جس کے اندر سنگ مرمر کی نہریں آپس میں مل رہی ہیں ۔ گنبد اور مرکزی داخلی راستے کے درمیان جو سنگ مرمر کا تالاب ہے اُ س کے پانی میں تاج محل کا عکس تیرتا دکھائی دیتا ہے۔تاج کی بائیں جانب مشرق میں سنگ سرخ سے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ شاہجہان بادشاہ روزانہ کشتی کے ذریعے آگرہ قلعے سے تاج محل آتا اور قلعے میں اپنی خصوصی نشست پر بیٹھ کر تاج محل کا نظارہ کیا کرتاتھا۔کہتے ہیں کہ شاہجہان سنگ سیاہ سے اسی قسم کا دوسرا مقبرہ جمنا کے دوسرے کنارے ا پنے لئے بھی بنوانا چاہتا تھا تاکہ سنگ سیاہ سے بنے اپنے مقبرے کو سنگ سفید سے بنے تاج محل کے درمیان سونے کے پل سے جوڑ دیا جائے ۔ اس مقصد کیلئے بنیادیں بھی کھودی جا چکی تھیں،مگر اورنگ زیب عالمگیر نے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔
تاج محل کی عمارت کے باہر جوتوں کے اوپر باریک ململ کے موزے پہن کر عمارت کی اندرونی سیر کی جاتی ہے ۔تاج محل کی دہلیز تک پہنچ کر میں لائن میں کھڑا ہوگیا ۔ ایک جم غفیر اور عجیب سی دھکم پیل دیکھنے کو ملی،جو مجھے لمحہ بہ لمحہ اُوپر جانے والے زینوں کے قریب کرتی جا رہی تھی۔ عملے کے سامنے سے گزر کر میں سیدھا سفید سنگ مرمر سے آراستہ وسیع و عریض صحن میں جا پہنچا۔صحن کے وسط میں بنا مقبرہ اور مقبرے کے چاروں کونوں پر کسی پہرہ دار کی طرح خاموشی سے پہرہ دیتے چار مینار کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کبھی بھی زلزلہ آیا تو چاروں مینار باہر کی جانب گریں گے جس سے عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
تاج محل کے اندر کا منظر باہر سے کہیں زیادہ خوبصورت لگا ۔دیواروں پر انتہائی خوبصورت خطاطی میں قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں۔سورة یاسین،الفتح، ملک سمیت کوئی پندرہ سولہ سورتیں شامل ہیں۔یہ سب سنگِ مرمرکی دیواروں پر سیاہ پتھر سے لکھی گئی ہیں۔دیواروں کے اند رپتھر سے کی گئی کیلی گرافی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔گنبد کے اندر نناوے اسمائے مبارکہ کندہ ہیں ۔ مرکزمیں بنے گنبد کے بالکل نیچے شاہجہان اور ممتاز محل کی قبریں ہیں۔ بڑی قبر کا تعویز شاہجہان اور چھوٹی قبر ممتاز محل کی ہے۔ممتاز محل ایک بصیرت افروز، سیاسی مفکّر، ہوشیار اور حکمت ساز خاتون تھیںجو شاہجہان کے چودہویں بچے کو جنم دیتے ہوئے زچگی کی حالت میں انتقال کر گئی تھیں۔ ممتاز محل کی موت کے بعد شاہجہان دو مہینے تک اپنے کمرے سے باہر نہ نکلا اور پوری سلطنت میں سوگ منایا جاتا رہا ۔دو ماہ بعدجب بادشاہ حزن گاہ سے باہر نکلا تو غم و اندوہ کی وجہ سے سر کے تمام بال سفید ہو چکے تھے اور پھر اُس نے اپنی محبت کی انتہا کو زمین کے سینے پر نقش کرنے کا فیصلہ کیا اور پوری دنیا کو محبت کی ایک عظیم نشانی دے کر آگرہ قلعے میں قیدی کی حیثیت سے دنیا سے چل بسا ۔مرنے کے بعد تاج محل کے خالق کی لاش کو کشتی میں لاد کر جمنا پار لایا گیا اوروہ اپنی ہی بنائی ہوئی جنت میں اپنی محبوبہ بیوی کے پہلو میں دفن ہوا ۔دونوں میاں بیوی کی قبریں سفید ماربل سے تیار کی گئی ہیں جن کے گرد خوبصورت سی جالی بنی ہوئی ہے جبکہ اصل قبریں تہہ خانے میں کچی حالت میں آج بھی موجود ہیں مگر وہاں تک جانے کی اجازت نہیں۔
میں مقبرے سے نکل کر تاج محل کے عقب میں کھڑے ہوکر دریائے جمنا کا نظارہ کرنے لگا ۔ا س جگہ کبھی شہنشاہِ ہند شاہجہان کھڑے ہو کر جمنا ندی کا دیدار کیاکرتا ہوگا۔ تاج محل سے ملحق جمنا ندی کافی سوکھ چکی ہے جس سے تاج محل کے اطراف گندہ پانی جمع ہو تا رہتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے خوبصورت ترین آرٹ پیس ”تاج محل“کو تخلیق کرنے میں تقریباً بیس سے اکیس سال کا عرصہ لگا۔بیس ہزار سے ذائد مزدوروں کی محنت اور تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی لاگت سے اسے تخلیق کیا گیا تھا۔تاج محل کس نے ڈیزائن کیا؟ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ ایک معمہ بنا ہوا ہے؟۔کوئی اسے استاد احمد لاہوری کے ہاتھوں کا کمال گردانتا ہے۔کوئی استاد آفندی کوئی استاد عیسیٰ خان تو کوئی عیسیٰ آفندی کو کریڈٹ دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب ایک ہی معمار کے مختلف نام ہوں،مگر تاج محل کا ڈیزائن کسی ایک ماہر تعمیرات کے نام نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ تاج محل جیسے تخلیقی منصوبے ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیںاور ایسے منصوبوں کیلئے ہر شعبے سے ماہرین ِفن تلاش کئے جاتے ہیں۔تاج محل صرف ایک شہنشاہ کی محبت کی نشانی نہیں بلکہ ان ہزاروں ہنرمندوں کی محبتوں اور محنتوں کا ثمر ہے جو اُس وقت کرہ ارض پر موجو دتھے اور اپنے اپنے فن میں ماہر سمجھے جاتے تھے،۔ کہا جاتا ہے کہ تاج محل کے چیف آرکیٹکٹ عیسیٰ شیرازی تھے، جنہوں نے اس کا نقشہ تیار کیا تھاجبکہ باد شاہ نامہ از عبد الحمید لاہوری میں درج ہے کہ شاہجہان نے اپنے ہاتھوں سے اس شاہکار منصوبے کا خاکہ تیار کیا تھا۔تاج کی دیواروں پر فنِ خطاطی کے جو نادر نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ امانت خان شیرازی کی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔محل کاگنبد بنانے کیلئے ترکی سے اسماعیل خان کو بلا یا گیا تھا ، یہ شخص گنبد بنانے کا ماہر تھا۔ خالص سونے کے کلس کی ڈھلائی کیلئے لاہور سے استاد کاظم خان آگرہ آئے تھے ۔دلی کے مقامی سنگ تراش چرن جی لال کے علاوہ سمرقند بخارا سے ماہرین سنگ تراش بھی بلوائے گئے تھے ، اسی طرح شام و شیراز سے خطاط بلوائے گئے تھے ۔کندہ کاری کیلئے جنوبی ہند ، اینٹوں کے معمار شمالی ہند ، سنگلاخ پتھروں کا سینہ چیرنے والے بلوچستان سے جبکہ کندہ کاری کے ماہرین اور پتھروں پر پھول تراشنے والے ماہرین لاہور سے بلوائے گئے تھے، تب کہیں جا کر شاہجہان کے ذہن میں بنا خاکہ زمین پر منتقل ہوا تھا۔گویا تاج محل ایران ،ترکی و ہندوستان کی مشترکہ مسلم تہذیبوں کا علمبردار ہے۔برطانوی دور میںایک وقت ایسا بھی آیاجب انگریز گورنر جنرل لارڑ ولیم بیٹنگ نے شاہجہان کے خوابوں کے محل کو برائے فروخت پرلگا دیا تھا کہ اسے گرا کر اس کا ملبہ اور پتھر فروخت کر دیا جائے مگر پارلیمنٹ نے محض اس بات پر انکار کر دیا تھا کہ اسے گرانے کا خرچ زیادہ ہے اور ملبے سے وصولی ملنے کی امید کم ہے ۔
طلوعِ آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک تاج محل کھلا رہتا ہے۔ پہلے یہ راتوں کو بھی کھلا رہتا تھا ،مگر سیکورٹی خدشات کے سبب اب تاج محل کو سورج ڈھلنے کے فوراً بعد بند کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک حکمنامے کے مطابق پونم یعنی پورے چاند کی رات اور اس سے ایک دو راتیں آگے پیچھے تاج محل رات کو کھلا رہتاہے ۔ چاندنی راتوں میں لوگ اس کا حسن دیکھنے کیلئے امڈے چلے آتے ہیں ،خصوصاً چودہویں کی رات جب چاند عین گنبد کے اوپر پہنچتا ہے تو تاج محل کی چمک اور خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے۔ اس رات خصوصی طور پر سیاحوں کا جمگھٹا ہوتا ہے ، آگرہ میں بہت چہل پہل ہوتی ہے اور تمام ہوٹل پہلے سے بُک ہو چکے ہوتے ہیں ۔
تاج محل کو قریب سے دیکھنے اور اسے محسوس کرنے کے بعد ہم سب نے واپسی کا قصد کیا۔سندر سماں،دلکش ماحول اورپر کیف منظر سے بھرپورتاج محل کی مرمریں عمارت کے عقب میں کجلا تی شام کا حسین منظر واضح تھا ۔مشرق میں آسمان تقریباً قرمزی ہو چکا تھا جبکہ مغرب میں ایک خاموش اور دودھیا قزح رنگی شام کے سائے میں سورج کا تھال آہستہ آہستہ پگھل رہا تھا۔سورج کی مدھم پڑتی بنفشی شعاعوںمیں تاج محل کے سامنے ترتیب سے سینہ تانے کھڑے صنوبر کے درخت،تراشیدہ گھاس ، اینٹوں کے ٹریکس اور درمیان میں بنے تالاب کے کنارے چلتے پھرتے سیاح۔ سورج کی دھیمی پڑتی کرنوں نے منظرکو اجال سادیا تھا۔ایک مدہم سا سنہرا پن پودوںاور درختوں کی پھنکنیوں پر اتر آیا تھا۔شام کے سہانے منظر میں تاج محل کے گنبد پر پرندوں کی اُڑان بھرتی ٹولی کو دیکھ کر یوں لگا جیسے کسی نے مٹھی بھر سونے کے سکے فضا میںاچھال دیئے ہوں۔ ہر کوئی پیچھے مڑ مڑ کر تاج محل کو دیکھے جا رہا تھا ۔نہ جانے پھر کب اس شاہکار عجوبے کا دیدار نصیب ہو سکے گا۔ تاج کمپلیکس سے باہر نکلتے وقت ایک بلندی پر کھڑے ہو کر تاج محل کی آخری تصویر کھینچی۔ تصویر میں غروب آفتاب کا سنہری منظر واضح تھاجس کے پس منظر میں گلابی شام آہستہ آہستہ دھندلکے سے گھل مل کر مٹ رہی تھی ۔ اگرمیرا بس چلتا تو باقی کا سارا وقت تاج کمپلیکس میں ہی گزاردیتا۔
شیشے کی طرح شفاف تاج محل سے نکل کرآگرہ کی گردآلودہ فضا میں رچے بس اسٹینڈ میں داخل ہوتے ہی ہماری واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ گائیڈ نے آگرہ شہر سے نکلتے سمے ہمیں بتا دیا تھا کہ ہم واپس دلی جا رہے ہیں اور راستے میں دو جگہوں پر رکیں گے۔
پہلا پڑاﺅ متھرا (Mathura) ہو گا اور دوسرا وَرِنداون (Vrindavan) ہو گا ۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر