اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قبضہ گیروں کے مظالم کا شکار یتیم بچی کی فریاد||جام ایم ڈی گانگا

ُ ُ درانی فیملی کی بیوہ خاتون شاہدہ تسنیم اور اس کی بیٹی حنا خورشید خان نے ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا تعلق رحیم یار خان شہر کی معروف درانی فیملی سے ہے

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،، وطن عزیز پاکستان میں میرٹ اور انصاف کی پوزیشن کیا ہے. اداروں اور عدالتوں میں مظلوم لوگوں کی شنوائی کب، کیسے اور کتنی دیر بعد ہوتی ہے.قبضہ غاصب و استحصالی گروہوں اور قبضہ گیر گروپس کی پشت پناہی کون لوگ کرتے ہیں. آج مجھے کچھ نہیں صرف یہ شعر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد ایک مظلوم خاندان کی داستان عوام، متعلقہ اداروں، حکومتی ایجنسیوں اور حکمرانوں کے سامنے رکھ رہا ہوں.تاکہ زمینی حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد انصاف اور شنوائی کی راہ حائل اونچی اونچی خادار دیواریں گریں اور مظلوم فیملی کو بروقت انصاف ملنے میں آسانی میسر آ جائے
گانگا کیا کرتے ہیں آئین و قانون سے ماوراء لوگ
مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سچ خود بولے گا
ُ ُ درانی فیملی کی بیوہ خاتون شاہدہ تسنیم اور اس کی بیٹی حنا خورشید خان نے ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا تعلق رحیم یار خان شہر کی معروف درانی فیملی سے ہے.ہم ضلع کے بااثر لوگوں کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہیں.میری بیوہ ماں شاہدہ تسنیم اور ہم یتیم بہن بھائیوں کی پولیس میں شنوائی نہیں ہو رہی.ہماری 46ایکڑ6کنال زمین ہتھیانے کے لیے ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے. ہمیں قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں. ہماری درخواست کے باوجود قانون کے رکھوالے ملزمان کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے سیاسی دباؤ کی وجہ سے الٹا ان کی طرفداری اور انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں. میرٹ اور انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں. ریکارڈ، حالات و واقعات کی روشنی میں حقائق آپ کے ذریعے عوامی عدالت کے سامنے رکھ رہی ہوں. آپ انہیں دیکھیں، جانچیں ، پرکھیں سچ ہونے کی صورت میں ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف ہم مظلوم لوگوں کا ساتھ دیں ظلم و جبر، دھونس، قبضہ گیری کے خلاف ہماری آواز بنیں.اپنے وسیب کی ایک بءوہ ماں اور یتیم بیٹی کو اپنا حق اور انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کریں.صحافت کو شفاف آئینہ کہا جاتا ہے. صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان شمار ہوتے ہیں. خدارا زمینی حقائق کو دیکھیں اور ہماری دُکھ بھری داستان کو ہمدادرنہ سنیں. ہماری تمام محب وطن ایجنیسوں سے بھی اپیل ہے کہ بیان کردہ حالات و واقعات اور حقائق کی اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق خفیہ تحقیقات کرکے اعلی حکام اور حکمرانوں کو آگاہ فرمائیں تاکہ انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں.
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار، صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے چہیتے، دست راست، محکمہ شکار کا، اعزای گیم وارڈن رشید خان کورائی اور ان کے بیٹے اجمل رشید، اکمل رشید، بھائی وغیرہ کھاتہ نمبرات. 35,36,58,59,70چک 76این پی محمد پور قریشیاں تحصیل رحیم یار خان میں واقع ہماری 46ایکڑ6کنال زمین ہتھیانا چاہتے ہیں. مجھے اور میرے خاندان کو اس ظالم اور سفاک گروہ سے جان و مال کا شدید خطرہ ہے. چک 76والی 18ایکڑ 3بٹا 4کنال زمین ہم نے2006میں ایک پنجابی فیملی سے خرید کی.جس کی قیمت ہم نے کراچی کا قیمتی فلیٹ بیچ کر ادا کی. 2007میں سعید احمد سے27ایکڑ 4کنال زمین خریدی جس کی قیمت سر بھوری تحصیل رحیم یار خان میں میری ماں کی وراثتی زمین بیچ کر ادا کی گئی.ایک خاتون سے بھی 7کنال رقبہ خریدا گیا تھا. یہ سارا رقبہ رشید کورائی کے پڑوس میں واقع ہے.قریبی تعلق داری کی وجہ سے
2009تک ہمارے رقبے کی نگرانی اور تمام معاملات رشید کورائی کنٹرول کرتا رہا.اس نے ہمیں رقبے سے کوئی خاص مفاد اور فائدہ نہ دیا. جون 2009میں میرے بھائی عاقب خورشید نے جاکر اپنا رقبہ سنبھال لیا. 2011,12 میں میرے بھائی عاقب خورشید نے رقبہ فاروق شاہ کو مستاجری پر دے دیا. 2012میں میرے پاپا خورشید احمد خان درانی کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو گئے. پورا خاندان انتہائی پریشانی میں مبتلا ہو گیا.2013میں ہم نے اپنی زمین چودھری اسلم کے بھانجے چودھری اختر آرائیں کو مستاجری پر دے دی.بعد ازاں تنگ کرنے کے مختلف حیلے حربے اختیار کرکے رشید کورائی نے چودھری اختر آرائیں سے مستاجری در مستاجری رقبہ اپنے بھائی سابق نائب تحصیل ناظم شاہ نواز کورائی کے نام ایگریمنٹ کروا لیا. جس کے بارے میں ہمیں کچھ بھی نہ بتایا گیا اور ہمیں کچھ پتہ نہ تھا کیونکہ ہم اپنے پاپا کی بیماری اور علاج کی فکر میں پریشان تھے.میرا بھائی عاقب خورشید بھی کراچی آیا ہوا تھا.
حنا خورشید بتاتی ہیں کہ 2014 کو جب میرے پاپا کو مستاجری در مستاجری کا پتہ چلا تو وہ انکل صدیق چاچڑ کے ساتھ رحیم یار خان آئے. ایک ایگریمنٹ تحریری کے ذریعے زمین براہ راست رشید کورائی کو مستاجری پر دے دی.مذکورہ مستاجری نامہ مارچ2017میں ختم ہونا تھا. پاپا کی انتہائی خرابی صحت اور رشید کورائی کے دباؤ پر نومبر 2016میں شرط و شرائط کے ساتھ مستاجری کا ایک ایگریمنٹ مبلخ 3900000روپے میں طے ہوا. جس کا ایک لاکھ روپے ایڈوانس بھی لیا گیا.دسمبر2016میں پاپا کا انتقال ہو گیا. مستاجری کا مذکورہ بالا ایگریمنٹ اپریل2017سے اپریل 2020تک کا تھا.رشید کورائی مستاجری کے پیسے میرے بھائی عاقب خورشید کو نقد دیتا رہا مستاجری کی کچھ رقم ڈرائیور کے ذریعے میرے اکاونٹ حبیب بنک ہائی کورٹ کراچی میں بھی جمع کروائی جاتی رہی. 10دسمبر2018 کو رشید کورائی کے نام سے 650000میرے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوئے.
جون2019میں میرے بھائی نے رشید کورائی کو مستاجری کی قسط کے لیے فون کیا تو آگے سے بولا کہ عمرہ پر ہوں واپسی پر آکر دیتا ہوں. دس پندرہ دن بعد دوبارہ فون کیا تو فون نہ اٹھایا.رشید کورائی کے بیٹے اکمل کو اور ڈرائیور کو بھی کالیں کی گئیں. جون2019کے آخر میں میری ماں شاہدہ تسنیم میرے چچا سعید احمد کے ساتھ زمین پر گئیں. رشید کورائی نے چارپانچ آدمی اسلحہ کے ساتھ وہاں بھیج کر دھمکیاں دیں. کہا یہاں سے فورا چلے جاو ورنہ گولیاں مار دیں گے اور کتے چھوڑ دیں گے. میری ماں اور چچا لاچار وہاں سے واپس آگئے.

پھر کیا ہوا.ظلم، جبر لاقانونیت سینہ زوری و بدمعاشی کے بعد قبضہ گیر سوچ کے مالک شخص نے ہماری زمین ہتھیانے کے لیے جعلی سازی شروع کر دی.جولائی 2019 میں جعلی اور بوگس اقرار نامہ بیع تیار کرکے عاشق حسین، مختیار، اختر کو پارٹنر بنا کر عدالت میں کیس دائر کروا دیا ہے.ستمبر اکتوبر2019میں رشید کورائی کو لیگل نوٹس بھیجا گیا کہ مستاجری کی قسط ادا کرے اور وقت مقررہ پر ہماری زمین بھی چھوڑ دے. لیگل نوٹس کےجواب میں رشید کورائی نے انکار کیا اور کہا کہ وہ مستاجر نہ ہے اور نہ ہی رشید کورائی نے کوئی مستاجری دینی ہے.22نومبر2019میں ہم نے عدالت میں کیس دائر کر دیا. عاشق حسین وغیرہ کے خلاف 22ABکی رٹ فائل کی.10جون2020کو ڈی ایس پی کے پاس سٹی تھانہ اے ڈویژن میں کٹھ تھا.حقائق بتانے کے بعد اجمل رشید کورائی جوکہ رحیم یارخان میں وکیل ہے اس نے سب کے سامنے ڈی ایس پی کی موجودگی میں مجھے قتل کرنے کے دھمکیاں دیں اور بڑی بدتمیزی بھی کی. کسی نے اسے کچھ نہ کہا اور کسی قسم کی کاروائی بھی نہ کی. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے اگلے روز 11جون2020کو زاہد بختیار صاحب کی عدالت میں22ABرٹ لگی ہوئی تھی.جب ہم عدالت سے باہر نکلے تو اجمل رشید اور اکمل رشید نےمیرے کونسل کو دھمکی دی مجھے اور میری ماں کو غلیظ گالیاں دیں اور دھکے دیئے.پولیس کا جانبدارانہ رویہ ملاحظہ فرمائیں. اس واقعہ کی میں نے تھانہ سٹی اے ڈویژن میں باقاعدہ درخواست دی پولیس نے ڈسٹرکٹ کچہری کے اندر عدالت کے باہر دن دیہاڑے پیش آنے والے واقعہ اور ہماری درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی. سیاسی دباو پر پولیس کا یہ طرفدارانہ رویہ میرٹ اور انصاف کے منہ پر طمانچے مارنے کے مترادف ہے.سیاسی دباو کے شکار اس تھانہ کلچر میں عدالت ہی مظلوموں کا آخری سہارا ہے.

رشید کورائی ہمیں جھوٹے مقدمات میں الجھا کر اور مختلف طریقوں سے تنگ کرکے ہماری زمین ہم سے چھیننا چاہتا ہے.وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے اثر و رسوخ، اختیارات اور طاقت کی وجہ سے یہ لوگ منہ زور اور بے لغام ہو چکے ہیں کوئی انہیں پوچھنے اور روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے. لوگوں پر جھوٹے پرچے درج کروا دیتے ہیں.کوئی بولے تو چوروں ڈکیتوں کے ذریعے ان کا نقصان کرواتے ہیں. رحیم یارخان میں اگر صحافی اس بااثر حکومتی گروپ کے قبضہ گروہ کے بارے میں حقائق پر مبنی خبریں لگائیں تو انہیں بھی دھمکیاں ملتی ہیں.جہاں قانون اس قدر ظلم و زیادتی کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرکے سو جائے. قانون کے رکھوالے سیاسی دباؤ پر میرٹ اور انصاف کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیں. ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی نہ کرکے ان کے حوصلے مزید بڑھانے لگیں. وہاں مجھ جیسی ایک مظلوم نہتی اور یتیم لڑکی کےلیے اکیلے ان بااثر قبضہ گیروں کا مقابلہ کرنا خاصا مشکل کام ہے. آپ اپنے اخبارات اور چینلز کے ذریعے ظلم و زیادتی کے خلاف ہماری آواز بنیں. مجھے میرے خاندان اور ہماری زمینوں کو قبضہ گیروں سے بچائیں. میری مخادیم صاحبان سے بھی التجا ہے کہ خدارا آنکھیں کھولیں.اپنے ان چہیتوں سے کہیں حرکتوں اور زیادتیوں سے باز آ جائیں. میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے آپ کا اور آپ کی سیاست کا کچھ نہیں بگاڑا.مجھے اور میرے خاندان کو پہنچنے والے کسی بھی جانی و مالی نقصان کی صورت میں رشید کورائی اس کے بیٹوں بھائی ذمہ دار ہوں گے. ایسے سفاک لوگوں کی معاونت اور تحفظ کا گناہ آپ کو بھی ہوگا.آخر مرنا ہے خدا کو جان دینے کے بعد حساب بھی دینا ہے. میری آپ مخادیم صاحبان سے رحم کی اپیل ہے خدارا ہم یتیم بہن بھائیوں اور ہماری بیوہ ماں پر رحم کریں.
ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے اگر انصاف سے کام نہ لیا. سیاسی دباو اور ملزمان کے ساتھ تعلقداری کی مجبوریوں کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی بجائے جانبداری کو جاری رکھا تو اس ظلم و جبر، فراڈ و قبضہ گیری اور ناانصافی کے خلاف ہم لاہور، اسلام آباد پریس کلب، وزیر اعلی پنجاب ہاوس کےسامنے احتجاج کریں گے اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگائیں گے. شنوائی نہ ہونے کی صورت میں ہمارا اسلام آباد جا کر بھی احتجاج کرنے کا ارادہ ہے.ہمیں یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے. ہم نےبدمعاشوں سے ڈرنے کی بجائے اب ان کا اور حالات کا ہر حال میں سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے. کوئی رشید کورائی اور اس کے دیگر جعل ساز پارٹنرز اور ساتھیوں سے پوچھے کہ اگر آپ لوگوں کے پاس واقعی سچا اقرار نامہ بیع تھا تو آپ لوگ2006سے جولائی2019تک 14سال کا طویل عرصہ خاموش اور چپ کیوں رہے.اگر ایسا معاملہ تھا تو ہمارے گھرانے کے ساتھ رشتہ کیوں کیا، آپ حنا خورشید اور اس کے بھائی عاقب خورشید کو کس چیز کے پیسے دیتے رہے.اس عرصے کے دوران ہم نے اپنی زمین رشید کورائی کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو مستاجری پر دیتے رہے ہیں. میں رشتوں کا احساس رکھنے والے ایک شریف و خاندانی گھرانے کی بیٹی ہوں. رشید کورائی آپ مجھے زیادہ زبان کھولنے پر مجبور نہ کریں. میں آپ کےکردار، آپ کے گھر کے حالات اور دیگر معاملات پر زبان نہیں کھولنا چاہتی مجھے زیادہ مجبور نہ کیا جائے تو اسی میں ہی آپ کی بہتری ہے.
حنا خورشید درانی اور شاہدہ تسنیم نے بتایا کہ اقرار نامہ بیع نمبری345 جس کو بنیاد بنا کر قبضہ گروپ نے عدالت میں کیس دائر کیا تھا. ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رحیم یار خان ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر کی انکوائری، تفصیلی چھان بین اور تحقیقات کے بعد مذکورہ بالا اسٹامپ پیپر، اقرار نامہ بیع جعلی و فرضی ثابت ہو چکا ہے. جس کے بعد دھوکہ دہی و فراڈ میں شامل کرداروں کے خلاف تھانہ سٹی اے ڈویژن رحیم یار خان میں ایف آئی آر نمبری1071بٹا20 قانون کی دفعات 420,468,471ت پ کے تحت درج کر لی گئی.ملزمان میں اسٹامپ فروش شاہد محمود، گل محمد صابری، قبضہ گروپ کے سرغنہ رشید کورائی، عاشق حیسن وغیرہ سمیت جعلی اقرار نامہ بیع تیار کرنے اور اسے استعمال کرنے والے 14ملزمان شامل ہیں. ظلم، سینہ زوری اور لاقانونیت کی انتہا مـلاحظہ فرمائیں کہ اسٹامپ فروش شاہد محمود جسے 2005ءمیں لائسنس جاری ہوا. پیسے کے لالچ میں اس نے 2002ء کا اسٹامپ پیپر جاری کرکے جعل سازی سے جھوٹا و فرضی اقرار نامہ بیع تیار کر دیا. ہم امید کرتے ہیں کہ اب پولیس بھی ڈاکٹر جہانزیب لابر صاحب کی طرح میرٹ و انصاف سے کام لے گی. ماضی کی طرح سیاسی دباؤ پر قبضہ گروپ کی طرفداری نہیں کی جائے گی.
میری خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی، نیشنل اور انٹرنیشنل این جی اوز سے بھی اپیل ہے کہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف حقائق اور سچائی کی بنیاد پر ہم نہتی مظلوم خواتین کا ساتھ دیں.حنا خورشید درانی ایڈووکیٹ اور شاہدہ تسنیم نےچیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزادر وزیر اعظم پاکستان عمران خان، آئی جی پنجاب پولیس اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ قبضہ گروپ کے سرغنہ رشید کورائی سے پولیس اور رینجرز کے ذریعے ان کی زمین واگزار کرا کر واپس دلائی جائے. ہمیں جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے. رشید کورائی اور اس کے حواری چیلے ہمیں قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں ہمارے کونسلز کو بھی دھمکیاں دے ریے ہیں ہم مظلوم و نہتی خواتین کی آواز بننے والے صحافیوں کو غلیظ گالیاں دینے کے علاوہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں. وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت مسلسل قبضہ گیروں کو سپورٹ کر رہے ہیں. ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ دراصل یہ وزراء ہی ہماری زمین ہتھیانا چاہتے وہاں پر اپنا کوئی نیا صنعتی یونٹ لگانا چاہتے ہیں.ظالم اور بااثر حکمران طبقے کے لوگوں سے ہمیں انصاف نہ دلایا گیا تو ہم لاہور ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے باقاعدہ اعلان کرکے خودی سوزی کرنے پر مجبور ہوں گے.ٗ ٗ
اتنی اندھیر نگری، لاقانونیت، سینہ زوری، غنڈہ گردی کیا یہ آئین قانون کے منہ پر طمانچے مارنے کے مترادف نہیں. جھوٹ، جعل سازی اور بدمعاشی کے زور پر نہتی مظلوم بیوہ اور یتیم بچوں کی زمین ہتھیانے والے سے ملک کا کوئی ادارہ پوچھنے والا نہیں ہے. وزیر اعلی پنجاب اور وزیر اعظم ظلم و زیادتی کی اس سچی داستان پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتے.لاہورہائیکورٹ یاسپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان از خود نوٹس لے کر انصاف کی بروقت فراہمی کےلیے متعلقہ اداروں کو کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے. مذکورہ بالا ارباب اختیار ایکشن یا حکم سے پہلے ملک کی دیگر ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کی خفیہ تحقیقات و تفتیش کے ذریعے سچ اور جھوٹ، ۔ ظالم اور مظلوم کی جانچ پڑتال کروائی جا سکتی ہے.۔ جن پر الزام لگایا گیاہے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: