اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شوگر ملز… لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

قبل ازیں ہم مٹھاس و ریکوری کی بات کر چکے ہیں. 26نومبر2012 لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کیا. وزیر اعلی پنجاب نے 22دسمبر کو جس کی منظوری دی.

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ناانصافی اور اندھیری نگری کا یہ عالم ہے گنے کی قیمت کا تعین کرنے والی کمیٹی میں گنے اگانے والے کسانوں کا کوئی حقیقی نمائندہ نہیں ہوتا. شوگر ملز کے نمائندگان ہوتے ہیں اور ڈبل تنخواہیں لینے والے سرکاری محکمہ جات کے آفیسران ہوتے ہیں بس ملی بھگت سے اپنا مرضی کا ریٹ کسانوں پر مسلط کر دیتے ہیں. متعلقہ سرکاری ادارے گنے کے پیداواری اخراجات کا تخمینہ بھی زمینی حقائق کے برعکس تیار کرکے فائلوں کا پیٹ بھر کر رکھ دیتے.کیونکہ شوگر ملز ایسوسی ایشن پہلے ہی ان کے پیٹ بھرنے کا انتظام کر چکی ہوتی ہے. کسان چیختے چلاتے ہیں مگر ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا. یہاں پر اخراجات کے حوالے سے تفصیلات کو طوالت کی وجہ سے کالم کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا اتنی عرض کیے دیتا ہوں کہ زمین کی جو مستاجری یعنی ٹھیکے کی رقم سرکاری محکمے نے گوشوارے میں شو کی ہے اتنے کم ریٹ پر کہیں پر بھی زمین دستیاب نہیں ہوتا.باقی بہت ساری چیزوں میں بھی ایسے ہی ڈنڈی لگی ہوتی ہے.
قبل ازیں ہم مٹھاس و ریکوری کی بات کر چکے ہیں. 26نومبر2012 لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کیا. وزیر اعلی پنجاب نے 22دسمبر کو جس کی منظوری دی. سیکرٹری فوڈ عرفان علی نے جنوری 2013کو تمام متعلقہ اتھارٹیز کو عمل درآمد کا نوٹیفیکیشن جاری کیا. مٹھاس و ریکوری 8.50فیصد کی بنیاد پر گنا کا ریٹ طے کیا گیا.ہر0.1فیصد مٹھاس میں اضافے کی صورت میں 1.79روپے گنے کے ریٹ میں اضافہ کرکے کسانوں دینے کی شوگر ملیں پابندی ہیں. اس فیصلے پر اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا. کسانوں کا معاشی استحصال بلکہ پریمیم ڈاکہ زنی جاری و ساری ہے. سپریم کورٹ میں کی گئی شوگر ملز کی اپیل طویل سے طویل تر ہو چکی ہے. عدالت عالیہ ہو یا عدالت عظمی نہتے کسان تو سوائے ارداس کرنے کے مزید کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں. ضلع رحیم یار خان اور خطہ سرائیکستان کے دوسرے اضلاع میں 10فیصد سے شروع ہوکر ساڑھے13فیصد تک ہے. گویا یہ بنیادی مٹھاس سے چار ساڑھے چار پرسینٹ کا فرق ہے.اس حساب سے شوگر ملز کسانوں کو کم ازکم 71.60روپے تا80.55روپے فی من پریمیم ڈکیتی ڈال رہی ہیں. اس حساب سے گنے کا کم ازکم ریٹ280روپےفی من بنتا ہے. غیر منظور شدہ گنے کی وراٹیز کے معاملے میں بھی شوگر ملز نے ات مچا رکھی ہے. جھنگ59شوگر ملوں نے خود کاشت کروائی لیکن اب کاشتکاروں کو غیر منظور شدہ کے نام پر لوٹ رہی ہیں.جھنگ 59 کو منظور نہ کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ اور بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ شکر گنج شوگر ملز جھنگ کی ایجاد ہے. سرکارسے بھاری تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والے زرعی سائنسدانوں اور آفیسران کو یہ گوارا نہیں کہ وہ اس کی منظور دیں.اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو ان کی تنخواہوں اور مراعات کو آنچ آ سکتی ہے. اس ورائٹی کو شوگر ملز والے یہ کہہ کر خریدنے سے انکار کرتے ہیں کہ اس کی ریکوری بہت کم ہے. یہ ان کے لیے نقصان کا باعث ہے. ان کا یہ سفید جھوٹ بھی پکڑا گیا ہے. تازہ ترین ایک معتبر لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق جھنگ 59 کی 15نومبر کی ریکوری بریکس21بٹا 2 کے مطابق 11.50فیصد ہے.
ترقی پسند زمیندار و تحریک انصاف کے متبادل ایم این اےمیاں غوث محمد مزید کہتے ہیں کہ ایس پی اید 234اپر پنجاب میں ناکام ہوئی ہے لیکن سرائیکی وسیب میں یہ ورائٹی ٹھیک جا رہی ہے. ریٹ کا تعین ہو یا پابندیاں اپر پنجاب کی وجہ سے سرائیکی وسیب کو رگڑا نہ لگایا جائے.گنے کی کامیاب وراٹیز کا سفر ٹیٹران، انڈیا، فخر ہند، 234،جھنگ59 وغیرہ تک پہنچا ہے. گنے کی بعض وراٹیز کی مٹھاس 14فیصد سے بھی اوپر آتی رہی ہے. ان میں سی پی ایس جی2525کی ریکوری 15.13 جبکہایس ایل ایس جی 21 کی ریکوری 14.61بتائی جاتی ہے. سرائیکی وسیب میں جھنگ 59کی پیداوار 1100 من سے1800من فی ایکڑ ہے. فیصلے کے مطابق طے شدہ بنیاد سے اضافی مٹھاس و ریکوری کا پریمیم کا حق یہاں کے کسانوں کو ضرور ملنا چاہئیے. شوگر ملوں کی اپر پنجاب سے سرائیکی وسیب میں شفٹنگ کی وجہ بھی یہاں کے گنے میں پائی جانے والی اضافی مٹھاس ہے. میاں غوث محمد لاڑ ضلع رحیم یار خان کی پانچ شوگر ملز کی کرشنگ کیپسیٹی کو سامنے رکھتے ہوئے پریمیم ڈکیتی بارے بتاتے ہیں کہ حمزہ شوگر ملز جیٹھہ بھٹہ8لاکھ من ڈیلی گنا کریشنگ کرتی ہے جبکہ آر وائی کے شوگر ملز 5لاکھ من، اتحاد شوگر ملز4لاکھ من جے ڈی ڈبلیو ون 6لاکھ من اور جے ڈی ٹو3.50لاکھ من روزانہ کرشنگ کرنے والی شوگر ملز ہیں. گویا ضلع میں روزانہ26لاکھ50ہزار من ڈیلی گنا کرشنگ ہوتی ہے. شوگرملز90روپے فی من پریمیم ڈکیتی کرتی ہیں. گویاروزانہ23کروڑ 85لاکھ جبکہ کم ازکم 100دنوں کے سیزن میں ضلع میں یہ شوگر ملز صرف اور صرف پریمیم نہ دے کر کسانوں کے خون پیسنے کا 23ارب85لاکھ روپے لوٹ رہی ہیں. اس حساب سے صوبہ پنجاب کی 45شوگر ملوں اور پھر پاکستان بھر کی تمام شوگر ملوں کا ذرا حساب تو لگا کر تو دیکھیں سمجھ آجائے گی کہ شوگر ملز کے مالکان مزید شوگر ملیں ہی کیوں لگاتے ہیں.یہ صرف پریمیم ڈکیتی کا حساب ہے. وزن میں ہیرا پھیری اور ناجائز کٹوتیوں کا کھاتہ بھی خاصا بڑا ہے. کرشنگ اور پروڈکشن کم شو کرکےروڈ سیس اور ٹیکسز کی چوری کا معاملہ بھی یقینی طور پر اربوں میں ہے. میاں غوث محمد لاڑ کہتے ہیں کہ جس ریٹ پر شوگر ملز کسانوں سے گنا خرید کر چینی بنا رہی ہیں انہیں ملک کے عوام کو چینی65روپے کلو دینی چاہئیے.
محترم قارئین کرام،، نازوں میں پلی بڑھی لاڈلی انڈسٹری شوگر ملز شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے مروڑ ابھی ختم نہیں ہوئے. اسے ماضی کے ناز نخرے کسان کی ماس خوری اور خون چوسنے یا یادیں تڑپا رہی ہیں. سب سے پہلے تو آرڈیننس کے خلاف کورٹ گئی وہاں سے منہ کھانے کے بعد سیزن شروع ہوتے ہی صوبہ سندھ کی شوگر ملز کے لیے گنا پرچیزنگ کنڈاجات پر انتظامیہ کے ذریعے کریک ڈوان کروایا. صوبہ بندی کروانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو خریدنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں.رحیم یار خان کے کسان ڈپٹی کمشنر علی شہزاد اور کین کمشنر پنجاب میاں محمد زمان وٹو کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالی سے دعاگو ہیں. میاں زمان وٹو یقینا بڑی دیر بعد ایک اچھا کین کمشنر آیا ہے. لاڈلی کی تازہ ترین کاروائی اس نے حکومت کو ایک خط لکھا یے کہ کسان شوگر ملوں کو 200روپے من گنا نہیں دے رہے انہیں سرکاری ریٹ پر گنا فراہم کروایا جائے. سندھ کی شوگر ملیں گنے کی خریداری280سے 300روپے من تک کر رہی ہیں. یہ شوگر ملز ایک ایسا وقت بھی تھا جب پرمٹ کا مصنوعی بحران پیدا کرکے خود پرائیویٹ پرچیز سنٹرز اور اپنے مخصوص ایجنٹوں کے ذریعے کم ازکم سرکاری ریٹ 180 روپے کی بجائے 120،150روپے من میں لوٹتی رہی ہیں حالانکہ شوگر ملوں یا ایجنٹس کا کم ریٹس پر گنا خریداری خلاف قانون ہے .لگتا ہے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے. 200روپے من گنے کی کم ازکم قیمت ہے. کسی کو زیادہ قیمت پر گنا فروخت کرنے اور کسی کو زیادہ قیمت پر گنا خرید کرنے سے قانون میں کوئی ممانعت نہیں ہے. صوبہ سندھ کی شوگر ملوں کے صوبہ پنجاب سے گنا خریدنے پر بھی کوئی پابندی نہیں. اگر بلوچستان اور سندھ کی کپاس اور دھان ضلع رحیم یار خان اور صوبہ پنجاب آ سکتی ہیں تو یہاں کا گنا وہاں کیوں نہیں جا سکتا.
موجودہ حکومت کا شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کا نفاذ ایک مستحسن فیصلہ ہے. بس اب ایک مزید مثبت فیصلے کی اشد ضرورت ہے. سیکرٹری فوڈ حکومت پنجاب کے نوٹیفیکیشن مورخہ 4جنوری 2013ء کو سامنے رکھتے ہوئےگنے کی مٹھاس و ریکوری کے مطابق کسانوں کو پریمیم کی ادائیگی یقینی بنائی جائے.

………………………….

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: