مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
آج صبح میں ویکسی نیشن کے لیے اسپتال گیا تھا۔
ڈاکٹر نے مجھے کوویڈ 19 ویکسین کا بوسٹر لگایا جو ہر دس ماہ بعد لگوانا پڑتا ہے۔ چمگادڑوں سے انسانوں میں آنے والا یہ وائرس بیس سال پہلے چین میں ظاہر ہوا تھا۔ اس سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔
پھر مجھے پونٹنگ 22 ویکسین کا انجکشن لگایا گیا جو سوا سال میں ایک بار لگایا جاتا ہے۔ کوالا سے انسانوں میں منتقل ہونے والا یہ وائرس سترہ سال پہلے آسٹریلیا سے پھیلا تھا۔ اس سے گردے فیل ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد مجھے امیزون 25 ویکسین کے قطرے پلائے گئے۔ انھیں ہر پانچ مہینے بعد پینا پڑتا ہے۔ لاما سے انسانوں کو لگنے والا یہ وائرس چودہ سال پہلے برازیل میں نمودار ہوا تھا۔ اس سے لبلبہ خراب ہوجاتا ہے۔
پھر مجھے سرپینٹ 28 ویکسین سنگھائی گئی۔ یہ ہر سات مہینے دس دن کے بعد سونگھنا پڑتی ہے۔ نیولے سے انسانوں میں سرایت کرجانے والا اس کا وائرس گیارہ سال پہلے کینیا میں دریافت ہوا تھا اور برین ہیمرج کا سبب بنتا ہے۔
اس کے بعد گھر جانے کی اجازت مل گئی کیونکہ مجھے لیسوتھو 31، سائیبیرین 34 اور تھائی 37 ویکسینز ابھی پچھلے مہینے ہی لگی تھیں۔
راستے میں ایف ایم ریڈیو پر خبر سنی کہ پاکستان میں ایک نئے وائرس کا انکشاف ہونے سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اندھی ڈولفن سے انسانوں میں منتقل ہونے والا یہ وائرس مردانہ کمزوری کا سبب بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن طبیعت خراب رہی۔ فائزر ویکسین کی دوسری ڈوز بدھ کو لگی تھی۔ شام تک بخار جیسی کیفیت طاری ہوگئی۔ درجہ حرارت چیک نہیں کیا۔ تھکن بھی تھی لیکن اصل مسئلہ سر میں درد تھا۔ جمعرات کو پورا دن یہی حال رہا۔ جمعہ کی صبح طبیعت بحال ہوئی۔
ذیلی اثرات ظاہر ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ ویکسین موثر ہے۔ جسم کا رسپانڈ کرنا بھی اچھا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس تھوڑی سی تکلیف کو برداشت کرلیں، کوئی دوا نہ کھائیں۔ درد کشا گولیاں ویکسین کا فائدہ گھٹا سکتی ہیں۔
میں نے فائزر ویکسین کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس کی پہلی خوراک ہی کافی تحفظ فراہم کردیتی ہے۔ لیکن دوسری ویکسینز لگوانے والوں میں کوویڈ کے کچھ کیسز پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان ہوئے ہیں۔ پہلی ڈوز کے بعد خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ دوسری ڈوز کے بھی دو ہفتے بعد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
فائزر اور موڈرنا کی ویکسینز ایک طریقے سے بنتی ہیں جن سے کوئی جانی نقصان ابھی تک نہیں ہوا اور یہ نوے پچانوے فیصد تک تحفظ دیتی ہیں۔
آسٹرازنیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسینز بنانے کا طریقہ ایک جیسا ہے اور ان سے بعض لوگوں کا خون گاڑھا ہوا ہے اور چند ایک اموات بھی ہوگئی ہیں۔ ان خبروں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے کیسز کی شرح دس بارہ لاکھ میں ایک ہے۔ ہزاروں پروازوں میں سے ایک حادثے کا شکار ہوجائے تو لوگ سفر کرنا نہیں چھوڑ دیتے۔ ڈاکٹر ان کیسز کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
میری ایک ڈاکٹر سے بات ہوئی تھی جس کا کہنا تھا کہ امریکا میں بلڈ کلاٹنگ کے سات کیسز سامنے آئے ہیں۔ وہ سب خواتین تھیں اور ایک جیسی مانع حمل ادویہ لے رہی تھیں۔ ماہرین اس بارے میں تحقیق کے بعد نئی ہدایات جاری کریں گے۔
امریکا کینیڈا یورپ میں چین اور روس کی دواؤں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ممالک اپنا ڈیٹا شئیر نہیں کرتے۔ اس کے باوجود یورپی ممالک، مثلاً جرمنی نے روس سے ویکسین خریدی ہے۔ وبا کے دوران ہنگامی حالات ہیں۔ جہاں سے لائف لائن یعنی جان بچانے کا راستہ ملے، اس پر بھروسا کرنا چاہیے۔
ویکسین بنانے اور اس کے اثرات اور فائدے جانچنے میں دس دس سال لگ جاتے ہیں۔ کوویڈ کی تمام ویکسینز آزمائشی ہیں۔ ماہرین یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کون سی ویکسین کتنے عرصے تک موثر رہے گی۔ لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے کے مقابلے میں ویکسین لگوانے والا زیادہ محفوظ ہے۔ وائرس لگ بھی گیا تو جان نہیں لے گا۔ آئی سی یو نہیں جانا پڑے گا۔
ویکسین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں چل رہی ہیں۔ اس کے ذریعے چپ ہمارے جسم میں ڈالی جارہی ہے۔ یا اس سے ڈی این اے کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ یا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کی جارہی ہے۔
یہ سب احمقانہ باتیں ہیں۔ لیکن اگر ایک فیصد بھی سچائی ہے، تب بھی ویکسین لگوا لینی چاہیے۔ ایک بار سانس سینے میں اٹک گیا تو مردانہ صلاحیت سے بحال نہیں ہوسکتا۔ جان بچے گی تو آپ بچے پیدا کریں گے۔ قبر سے آج تک کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر