مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیپ ایپنیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں سوتے ہوئے مریض کا سانس رک جاتا ہے۔
اکثر اوقات مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے اور کبھی نہیں بھی کھلتی۔
اسی بے ہوشی یا نیم بیداری میں مریض کے حلق سے ویسی آوازیں نکلتی ہیں جیسے ذبح ہوتے ہوئے بکرے کے حلق سے برآمد ہوتی ہیں۔
مبالغہ نہ سمجھیں۔ میں اس کیفیت کا شکار ہوتا رہتا ہوں۔ خود پر بیتی ہوئی بتارہا ہوں۔
سانس چند لمحوں میں بحال ہوجاتا ہے۔ طبیعت بہت دیر تک بحال نہیں ہوتی۔
سلیپ ایپنیا کے بیشتر مریضوں کا مسئلہ فزیکل آبسٹرکشن ہوتی ہے یعنی موٹی گردن یا نظام تنفیس کی راہ میں کوئی اور رکاوٹ۔
مجھ جیسے کم مریضوں کا معاملہ اینزائٹی ہوتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا تب ہوتا ہے جب میں پریشان ہوتا ہوں۔
سانس رکنے اور جسم میں آکسیجن کی کمی سے صرف پھیپھڑوں پر زور نہیں پڑتا۔ ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے۔ سانس ذرا زیادہ دیر رکا رہے تو دماغ متاثر ہوتا ہے۔ کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔
کوویڈ کا بھی اصل حملہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے اور اسپتال پہنچنے والے مریضوں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
بہت سے مریض ٹھیک ہوکر گھر آجاتے ہیں لیکن پھیپھڑوں، دل اور دماغ کو جو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے، وہ ٹھیک نہیں ہوتا۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق کوویڈ کے ڈھائی لاکھ مریضوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک تہائی مریض ذہنی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔
ہر تین میں سے ایک مریض۔
میرا تعلق طبی شعبے سے نہیں لیکن میں آئی سی یو میں کئی افراد کے آخری لمحات دیکھ چکا ہوں۔
کچھ لوگوں کی سانس کی ڈور اچانک ٹوٹ جاتی ہے اور کچھ لوگ بہت دیر تک کانٹوں پر گھسٹتے رہتے ہیں۔
ہر حکمراں کو اقتدار کے پہلے دن آئی سی یو کا دورہ کرانا چاہیے تاکہ وہ صحت کا نظام بہتر بنائے اور اس شعبے کا بجٹ بڑھائے۔
بے شک جو رات قبر میں لکھی ہے، وہ وہیں آئے گی۔ لیکن اس سے پہلے جو رات آئی سی یو میں لکھی ہے، خیال رہے کہ وہ بہت مشکل ہوگی۔ یقین نہ آئے تو قریبی اسپتال کا ایک چکر لگالیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر