مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فیصل فاران کا نفرت و بغض سے بھرپور جواب||حیدر جاوید سید

''فریب تمام'' کے مصنف نے 319 صفحات کے جواب دعویٰ میں جمعہ خان صوفی کو ایک نیچ، موقع پر ست' دروغ گو' سی آئی ڈی کا جاسوس ثابت کرنے میں کوئی کسرنہیں اُٹھا رکھی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیصل فاران کی تصنیف ”فریب تمام” میرے سامنے ہے، کتاب اصل میں جمعہ خان صوفی کی کتاب”فریب ناتمام” کا جواب دعویٰ ہے۔
”فریب تمام” کے مصنف نے 319 صفحات کے جواب دعویٰ میں جمعہ خان صوفی کو ایک نیچ، موقع پر ست’ دروغ گو’ سی آئی ڈی کا جاسوس ثابت کرنے میں کوئی کسرنہیں اُٹھا رکھی۔
صوفی کی کتاب”فریب ناتمام” کا جن لوگوں نے مطالعہ کیا ان میں سے اکثر کی رائے بھی مجھ طالب علم جیسی ہی بنی کہ انہوں نے اپنی ذاتی محرومیوں (اس میں سیاسی محرومیاں بھی شامل ہیں) کا بدلہ چکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
صوفی کو ہم اجمل خٹک مرحوم کا بھگت نہیں کہہ سکتے، البتہ وہ مرحوم اجمل خٹک کے اچھے درباری بہرطور رہے اور زندگی بھر ان کی منشی گیری بھی کی۔
صوفی کی کتاب کی اشاعت کے بعد ان کی زبان و بیان اور کچھ واقعات کے بے ربط ہونے پا پھر جو کہ کتاب کی اشاعت کے بنیادی مقاصد پر بہت لے دے ہوئی، اس کتاب پر تبصرہ لکھنے والوں میں یہ تحریرنویس بھی شامل تھا۔
مجھے یاد ہے کہ برطانیہ میں مقیم میرے پشتو قوم پرست دوست محفوظ جان نے صوفی کی کتاب پر لکھے گئے کالم کے جواب میں دوسری بہت ساری باتوں کیساتھ یہ بھی کہا تھا
”شاہ جی آپ کو اس فضول کتاب پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے تھا”۔ عرض کیا کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کے مندرجات کے درست یا غلط ہونے پر سوال اُٹھیں گے اور حوالے بھی دیئے جائیں گے۔
سو میری اب بھی یہی رائے ہے کہ کتاب کوئی بھی ہو مستقبل میں وہ حوالہ بہرطور بنتی ہے۔
مثال کے طور پر فیصل فاران نے اپنے جواب دعویٰ ”فریب تمام” میں صوفی کو کتاب کے سطری حوالہ جات کیساتھ جواب دعویٰ لکھا، البتہ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ فیصل فاران’ نفرت کے کوہ ہمالیہ پر کھڑے دکھائی دیئے۔
انہوں نے اپنی قیادت’ ان کے حصے کی سیاسی تاریخ’ قوم پرستی اور دیگر معاملات کا دفاع سطحی انداز میں کیا۔
وہ جب بھی صوفی کا ذکر کرتے دکھائی دیئے تو انتہائی حقارت کیساتھ ذکر کیا، بعض مقامات پر ایسے الفاظ بھی لکھ دیئے جو عام بول چال میں بولتے ہوئے بھی لوگ شرما جاتے ہیں۔
انہوں نے صوفی پر تاریخ سے نابلد ہونے اور بے پرکی اُڑانے کی پھبتی کسی، مگر خود انہیں بھی معلوم نہیں کہ جس شخص کو وہ جنرل جیلانی ایم این اے لکھ رہے ہیں وہ غلام جیلانی ہیں، ایم این اے کبھی نہیں رہے۔ صاحب دانش اور آزادیٔ اظہار کے علمبردار تھے (غلام جیلانی’ مرحومہ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے والد تھے)۔
اب ہم جواب دعویٰ کے طور پر لکھی گئی کتاب ”فریب تمام” کو دیکھ پڑھ لیں تو سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جواب دعویٰ تحریر کرنے والے نے بھی صوفی جیسی بچگانہ حرکتیں کر ڈالیں۔
یعنی وہی جو خاندانی برتری کے زعم کا شکار کوئی بھی شخص کرتا ہے کہ اولین کام یہ کرو کہ مخالفت کو ایک نیچ، گھٹیا، فاترالعقل، حریس اور ایسی کمزوریوں کا شکار ثابت کرو جس سے داد ہی داد موصول ہو۔
یقیناً فیصل فاران کوداد موصول ہوئی ہوگی، انہوں نے بڑا کام کیا۔ مجھ طالب علم کی رائے میں انہوں نے صرف دو کام کئے،
اولاً یہ کہ طبقاتی اور خاندانی تعصب کا ہر ہر سطر میں مظاہرہ کرتے ہوئے صوفی کو ایک پست ذہن اور آوارہ مزاج ثابت کیا،
ثانیاً یہ کہ انہوں نے صوفی کی کتاب میں مرحوم خان عبدالولی خان پر اُٹھائے گئے بعض سطحی الزامات کا دلیل سے جواب دینے کی بجائے اپنی توپوں کا رخ بھٹو صاحب کی طرف کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی تذلیل کیلئے انہوں نے ہر اس کتاب اور تحریر کا حوالہ بطور سند پیش کیا جن کے لکھنے والے دو طرح کے لوگ ہیں،
اولاً موقعہ اور حکومت کیساتھ وفاداریاں بدلنے والے،
ثانیاً وہ جن کی خاندانی سیاست کا تختہ پیپلز پارٹی نے اُلٹا اور پھر وہ اسی بھٹو کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے کیونکہ راج محلوں کے باہر کی زندگی انہیں بوجھ لگتی تھی۔
سادہ لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو فیصل فاران کا جواب دعویٰ فقط نفرت، نخوت اور بھٹو دشمنی سے عبارت ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
اصولی طور پر انہیں جمعہ خان صوفی کے ان الزامات کا دلیل اور شواہد کیساتھ جواب دینا چاہئے تھا جو انہوں نے اپنی کتاب میں رقم کئے لیکن وہ اس میں ناکام رہے، اس لئے کہ وہ خود ایک طرح کے بغض کا شکار دکھائی دئیے۔
جمعہ خان صوفی کے الزامات کو ان کی کتاب پڑھنے والوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن چونکہ کتاب شائع ہوئی تھی اس لئے مطالعہ کرنے والوں میں سے چند ایک نے تبصروں میں حوالہ جات ضرور نقل کئے اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں، اب خود فیصل فاران کی کتاب پر جو تبصرے ہوں گے یا ہوئے ہوں گے اس پر بھی بات کرنے والے بات کریں گے۔
”فریب تمام” ایک مناسب اور متوازن جواب دعویٰ ہوتا اگر صوفی کے بھونڈے الزامات کا جواب دلیل سے دیا جاتا مگر اس سے تو یہ تاثر اُبھرا جیسے کتاب کسی قوم پرست پشتون نے نہیں بلکہ بھٹو کی نفرت میں جلتے کڑھتے ضیاء الحقی نے لکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصل موضوع پیچھے رہ گیا اور صاحب کتاب دوسری سمت نکل گئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: