نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تقدس ایک ذہنی بیماری کا نام ہے||مبشرعلی زیدی

خدا ایک تصور ہے۔ اس کا ہونا یا نہ ہونا بھی مختلف تصورات ہیں۔ تصورات بدل سکتے ہیں اور بدل جاتے ہیں۔ کسی کا تصور خدا اسے مجرم نہیں بناتا۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقدس ایک ذہنی بیماری کا نام ہے۔
کچھ دوستوں کو یہ بات بری لگے گی، معذرت، لیکن اس کا سبب بھی اسی بیماری میں تھوڑا یا زیادہ مبتلا ہونا ہوگا۔
پاکستان کے بڑے مسئلے یعنی شدت پسندی کا سبب بھی یہی ہے۔
تقدس انسان کو سوچنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ سچ کا سامنا کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ حقیقت اور افسانے میں تمیز کے قابل نہیں چھوڑتا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ شخصیات کا احترام نہ کریں۔
تقدس اور احترام میں فرق ہوتا ہے۔
عقل کام میں لائی جاسکے تو چند باتیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
خدا ایک تصور ہے۔ اس کا ہونا یا نہ ہونا بھی مختلف تصورات ہیں۔ تصورات بدل سکتے ہیں اور بدل جاتے ہیں۔ کسی کا تصور خدا اسے مجرم نہیں بناتا۔
تمام انبیا، رسول، امام، اہلبیت، خلفا، صحابہ، ولی انسان تھے۔ گوشت پوست کے انسانوں کی اولاد تھے۔ کپڑے اور جوتے پہنتے تھے۔ کھانا کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے ہیں۔ شادی کرتے تھے اور جنسی اختلاط سے بچے پیدا کرتے تھے۔ ہنستے تھے، روتے تھے اور غصہ کرتے تھے۔ چوٹ لگتی تھی تو خون نکلتا تھا۔ بیمار ہوتے تھے اور دوا کھاتے تھے۔
یا تو کہیے کہ اسلام دین فطرت نہیں۔ ایسا ہے تو محیر العقول کہانیوں پر یقین کرلیں۔ لیکن اگر اسلام دین فطرت ہے تو معجزوں اور پیر کے اڑنے جیسی کہانیوں کو فراموش کردیں۔ کسی نبی یا امام یا ولی کا معجزہ مسترد کرنے سے اس کے ہادی ہونے یا اخلاقی معلم ہونے کی حیثیت پر فرق نہیں پڑتا۔ اگر فرق پڑتا ہے تو وہ جھوٹا نبی یا جعلی ولی ہے۔
دعا مانگنا اور عبادت کرنا اپنے سکون کے لیے ہے۔ اس سے دنیاوی مسائل کا حل ہونا یقینی نہیں۔ ان کے لیے تدبیر یا عملی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔
کسی مادی شے کو نقصان پہنچانے سے مذہب کو نقصان نہیں ہوتا۔ کوئی کاغذ جلانے یا اسٹیکر اکھاڑنے سے اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہوجاتا، نہ کوئی توہین ہوتی ہے۔
جن شخصیات کو مذہبی قرار دیا جاتا ہے، ان کے کسی عمل پر تنقید سے ان کی توہین نہیں ہوتی۔ سیاسی اقدامات پر تنقید قطعی جائز ہے۔ دوسرے فیصلوں کے بارے میں بھی رائے دی جاسکتی ہے۔
تاریخ تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ مسخ ضرور کی جاسکتی ہے اور کی جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے اپنی ہی آئندہ نسلیں گمراہ ہوتی ہیں۔
بہتر شعور کی خاطر تاریخی واقعات کو تسلیم اور شخصیات کے اقدامات کو ان کے درست تناظر میں جاننے کی بے تعصب کوشش کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author