اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اگر یہ سرد جنگ ہے تو…||رسول بخش رئیس

ایوب خان نے اس بات پہ زور دیا کہ ہمیں سیاسی نظام اپنے قومی حالات کے تناظر اور اپنی روایات کی روشنی میں ترتیب دینا ہو گا۔ اس دلیل کے جملہ حقوق ایوب خان یا ان کی پیروری کرنے والے تین دیگر آمروں کو نہیں دئیے جا سکتے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی کی سرد جنگوں میں عالمی سطح پر صف بندیاں ہوئیں‘ تو ہم نے شروع ہی میں نوآزاد مملکتوں کی طرف سے ابھرتی ہوئی غیر جانب دار تحریک کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ نظریات نہیں قومی معاملات قوموں کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ دنیا میں جاری حالات کے تناظر میں کسی بھی ملک کے مفادات کیا ہیں‘ ان کا تعین حکمران طبقات کرتے ہیں‘ جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہوتا ہے۔ بعد میں تاریخ ہی بتاتی ہے کہ ان کے فیصلے قوم اور عوام کے حق میں تھے یا ان کے پیشِ نظر محدود ذاتی‘ گروہی یا طبقاتی ترجیحات تھیں۔
پاکستان پہلی سرد جنگ میں امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کا اتحادی بن گیا۔ ایران اور ترکی بھی اشتراکیت کے خلاف پیدا کردہ حصار میں شامل تھے۔ ایران میں وزیر اعظم مصدق کی حکومت کا تختہ مغربی جاسوس ادارے الٹا چکے تھے‘ اور رضا شاہ پہلوی کو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا گیا تھا۔ ترکی میں فوجی حکومت تھی لیکن سامنے کٹھ پتلی جمہوری چہرہ تھا۔ پاکستان کی آزادی کے پہلے عشرے میں جمہوریت ہچکولے تو کھا رہی تھی مگر گاڑی کے چھکڑے پٹڑی سے اترے نہیں تھے۔
یاد رہے کہ جمہوریت تو تھی مگر اسمبلیاں تحلیل کرنے اور حکومتوں کو گھر بھیجنے کا اختیار گورنر جنرل حاصل کر چکا تھا۔ اس وقت کی عدالت کا فیصلہ تھا جس نے جمہوریت کی نہ صرف بنیادیں ہلا دیں‘ بلکہ آنے والے وقتوں کے لیے تعمیر کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اس چھینا جھپٹی میں فوج کا سہارا اعلیٰ نوکر شاہی کے لیے ضروری تھا۔ سپہ سالار جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنا دیا گیا تھا۔ بھارت سے خطرات کے پیشِ نظر اور دفاعی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے ہم نے اشتراکیت مخالف مغربی محاذ کا حصہ بننے کو غیر جانبداریت پر فوقیت دی۔ بہرحال سرکاری بیانیہ تب بھی یہی تھا‘ اور اب بھی یہی ہے۔
ایسے فیصلوں کے اثرات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی جو سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ امریکی اور مغربی عسکری امداد ملی تو نیا سازوسامان بھی ملا‘ تربیت بہتر ہوئی اور بین الاقوامی رسائی بڑھی تو ہمارے نمائندے مغرب کے شانہ بشانہ چلے۔ اقتصادی امداد بھی ہماری جھولی میں پڑی‘ حالات بہتر ہوئے۔ امریکہ سے کھانے کے لیے گندم آتی‘ ہم اتحادی ہونے کے فخر میں ذات میں سماتے نہیں تھے۔ چند ہی سالوں میں جمہوریت کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ دلیل یہ تھی کہ یہ پودا مغرب کی پیداوار ہے‘ یہاں کی تہذیبی اور ثقافتی آب و ہوا اس کے لیے سازگار نہیں ۔
ایوب خان نے اس بات پہ زور دیا کہ ہمیں سیاسی نظام اپنے قومی حالات کے تناظر اور اپنی روایات کی روشنی میں ترتیب دینا ہو گا۔ اس دلیل کے جملہ حقوق ایوب خان یا ان کی پیروری کرنے والے تین دیگر آمروں کو نہیں دئیے جا سکتے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کسی قسم کی آمریت قائم ہوئی‘ کل یا آج‘ اسی قسم کے قومی استثنا کا سہارا لیا گیا‘ یعنی ہم بالکل مختلف ہیں۔
ہماری تاریخ میں زیادہ تر بحث اس نکتے پر رہی ہے کہ جمہوریت کا جنازہ امریکہ کے ساتھ معاہدوں سے پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال نے نکالا۔ اداروں کے درمیان طاقت کا توازن‘ جو پہلے ہی ڈانواں ڈول تھا‘ یکسر بگڑ گیا۔ بعض زیادہ طاقت ور ہو گئے اور ریاست کے تشخص اور شناخت کی تشکیل میں بھی اس کی نظریاتی ترجیحات کے اثرات نمایاں ہو گئے۔
ان کے دفاع اور جمہوری حکمرانوں کے خلاف عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ نااہل تھے‘ منقسم‘ ایک دوسرے کے خلاف سیاسی جنگوں میں توانائیاں برباد کرتے رہے۔ اب چونکہ کرپشن معاشرے میں اتنی عام اور گہرائی تک پیوست ہو چکی ہے کہ مجھے یہ کہتے ہوئے اپنی جانب داری کا احساس ہوتا ہے کہ صرف سیاست باز کرپٹ ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کی صفوں میں‘ اور وہ جو سیاسی پارٹیاں اپنی ذاتی لمیٹڈ کمپنیوں کی صورت میں چلاتے رہے‘ کرپشن میں ملوث نہیں۔
جو دستاویزی ثبوت ان کے خلاف سامنے آئے ہیں‘ اور آتے رہتے ہیں‘ ان کے بارے میں دوسری رائے قائم کرنا میرا ذہن تو نہیں مانتا‘ لیکن وہ اکیلے نہیں‘ قومی زندگی کا صرف ایک شعبہ نہیں‘ قانون اور احتساب کمزور ہوں اور جتھے بازی زور پکڑے تو لوٹ مار میں سب شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک کرپشن کے جمہوریت کو تباہ کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کا حل جمہوریت میں موجود ہے۔ معافی چاہتا ہوں‘ بات ذرا دوسری سمت نکل گئی۔
سب غیر جمہوری ادوار میں دیکھا کہ سیاسی وفاداریاں ریاستی وسائل سے خرید ہونے لگیں۔ پہلی اور دوسری آمرانہ حکومتوں میں تو بازار تھا‘ مگر تیسری اور چوتھی میں تو سیاسی رشوت کے وہ جمعہ بازار لگے کہ نہ جانے کتنے ارب پتی سیاسی خاندان پیدا ہوئے۔ تو میں کرپشن کو نہ صرف قومی بلکہ تیسری دنیا کا گھنائونا ترین معاملہ خیال کرتا ہوں‘ مگر اس کا دیرپا اور موثر حل جمہوریت کی بیخ کنی میں نہیں‘ جمہوریت کو اس کے اصل روپ میں ڈھالنا ہے۔
اس کا مطلب قانون کی حکمرانی‘ احتساب اور سیاسی اصلاحات ہیں۔ سرد جنگوں میں ہماری شمولیت کے کئی منفی اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ وفاقیت کمزور ہوئی‘ مشرقی پاکستان کا احساسِ محرومی اس قدر بڑھا کہ بنگالی قومیت غالب جذبہ بن کر ابھرا۔ باقی کسر اکثریت کو اقتدار منتقل نہ کرنے نے پوری کر دی۔ اگر ہماری کمزور جمہوریت چلتی رہتی تو مشرقی پاکستان کا المیہ اور سقوط ہم نہ دیکھتے۔
دوسری سرد جنگ میں شمولیت افغانستان کے حالات کے پیش نظر اور سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے اثرات کے تحت تھی۔ کسی کے خیال میں بھی نہ تھا کہ ماسکو کی پسپائی کے بعد جنگی جتھے کن کن میدانوں اور ملکوں کا رخ کریں گے۔ ہمارے مغربی اتحادیوں نے تو خطرے کو بھانپتے ہوئے علاقے سے دوڑ لگا دی‘ اور ہمیں کہہ دیا کہ آپ جانیں اور آپ کے مجاہدین‘ ہمارا مقصد سوویت یونین کو ہزیمت سے دوچار کرنا تھا‘ وہ ہو چکی‘ بلکہ اس سے بڑھ کر یونین ٹوٹ ہی گئی ہے۔ چوالیس سالوں سے جاری یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اب بھی امریکہ نے یکطرفہ فیصلہ کر لیا ہے‘ افغانستان کو اور باقی سب دنیا کو صدر جو بائیڈن نے بتا دیا ہے کہ‘ ہم جا رہے ہیں‘ آپ سب کا خدا حافظ۔ موجودہ صورتحال میں کئی تضادات نظر آ رہے ہیں۔ ا مریکہ جا بھی رہا ہے‘ لیکن اس کی بیس سالہ ‘طویل ترین جنگ‘ کے محرکات ایسے ہیں کہ افغانستان کو ایک نئی خانہ جنگی سے بچانے کے لیے اسے طالبان اور افغانستان کی حکومت کے مابین امن معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بھی اور تمام علاقائی ممالک کا بھی اسی میں مفاد ہے۔
بات تو سرد جنگ سے شروع ہوئی تھی۔ ایک اور خوفناک سرد جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے امریکی دوست چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت سے پریشان ہیں۔ اس کے آگے بڑھنے کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ صرف باتیں ہی ہوں‘ بہت کچھ پسِ پردہ رہتا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان پر دبائو بڑھے گا۔ نرم لہجوں میں سفارت کاری کی زبان کا مقصد یہ ہو گا کہ آپ چین کے ساتھ ہیں یا ہمارے ساتھ؟
ہماری خارجہ پالیسی کیلئے اس وقت دو بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا: ہم نے چین اور امریکہ کی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا۔ ہماری ترقی اور سلامتی کیلئے دونوں کے ساتھ تعلقات ناگزیر ہیں۔ نہ ہم امریکہ کو چھوڑ سکتے ہیں‘ نہ ہی چین کو۔ توازن‘ ہم آہنگی اور قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ دوسرا: افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ وہاں نگاہ رکھنے اور مغرب کے خلاف برسرِ پیکار دہشت گرد گروہوں پر ممکنہ حملے کرنے کی صلاحیت کی غرض سے پاکستان سے خفیہ ٹھکانے یا اڈے طلب کر سکتا ہے۔
ایسی دوستیاں اب ماضی میں دفن کرنی چاہئیں۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہو گا۔ سرد جنگوں کو اب سرد خانے میں رکھ کر نئی دنیائیں بسائیں‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ علم اور سائنسی و سماجی ترقی اور باہمی تعاون کی روشن فضائوں میں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: