مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جناب وزیراعظم اور میرے وسیب کا مقدمہ||سارہ شمشاد

ملتان کا آم ہو یا سوہن حلوہ۔ پوری دنیا میں میں مشہور ہیں اگر اس خطے پر تھوڑی سی بھی توجہ دی جائے تو صرف ملتان سے ہی اچھا خاصا سرمایہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کا اپنا منصب سنبھالنے کے بعد میرے پیارے شہر ملتان کا یہ پہلا دورہ ہے جو ان کی اس خطے سے وابستگی کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے کہ جب ان کو اقتدار میں آئے تقریباً تین سال ہونے کو ہیں تو انہیں ملتان شہراب یاد آیا۔ خیر میں وزیراعظم سے کوئی گلہ نہیں کرنا چاہتی اس امید پر کہ آج اس خطے کی تکالیف، محرومیوں اور پسماندگی کے خاتمے کو دور کرنے کے لئے ہرممکن کوشش ضرور کریں گے۔
مجھے اپنے وزیراعظم کی حب الوطنی اور انسان دوستی پر ذرہ برابر بھی شک نہیں۔ جب میرا وزیراعظم صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کی بار بار بات کرتا ہے تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتاہے کہ قائداعظم کے اس پاکستان میں کوئی تو ایسا رہنما ہے جسے عوامی مسائل کا ادراک ہے اور جو اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایجوکیٹ کرنا پڑے گا اور ان کی صحت کو یقینی بنانا ہوگا لیکن جیسے ہی میں اپنے خطے کی غربت، بیروزگاری، مسائل کے جنجال پورے، ناانصافی اور محرومیوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو خوفزدہ ہوجاتی ہوں کہ اس خطے کی تکالیف وزیراعظم کے ایک دورے سے دور نہیں ہونگی بلکہ انہیں یہاں بار بار آکر اس خطے کے طویل عرصہ سے محرومیوں کے شکار باسیوں کی حق تلفی کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ کیا میری اپنے وزیراعظم سے توقعات بے جا ہیں۔ کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں کہ پڑھا لکھا نوجوان بیروزگار طبقہ اپنے وزیراعظم سے اپنا حق طلب کرسکے، کیا وزیراعظم ان پڑھے لکھے طبقے کی تذلیل اور توہین روز روز ہونے بارے سننے کا حوصلہ کرپائیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔
آج وزیراعظم عمران خان جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا باقاعدہ افتتاح کریں گے جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ میرے وسیب کے مسائل میں کسی قدر کچھ کمی ضرور آئے گی۔ تاہم میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی توجہ چند اہم مسائل کی جانب دلوانے سے قبل انہیں یہ یاد دلوانا چاہتی ہوں کہ وہ اس خطے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ اس خطے نے انہیں ووٹ دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ شاید ہی کوئی دوسرا خطہ ایسا ہو جہاں تحریک انصاف کو 2018ء کے عام انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں کامیابی حاصل ہوئی ہو۔ اب جبکہ اڑھائی برس سے بھی زائد کے بعد جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے تو ضروری ہے کہ اس کو مکمل طور پر خودمختار اور بااختیار بنایا جائے کیونکہ اگر داخلہ اور خزانہ جیسے اہم محکمے اپر پنجاب نے اپنے پاس رکھ لئے تو میرا وسیب پھر بھی ’’اساں قیدی تخت لہور دے‘‘ ہی رہے گا۔ اسی طرح بیوروکریسی کو لگام ڈالنا بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام میں اصل رکاوٹ بیوروکریسی ہے جو کسی طور نہیں چاہتی کہ ان کے اختیارات تقسیم ہوں۔ اسی لئے تو بے جا رکاوٹیں کھڑی کرکے مسائل زدہ جنوبی پنجاب کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھایا جارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گی کہ تعلیم اور صحت کے دونوں شعبوں میں ہی میرا وسیب بہت پیچھے ہے لیکن زراعت، کلچر، ٹورازم، آرٹ میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں ٹورازم کے فروے کی بات کرتے ہیں تو میرے پیارے وزیراعظم جنوبی پنجاب میں فورٹ منرو کی شکل میں ایک بنا بنایا مری موجود ہے اسی طرح نہ صرف ملتان بلکہ دوسرے شہروں میں بھی جابجا تاریخی عمارات موجود ہیں جو تاریخ کے طالب علموں اور سیاحوں کی توجہ کی طلب گار ہیں۔ اسی طرح ملتان میں ہندوئوں کے بھگوان پرہلاد کا مندر بھی موجود ہے جسے اس کی سابقہ حیثیت میں بحال کرکے بڑی تعداد میں سیاحوں کی توجہ مبذول کروائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح کاشی گری، ملتان کی کڑھائی سے فائدہ اٹھاکر غیرملکی مارکیٹس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اندرون شہر جو اپنی قدیم ترین عمارتوں کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے، اگر وہاں سے بازار کو کسی دوسرے علاقے میں منتقل کرکے اسے آثار قدیمہ ڈیکلیئر کردیا جائے تو اس کی قدیم ترین انداز میں بنی ہوئی عمارتیں سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے۔ ملتان کا آم ہو یا سوہن حلوہ۔ پوری دنیا میں میں مشہور ہیں اگر اس خطے پر تھوڑی سی بھی توجہ دی جائے تو صرف ملتان سے ہی اچھا خاصا سرمایہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اب اگر یہاں صحت کی سہولیات کے فقدان کی بات کی جائے تو نصف صدی قبل قائم ہونے والا اکلوتا نشتر ہسپتال ہی جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے مریضوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں یہاں اگر 3، 4 بڑے سرکاری ہسپتال قائم کردیئے جائیں تو نشتر ہسپتال کا بوجھ کافی کم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر گھریلو صنعتوں کے قیام کی طرف توجہ دی جائے تو ملتان میں ایک ایسا صنعتی سنٹر تشکیل دیا جاسکتا ہے جہاں بڑی تعداد میں کم پڑھے لکھے لوگوں کو بلامعاوضہ ہنر سکھاکر انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس ضمن میں آگے بی زیڈ یو ، اسلامیہ اور غازی یونیورسٹی کے زیراہتمام ایک ایک سنٹر قائم کردیا جائے  جہاں سلائی کڑھائی، کاشی گری، بلیو پاٹری کے ماہر کاریگروں کی زیرنگرانی کام کرکے حکومت امپورٹ اور ایکسپورٹ کے شعبے میں اضافہ کرسکتی ہے۔
حکومت اپنے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کے اپنے وعدے کی تکمیل کرے تو بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کھپت ممکن ہے۔ اسی طرح حکومت کو اپنی زیرنگرانی انٹرن شپ کے فروغ کے لئے بھی آگے آنا چاہیے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر وزیراعظم آج ہی یہ اعلانات کرجائیں تو اس کے لئے کوئی خاص سرمایہ بھی درکار نہیں ہوگالیکن میرے خطے کا نیا سفر شروع ہوگا۔
اب جبکہ مالی سال کے اختتام میں فقط چند ماہ ہی رہ گئے ہیں تو ضروری ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے تمام فنڈز صحیح طور پر استعمال کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی حکومت صوبے کے قیام کے راستے میں حائل قانونی اور آئینی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے بھی شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں ایک کمیٹی فی الفور قائم کی جائے تاکہ حکومت علیحدہ صوبے کے قیام کو عملی جامہ پہناسکیں۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام علیحدہ صوبے کے حصول کے لئے پہلی سیڑھی ہے اس لئے حکومت کو علیحدہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کیلئے سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ اس خطے کے لوگوں کو ان کا جائز مقام مل سکے۔
چلتے چلتے میں وزیراعظم سے گزارش کروں گی کہ وہ اس خطے کے مسائل سیاستدانوں سے پوچھنے کی بجائے اس خطے کے دانشوروں سے پوچھا کریں جو صحیح معنوں میں کسی بھی قسم کے مفاد سے بالاتر ہوکر انہیں نہ صرف مسائل بتائیں بلکہ حل بھی بڑے آسان الفاظ میں پیش کرکے اس خطے کو کمائو پوت بنانے کا فارمولہ بھی دیں گے۔ امید ہے کہ آج میرے وزیراعظم وسیب کی مشکلات کے خاتمے کے لئے عملی طور پر پہلی اینٹ رکھ کر آگے کے لائحہ عمل کی بھی ڈیڈلائن دے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: