اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان میں مداخلتی جنگ ناگزیر نہ تھی!||رسول بخش رئیس

امریکہ افغانستان سے اپنی اور اپنے حلیفوں کی فوجوں کا انخلا جنگ کے بیس سال مکمل ہونے پر پورے کر لے گا۔ یہ تاریخ گیارہ ستمبر پر پڑتی ہے۔ صدر جوزف بائیڈن کی طرف سے تقریر میں یہ اعلان یکطرفہ ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ افغانستان سے اپنی اور اپنے حلیفوں کی فوجوں کا انخلا جنگ کے بیس سال مکمل ہونے پر پورے کر لے گا۔ یہ تاریخ گیارہ ستمبر پر پڑتی ہے۔ صدر جوزف بائیڈن کی طرف سے تقریر میں یہ اعلان یکطرفہ ہے۔ طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے مطابق تو فوجوں کی واپسی یکم مئی تک طے پا چکی تھی‘ لیکن فوجی تنصیبات کو اکھاڑنے اور جنگی سازوسامان کو ٹھکانے لگانے یا واپس امریکہ روانہ کرنے کے لیے وقت درکار ہونے کے سبب چند ماہ مزید مہلت کی ضرورت ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی طرف سے کیا ردِ عمل آتا ہے۔ درپردہ طالبان سے مذاکرات تو امریکی نمائندے کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس تاخیر کے اسباب ان کے سامنے ضرور رکھے گئے ہوں گے۔ اعلامیوں میں بھی یہی بات تواتر سے آ رہی تھی کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ طالبان نے اپنی طرف سے معاہدے کی شرائط پر عمل کیا‘ اگرچہ انہیں شکایات ہیں کہ امریکہ کی طرف سے کئے گئے سب وعدے پورے نہیں ہوئے۔ ان کے ہزاروں جنگجو ابھی تک قید میں ہیں‘ انہیں رہا نہیں کیا گیا‘ اور ہوائی بمباری کے بے شمار ایسے واقعات معاہدے کے بعد بھی سامنے آئے‘ جن پر امریکی ہوا بازوں کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر شہری آبادی متاثر ہوئی ہے۔ جنگیں تو اذیت ناک ہوتی ہیں‘ کہیں بھی ہوں اور کوئی بھی ان کی ابتدا کرے۔ عام لوگوں کی زندگیوں اور املاک کا نقصان ہوتا ہے۔ جدید جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت ایسی ہے کہ فوج‘ مزاحمت کاروں اور عام شہری میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ظاہراً لڑائیوں کا ہدف تو مسلح مزاحمت کار ہوتے ہیں‘ مگر چونکہ وہ انسانی آبادیوں میں بھی پناہ لیتے ہیں‘ تو ان کے تعاقب میں زمینی اور فضائی حملے شہروں‘ دیہاتوں اور بازاروں میں عام ہو چکے ہیں۔ شام‘ یمن‘ لیبیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ جہاں خانہ جنگی کی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
افغانستان تو تینتالیس برسوں سے خانہ جنگی کی زد میں رہنے کے علاوہ دو عالمی طاقتوں کی فوجی مداخلت کا شکار بھی رہا۔ سوویت یونین نے وہاں اشتراکی نظام اور افغان اشتراکی اتحادیوں کو محفوظ کرنے کیلئے آٹھ سال تک خون کی ہولی کھیلی۔ ہماری اور امریکہ کی تب کی حکمت عملی یہ تھی کہ اشتراکیت نے قدم جما لئے تو روس کا گرم پانیوں تک بزورِ طاقت رسائی کا دیرینہ خواب پورا ہو سکتا ہے لہٰذا ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کے دھڑوں کی کھل کر حمایت کی۔ ہمارا تزویراتی مقصد بالکل واضح تھاکہ سوویت یونین کی فوجی مداخلت کو اگر افغانستان میں فتح اور جواز مل گیا‘ تو پاکستان اس کا اگلا ہدف ہو سکتا ہے۔ ایک عالمی طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہنا کوئی آسان کام نہ تھا‘ مگر متبادل راستہ یعنی ماسکو کی ”خوشنودی‘‘ مستقبل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا۔ جب جنگ کی کیفیت ہو‘ دو بڑی طاقتیں بھی آمنے سامنے ہوں‘ اور صرف امریکہ کی نہیں‘ سب مغربی ممالک اور مسلم ریاستوں کی حمایت بھی میسر ہو تو ثابت قدم رہنا مشکل نہ تھا‘ لیکن اس سے کہیں زیادہ افغان عوام اور مجاہدین کی بے مثال مزاحمت تھی۔ ایک دو سال کے اندر ہی ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ اگر مزاحمت جاری رہی تو سوویت فوجوں کا غرور خاک میں مل سکتا ہے۔ اس وقت ماسکو کے حمایتی‘ یہاں ہوں یا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں‘ یہ سبق پڑھا رہے تھے کہ سوویت یونین کی فوجوں نے جہاں بھی قدم رکھے ہیں‘ وہاں سے نکلے نہیں۔ مشرقی یورپ کی مثال دی جاتی تھی۔ قصیدہ خواں نہیں‘ اگر سوویت یونین کے فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ماہرین مرکزی ایشیا خصوصاً چیچنیا کی مزاحمت کاروں کی تاریخ کا مطالعہ کر لیتے تو ایسی غلطی کبھی نہ کرتے۔ لاکھوں افغان مہاجرین خوشی سے نہیں آئے تھے۔ منصوبہ یہ تھاکہ پشتون علاقوں کی آبادی کو باہر نکالا جائے‘ مزاحمت بھی وہیں سے ہوئی اور ماسکو کی جنگ کا ہدف بھی پشتون ہی رہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔
نو گیارہ کے حملے کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کی ٹھان لی تو ہماری درخواستیں اور مشورے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ دہشتگردوں نے جو زخم لگایا تھا‘ اس وقت کی سیاسی اور قومی نفسیاتی فضا کے تناظر میں افغانستان کے خون خرابے سے ہی اسے دھویا جا سکتا تھا۔ ہر طرف ایک جیسی فون کالیں جا رہی تھیں کہ آپ ”ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں‘‘۔ اگر نہیں تو مطلب یہ تھا کہ آپ ہمارے دشمن یعنی طالبان کے ساتھ ہیں۔ کئی مرتبہ مؤدبانہ گزارش کی کہ اگر تحمل اور صبر سے کام لیں تو ہم مل کر طالبان قیادت کو قائل کر لیں گے کہ وہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو ہمارے حوالے کر دیں۔ نہ اُدھر صبر تھا‘ نہ طالبان کے امیر ملا عمر ہی مانے۔ صرف ہم نہیں‘ سعودی عرب‘ جو دوسری ریاست تھی‘ جس نے طالبان کو تسلیم کر رکھا تھا‘ نے بھی امیر صاحب کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ افغان روایات کا جھنڈا لہرائے مہمانوں کے دفاع کیلئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھے۔ تاریخ کا عجیب سانحہ ہے کہ افغانستان کی قسمت کا فیصلہ فردِ واحد کے ہاتھ میں تھا۔ اس سے قبل بھی یہی حال تھا۔ شخصی حکومتیں ہوں‘ تو فیصلوں کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 20سال تک افغانستان کے خلاف جنگ کی ہے۔ بیانیے کچھ ہوتے ہیں اور زمینی حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں۔ کہنے اور سننے میں تو یہی آتا ہے کہ امریکہ نے طالبان کی حکومت گرانے کیلئے مداخلت کی تاکہ اس کے بعد ”نئی قوم‘‘ اور ”نئی ریاست‘‘ کو جمہوری‘ انسانی اور جدید اصولوں کے مطابق تعمیر کیا جائے۔ یہی تو ہمارا رونا تھا کہ مجاہدین مزاحمت میں تو کامیاب رہے‘ مگر سیاسی تعمیر نو کے جو معاہدے ہوئے‘ ایک یا ایک سے زیادہ فریقوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انحراف کر لیا۔ نتیجہ یہ کہ افغان ریاست‘ جس کے دفاع کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانی وہ دے چکے تھے‘ خانہ جنگی میں تباہ کر ڈالی گئی۔ افغان طالبان اس جنگ کی خاک سے ابھرے تھے۔ لوگ امن‘ انصاف اور سلامتی کے محتاج تھے۔ کوئی معاشرہ ان کے بغیر اپنا توازن تو کیا‘ عام معمولات بھی جاری نہیں رکھ سکتا۔
امریکہ نے جنگ شروع کی تو طالبان نے اپنے لشکروں کو منتشر ہو جانے کا کہا۔ شمالی علاقوں میں مزاحمت کی اور جہاں حکم ملا سامنے آ کر بھی لڑے۔ زمینی جنگ میں ان کے قومی حریف‘ شمالی اتحاد کے شکست خوردہ دستوں کو جدید اسلحہ و حربی ٹیکنالوجی سے لیس فوج کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے طالبان سے جو بدلے لئے‘ ان کو ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔ یہ سب کچھ انسانی حقوق کی علمبردار طاقتوں اور ان کی امداد یافتہ عالمی تنظیموں کی نظروں سے اوجھل نہ تھا۔ تشدد اور نفرت کا بیج بویا جائے تو اگنے والی کھیتی اور قسم کی کیسے ہو سکتی ہے۔ آج وہی تو امریکہ کی واپسی پر آنسو بہا رہے ہیں۔
بڑی طاقتیں مخلصانہ اور دوستانہ مشورہ بھی سننے کو تیار نہیں ہوتیں۔ سوویت یونین کو جو کہا تھا‘ وہی درخواست امریکی دوستوں سے بھی کی کہ طالبان سے مذکرات کرو‘ جو نظام ترتیب دے رہے ہو‘ اس میں ان کو شامل کرو۔ جواب ملتا: دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ حالات ایسے ہی پلٹا نہیں کھاتے‘ قربانیاں دیں‘ لاکھوں مارے گئے‘ مزاحمت جاری رہی تو پھر درخواستیں واشنگٹن سے آنے لگیں کہ کچھ کریں‘ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں‘ ہم جنگ ختم کرنے کو تیار ہیں۔ کاش یہ جنگ نہ ہوتی۔ اس کا ملبہ تو ہم تب دیکھ سکیں گے جب بیرونی فوجوں کا انخلا مکمل ہو گا۔ سوائے ایٹم بم کے کوئی جدید ہتھیار ایسا نہیں‘ جو امریکہ کی فوجوں نے افغانستان میں استعمال نہ کیا ہو۔ لاکھوں مارے گئے‘ لاکھوں بے گھر ہوئے۔ معاشرے کا توازن بگڑ جائے‘ جنگ کی آگ سلگ رہی ہو تو شعلوں کے بھڑکنے کا اندیشہ دلوں سے جاتا نہیں۔ خدا کرے کہ افغانستان کو امن نصیب ہو۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: