اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست اور سیاست || عادل علی

ہم آپس میں ایک ہیں ایک ہی ملک کے باشندے اور ایک ہی معاشرے کا حصہ ہیں ہم کو ہم ہی سے لڑوا کے ہم پہ راج کیا جائیگا یہ آخر کب تک چلیگا؟

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے اور چونکہ جاسوسی ادب سے لگاو بھی اتنا ہے اور مطالعہ بھی کہ اب لفافہ دیکھ کہ مضمون واقعی بھانپ لینے لائق ہوں۔

یہاں لفافے سے مراد خط والا لفافہ ہی لی جائے باقی لفافوں کا تذکرہ بھی کر لیتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں کی سیاست کی آڑ میں جو پریشر پوائنٹس قائم کرنے کی روایت تخلیق کی گئی فی زمانہ اس کا قلعہ قمع ایسے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ بات یہاں یہ نہیں ہے کہ مذہبی جماعتیں سیاست نہیں کرسکتی یا ممبر اور مسجد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

ریاستیں سیاست اور سیاسی امور سے ہی چلائی جاتی ہیں اور یہ کام انبیا نے بھی کیا اور یہ ہی امر خلفاٗ سے بھی ثابت ہے۔

بات تو یہاں چند مظموم مقاصد کے حصول کے لیے عوام کے جذبات اور ان کی جانوں سے کھیلنے کی ہے۔

جب آپ ایک منتخب حکومت کے خلاف کئی دنوں تک دیے جانے والے دھرنے میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائینگے اور یہاں تک کہ آپ انہیں اپنا بچا کہینگے انہیں واپسی کا کرایہ (لفافہ) بھی پیش کرینگے تو پھر یہ صورتحال تو بلکل بھی نئی نہیں ہے۔

بدلا تو کچھ بھی نہیں ہے ہاں بس کچھ بدلا ہے تو وہ یہ کے اس وقت جو لوگ مخالف جماعتوں میں تھے جو اس وقت کی حکومت کے خلاف تھے جن کے الیکشن کے تشہیری بورڈز محافظان ختم نبوت کے نعروں سے پر تھے جنہوں نے ووٹ کی بھیک عوام سے ان کے عشق محمدی ﷺ کی بنا پہ مانگی وہ آج حکومت کا حصہ ہیں..

چونکہ انہیں فی الوقت کوئی دقت پیش نہیں ہے اس لیے بھرپور ایکشن بھی عمل میں لایا گیا اور آناؑؑ فاناؑؑ کاروائیاں بھی ہوگئیں۔

کیا عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ یہ دہرا معیار کیوں؟

اور یہ ٹشو پیپر کا استعمال آخر کب تک؟

عوام الناس کے ہاتھوں ہی عوام الناس کے املاک کا جانی و مالی نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

چاہے ریاستی و حکومتی اداروں کے لوگ ہوں یا مظاہرین ہوں یا عام عوام ہیں تو یہ سب کے سب ہی اس ریاست پاکستان کے بچے!

نقصان تو ہر طرف سے ہی اس ملک کا ہوا چاہے وہ اندرونی طور پہ ہو یا بیرونی طور پہ۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ عوام کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہی کیوں جاتا ہے جس نے منزل تک جانا ہی نہیں ہوتا؟

جن کو زخم آئے وہ بھی ہمارے اپنے اور جنہوں نے زخم دیے وہ بھی ہمارے اپنے۔

ہم آپس میں ایک ہیں ایک ہی ملک کے باشندے اور ایک ہی معاشرے کا حصہ ہیں ہم کو ہم ہی سے لڑوا کے ہم پہ راج کیا جائیگا یہ آخر کب تک چلیگا؟

تھوڑا نہیں پورا سوچیے۔۔

یہ بھی پڑھیے

%d bloggers like this: