مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین عدد ’’نقد‘‘ دھرنے||حیدر جاوید سید

میرے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے سال بھر قبل پنجاب کی جامعات میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے طلبا کی نشستوں کو 2027تک بحال رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور میں گورنر ہاوس کے سامنے پچھلے 27 دنوں سے فاٹا (سابق قبائلی علاقے) سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلبا دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔
دھرنے میں شریک طلباء نے 25ویں دن دھرنے کو تادم مرگ بھوک ہڑتال میں تبدیل کردیا ہے۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلباء کی یونین کے صدر جاسم آفریدی نے گزشتہ روز ایک دوست کے توسط سے رابطہ کیا اور تفصیل کے ساتھ اپنے مسائل اور مطالبات سے آگاہ کیا۔
’’ ان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں (فاٹا) کو خیبر پختونخوا میں ضم کرتے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں فاٹا کے طلباء کے لئے مختص کوٹہ برقرار رہے گا جبکہ وعدہ خلافی کرتے ہوئے نہ صرف کوٹہ ختم کردیا گیا بلکہ طلباء پر 50 فیصد فیس بھی لاگو کردی گئی۔
مخصوص نشستوں پر چونکہ تعلیم فری ہوتی ہے اس سے فاٹا کے سفید پوش خاندانوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔
کورونا کے پہلے دو مراحل کی طرح تیسری لہر میں بھی طلباء کو ہاسٹلز سے نکال دیا گیا جبکہ تحریری طور پر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو بتایا گیا تھا کہ فاٹا کے دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں طلباء آن لائن کلاسز میں شرکت نہیں کرسکتے اس لئے انہیں ہاسٹلز میں رہنے کی اجازت دی جائے۔
جاسم آفریدی کہتے ہیں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے بھی تعلیمی سال کے پہلے سمسٹر میں فاٹا کے طلباء کو یونیورسٹی فیس ادا نہ کرنے پر نکال دیا‘‘۔
اس سے ملتی جلتی شکایات دیگر جامعات کے حوالے سے بھی ہیں۔
میرے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے سال بھر قبل پنجاب کی جامعات میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے طلبا کی نشستوں کو 2027تک بحال رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
گورنر ،پنجاب کی جامعات کے چانسلر ہیں۔ جامعات کی انتظامیہ اپنے سربراہ کے حکم کے خلاف اقدامات کیوں اٹھارہی ہے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ یہ متاثرہ طلبا گزشتہ 27 دنوں سے گورنر ہائوس پنجاب کے باہر دھرنا دیئے ہوئے ہیں اور جناب گورنر ایک ماتحت افسر کے ذریعے ان کے مطالبات سے آگاہی یا اپنے احکامات کی پامالی سے آگاہ نہیں ہوسکے۔
دھرنے میں بیٹھے طلباء پچھلے 3دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرچکے لیکن اب تک ان کی بات سننے یاد دادرسی کرنے کے لئے کسی نے زحمت نہیں کی۔ اپنے گھروں سے سینکڑوں کلومیٹر دور اجنبی شہروں میں خود سے ہونے والے برتاو پر فاٹا کے طلباء کا دکھ فطری امر ہے۔
مناسب ہوگا کہ پنجاب کے گورنر اور وزیر تعلیم طلباء کے اس مسئلہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کروائیں۔
کوئٹہ میں پچھلے ڈیڑھ ہفتہ سے سرکاری ملازمین کا دھرنا جاری ہے۔ صوبہ بھر سے آئے سرکاری ملازمین کے اس دھرنے کو بنیاد بناکر گزشتہ روز صوبائی حکومت کے ترجمان لایعنی گفتگو کرتے اور دھرنے کو پی ڈی ایم کا کھیل قرار دیتے رہے۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ان ملازمین سے اب تک کتنی بار بات چیت کی ان کے مطالبات سنے اور درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ سوائے طعنے مارنے، الزام لگانے اور دھمکیاں دینے کے صوبائی حکومت کے ذمہ داروں نے کچھ نہیں کیا۔
دھرنے میں شریک سرکاری ملازمین کا موقف ہے کہ
’’حکومت کے بڑے عام زندگی کے قبائلی نظام کے بڑے ہیں اس لئے سفید پوش ملازمین ان کے نزدیک کیڑے مکوڑے ہیں‘‘۔
یہ موقف جذباتی ردعمل بھی ہوسکتا ہے لیکن کسی پس منظر کے بغیر ردِعمل بہرطور نہیں آتا یقیناً کوئی بات ایسی ہوئی ہوگی جس سے ہڑتالی ملازمین کی دل آزاری ہوئی ہو۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو چاہیے کہ اپنی انا اور اقتدار کے غرور کو ایک طرف رکھ کر ذاتی طور پر زحمت کرکے ان ہڑتالی ملازمین سے ملاقات کریں اور یہ بھی کہ ہڑتالی ملازمین کی عزت نفس مجروح کرنے والے اپنی حکومت کے بدزبان ترجمان کی بھی خبر لیں۔
ایک دھرنا کراچی میں مزار قائد کے سائے میں گزشتہ دو دن سے جاری ہے اس دھرنے میں زیادہ تر مسنگ پرسنز کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے شامل ہیں۔
3اور بعض 5سال سے لاپتہ افراد کے گھروں کی خواتین اوربچوں سمیت (ان خواتین میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیگمات شامل ہیں) دھرنا پہلی بار نہیں قبل ازیں جو دھرنے دیئے گئے انہیں ختم کرواتے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ سندھ حکومت اس معاملے میں وفاقی اداروں سے بات کرے گی۔
اندریں حالات اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اپنا موقف سامنے لائے کہ اس نے وفاقی اداروں سے بات کی، کیا جواب ملا؟
ثانیاً یہ کہ عمر خطاب نامی پولیس آفیسر پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ اس نے متعدد ایسے افراد کو گرفتار کرکے دہشت بناکر پیش کیا جو مقدمات کے اندراج کے وقت بیرون ملک ملازمت کررہے تھے اور اس کے دستاویزاتی ثبوت فراہم کئے گئے۔
اسی پولیس افسر پر یہ الزام ہے کہ لاپتہ افراد میں 11ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں اس نے گھروں سے اٹھایا اور ’’کسی اور ” کے سپرد کردیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کو چاہیے کہ وہ پولیس افسر پر الزامات کی تحقیقات کے لئے خصوصی کمیٹی بنائیں اور یہ کہ کراچی سے پچھلے چند سالوں کے دوران لاپتہ ہوئے افراد کے حوالے سے وفاقی اداروں سے رابطہ کریں
لیکن اس سے قبل وہ مزار قائد پر بیٹھی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی فریاد سننے کے لئے ذاتی طور پر وہاں تشریف لے جائیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت 13ویں سال میں ہے۔ ایک صوبائی حکومت کیسے اس بات پر خاموش ہے کہ اس کی حکومتی حدود سے نوجوانوں کو کوئی اٹھاکر لاپتہ کردے اور ورثا کی دادرسی بھی نہ ہونے پائے؟

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: