اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم صاحب! سب اچھا نہیں||سارہ شمشاد

وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت ماحول دوست اور سرسبز پاکستان کی بات کرتے ہیں ایسے میں پاکستان کو کلائمنٹ سمٹ میں مدعو نہ کئے جانے بارے کیا وضاحت دینا پسند کریں گے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا کی تیسری لہرکی سنگینی کے شور میں بہت سی اہم اور ضروری نوعیت کی خبریں دب سی گئی ہیں۔ پہلی خبر تو یہ ہے کہ امریکہ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والی اہم کانفرنس میں جن 40 ممالک کو مدعو کیا اس میں پاکستان اس حقیقت کے باوجود شامل نہیں کہ وطن عزیز موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے جبکہ بعض رپورٹس میں تو پاکستان کا 5ممالک میں سے تیسرا نمبر ہے جس کی بڑی وجہ گلیشیئر کا بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث پگھلنا ہے۔ پاکستان کو کانفرنس میں مدعو نہ کرکے امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے اپنی ترجیحات کا اچھی طرح دنیا کو بتادیا ہے۔ یاد رہے کہ اس کانفرنس میں بھارت اور بنگلہ دیش دونوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل امریکہ کے وزیر خارجہ بھارت گئے تو واپسی پر انہوں نے پاکستان کی بجائے افغانستان جانے کو ضروری سمجھا۔چلو اس حوالے سے تو ایک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افغان ایشو کی اہمیت کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ ادھر گئے مگر 9/11کے اہم ترین اتحادی سے امریکی انتظامیہ کی یہ بے چینی مستقبل کے جوڑتوڑ میں پاکستان کی پوزیشن کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کلائمنٹ سمٹ Climate Summit میں پاکستان کو مدعو نہ کئے جانے کی کئی وجوہات بیان کی ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کی وزارت تنزلی سرفہرست ہے۔ وفاقی وزیر ماحولیات زرتاج گل یوں تو ٹیلی ویژن پروگرامز میں اپوزیشن کو کافی اچھا لتاڑنے کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر جن بڑے چیلنجز کا وطن عزیز کو سامنا ہے ان کی طرف توجہ دینے کی زحمت زرتاج گل نے کبھی کی ہی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ موسمی حالات میں تبدیلی کے پیش نظر ورچوئل کانفرنسوں کے انعقاد کو یقینی بناتیں لیکن انہوں نے بھی پی ٹی آئی کے دیگر وزیروں کی طرح خود کو بیان بازی تک ہی محدود رکھا۔ کہا جارہاہے کہ وفاقی بجٹ میں رواں سال ماحولیاتی وزارت کا بجٹ 34فیصد کم کردیا گیا ہے اور وزارت کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نئے اقدامات کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔کچھ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کا 98فیصد بجٹ بلین ٹری سونامی پروجیکٹ پر خرچ ہورہا ہے لیکن اس میں بدعنوانی کی خبریں زبان زد عام ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کی جنگلات کی شرح آج بھی 5.7فیصد ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ شیری رحمن کا کہنا ہے کہ گرین ہائوس گیس اخراج 2040ء تک 400فیصد اضافہ متوقع ہے جو پیرس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ خطے کے اہم ترین ملک کو نظرانداز کیونکر کیا گیا ہماری دانست میں دونوں کی کارکردگی کچھ خاص نہیں۔
وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت ماحول دوست اور سرسبز پاکستان کی بات کرتے ہیں ایسے میں پاکستان کو کلائمنٹ سمٹ میں مدعو نہ کئے جانے بارے کیا وضاحت دینا پسند کریں گے۔ کیا وہ اس ضمن میں زرتاج گل اور شاہ محمود قریشی سے استفسار کریں گے۔ ایک طرف وزیراعظم بلین ٹری سونامی کا کریڈٹ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ دوسری طرف امریکہ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سمٹ میں پاکستان کو نہ بلاکر ایک واضح پیغام دیا ہے کہ شاید وہ اس ضمن میں پاکستان کی کی جانے والی کوششوں کو ناکافی سمجھتا ہے یہی نہیں بلکہ اس میں گڑبڑ گھٹالے کے الزامات کوبھی درست تصورکرتا ہے۔
دوسرا اہم ایشو جس کی طرف وزیراعظم عمران خان کا توجہ دینا ضروری ہے وہ چین کی کا ایران سے تاریخی معاہدے پر یہ کہنا کہ ایران ایسا ملک نہیں جو ایک فون کال پر ڈھیر ہوجائے۔ اب اس بیان کی بہتر انداز میں وضاحت تو شاہ محمود قریشی ہی کرسکتے ہیں لیکن کئی روز گزرنے کے بعد بھی ہر طرف سے مکمل خاموشی ہے۔تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس بیان میں چین نے بغیر کسی لگی لپیٹ رکھے بغیر بات کی ہے۔چین ایران طویل المدتی معاہدے سے چاہ بہار بندرگاہ پر کام شروع کئے جانے کے تاثر کو تقویت ملتی ہے جس کے بعد حکومت مخالف جماعتیں یہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو اپنی پوزیشن یہ جاننے کے باوجود کلیئر کرنی چاہیے کہ چاہ بہار بندرگاہ چین کو خاصی مہنگی پڑے گی۔پاکستان میں اقتصادی راہداری جیسے اہم پراجیکٹ ک بعد چین کا ایران کی طرف جھکائو مستقبل کی پوزیشن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
حکومت کے لئے اوپر بیان کردہ دونوں باتیں انتہائی تشویش کا باعث ہونی چاہئیں کیونکہ خارجہ محاذ پر کامیابی کے ڈونگرے تو حکومت کی طرف سے ہمہ وقت بجائے جارہے ہیں لیکن کڑوا سچ تو یہ ہے کہ سفارت کاری اور ڈپلومیسی صفر ہے۔ دفتر خارجہ اس انداز میں اپنا مثبت کردارادا نہیں کررہا جو وقت کا تقاضا ہے۔ بھارت کی لانگ فرمز اس کے لئے بدترین انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود بہترین کام کررہی ہیں یہی چیز پاکستان کو سمجھنی چاہیے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام کو وزیراعظم عمران خان کی دیانت داری، مخلصی اور وطن دوستی پر رتی برابر بھی شک نہیں لیکن ان کے پاس کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی کا کنبہ جوڑا والا معاملہ ہے۔ بلاشبہ وہ تمام وزارتیں خود نہیں چلاسکتے لیکن دوسری طرف انہیں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرناچاہیے کہ عوام نے انہیں 2018ء کے عام انتخابات میں ووٹ اس لئے دیئے تھے کہ وہ عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور آج ہر طرف خان کے اردگرد دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے وزیر زیادہ ہیں اور اب جو وزیراعظم اپنی کابینہ میں بڑی بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں تو وہ اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ اپنے وزراء کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ اگرچہ وزیراعظم اسے حب معمول کپتان کی جانب سے فیلڈنگ تبدیل کرنے کا نام دیں گے لیکن سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے استعفیٰ لینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حفیظ شیخ کو چائنا، روس، اقوام متحدہ اور دیگر ممالک سے دی جانے والی کورونا ویکسین اور اس مد میں دیئے جانے والے فنڈز بارے بھی اپنی پوزیشن کلیئر کرنی چاہیے کہ جب ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جارہی تھی تو اس ضمن میں فراہم کئے جانے والے فنڈز اور کورونا ویکسین کے اصل اعدادوشمار کہاں ہیں۔ اگر حفیظ شیخ یہ بتائے بغیر بیرون ملک چلے گئے تو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر کورونا کے دنوں میں بے جا دبائو ڈالنے اور ظالمانہ شرائط منوانے کے باعث عوام پر مہنگائی کے تیزاب کاری وار سمیت دیگر کئی معاملات بھی ان کے کھاتے میں ڈل جائیں گے۔بہتر ہے کہ اپنی پوزیشن کلیئر کریں۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کورونا کی عالمی وبا کا شکار ہے اور ہر طرف سے قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں ایسے میں پاکستانیوں کے گلے پر چھری رکھ کر مہنگائی کے زہر آلود تھپڑوں کی بارش سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس اہم موقع پر جب 2021ء کے بجٹ کی تیاریاں شروع کرنے کا سیزن سر پر آن پہنچا ہے تو ایسے میں حماد اظہر کے لئے خزانے کا منصب سنبھالنا کوئی آسان ہدف نہیں۔ ہم انہی سطور کے ذریعے پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کرچکے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے کہ آپ کی ناک تلے آپ کے وزیر کرپشن میں ملوث ہیں اس سے پہلے کہ نیب حرکت میں آئے، ضروری ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات کرواکر قانونی کارروائی عمل میں لائے تاکہ کسی کو عمران خان کی کریڈیبلٹی پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہوسکے۔ اسی طرح حفیظ شیخ کی وزارت خزانہ سے چھٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا بھی تاثر مل رہا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم اپنے وزراء کی بازپرس تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ ان کے بارے میں کرپشن کی خبروں کی تحقیقات کرواکر اس میں ملوث افراد کو قرارواقعی سزا دلوائیں وگرنہ مریم نواز کی نیب کی پیشی کی منسوخی سےایک نہیں دو پاکستان کا تاثر مزید تقویت پکڑ گیا ہے۔ وزیراعظم کسی دبائو میں آئے بغیر صرف اور صرف وطن عزیز کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلوں کی حکمت عملی پر عمل کریں کیونکہ خارجہ محاذ پر وائس چیئرمین کی ناکامی درحقیقت کپتان کی ہی ناکامی ہے۔خان صاحب وقت کم اور مقابلہ سخت کے اصول پر عمل کریں۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: