مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قارئین کے شکوے اور جواب شکوہ||حیدر جاوید سید

کیا عرض کروں ماسوائے اس کے کہ آپ درست کہتے ہیں، کس نے کس کو ڈھال بنایا اور آسانیاں حاصل کیں یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ماضی سے بہت سیکھ کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی گرماگرمی کے اس ماحول میں آپ دو خط پڑھیں، پہلا خط مبارک احمد خان نے پشاور سے لکھا ہے اور دوسرا خط چترال سے عاصم رفیق نے۔ عاصم رفیق لکھتے ہیں
"شاہ جی جماعت نہم سے آپ کا کالم پڑھنا شروع کیا تھا پچھلے دس بارہ برسوں میں بہت بار سوچا آپ کو چند اختلافی نکات پر اپنی رائے سے آگاہ کروں لیکن نہیں کرسکا۔ اب پچھلے چند دنوں کے دو تین کالموں کو پڑھ کر کچھ حوصلہ ہوا، اس لئے خط لکھ رہا ہوں۔ آپ ہمیشہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، کسی دن یہ بھی بتائیں کہ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والوں نے کبھی جمہور کے بارے میں بھی سوچا، ان کے دکھوں کی دوا کی۔ مجھے بھی جمہوریت ہی اچھی لگتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت پسندوں کو فوجی حکمرانوں جیسی مقبولیت نہیں ملتی، یہ ان کی طرح کام نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخر آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی جمہوریت پسندوں کی آخری اُمید ہے۔ پی پی پی والوں کی کرپشن کو آپ الزام قرار دیتے ہیں مگر شریف خاندان پر کرپشن کے الزام کو سوفیصد درست مان لیتے ہیں۔ شاہ جی ایک بات اور کیا اس ملک میں کبھی حقیقی معنوں میں جمہوریت آسکے گی؟”
اس عزیز کی خدمت میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ تحریر نویس اور قاری میں باہمی اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے۔ آپ کی آرا یا اختلافی نوٹ سر آنکھوں پر، اس ملک میں مختصر دورانیہ کی جمہوریت ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں آئی، گویا مثالی جمہوریت بالکل نہیں تھی پھر بھی شروعات تھی، اگر مقامی اور عالمی سامراجی قوتیں بھٹو کی راہ کھوٹی نہ کرتیں تو نظام مزید بہتر ہوسکتا تھا۔
1973کا دستور ان کے دور میں بنا کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ بدقسمتی سے ہم سبھی ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں اس لئے ماضی پر مکالمے سے گریز کرتے ہیں۔
بھٹو صاحب اوتار تھے نہ ولی کامل انسان تھے، ان کے دور میں بہت کچھ ہوا۔ انہیں اقتدار بہ امر مجبوری سونپا گیا تھا کیونکہ نوجوان فوجی افسر سقوط ڈھاکہ پر مشتعل تھے۔
انتقال اقتدار ظاہر ہے یحییٰ خان کے ایل ایف او پر ہی ہونا تھا کیونکہ یہی اس وقت نظام چلانے کو دستیاب تھا۔ یہ ایک طویل موضوع ہے کسی دن الگ سے کالم میں عرض کروں گا۔
زرداری یا نوازشریف یا کسی بھی اور پر کرپشن کے مقدمات ہوں یا الزامات، آزادانہ تحقیقات اور عدالتی سماعت کب ہوئی؟
کبھی نہیں۔
خود میاں نوازشریف نے سہیل وڑائچ کو دیئے گئے انٹرویو (یہ انٹرویو جلاوطنی کے برسوں میں جدہ میں دیا گیا) میں تسلیم کیا کہ بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کیخلاف کرپشن کے مقدمات بنانے کیلئے ان کی حکومتوں پر دباؤ ڈالا گیا، ہم نے دباؤ قبول کرکے غلط کیا۔
میری دانست میں جمہوریت ہی اس ملک کا مقدر اور مستقبل ہے، آمریت پھر ایک بند گلی میں لے جائے گی یہی تلخ حقیقت ہے۔
پشاور سے مبارک احمد لکھتے ہیں،
” آخر آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ آصف زرداری ایک چالاک آدمی ہے، اس نے مسلم لیگ اور پی ڈی ایم کو ڈھال بناکر مقدمات میں ضمانتیں کروائیں اور اب وہ ڈیل کر چکا ہے۔ نوازشریف کیوں آئے اس ملک میں واپس پھانسی چڑھنے کیلئے؟ مسلم لیگ کا حوصلہ ہے کہ ملک توڑنے والی پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا۔ یہ اتحاد ہی غلط تھا نون لیگ ایک حقیقی سیاسی طاقت ہے۔ آپ روزانہ پیپلزپارٹی کے حق میں کالم سیاہ کرتے ہیں، اس سے وہ زندہ نہیں ہوگی۔ مبارک احمد خان کا یہ بھی دعوی ہے کہ تحریر نویس پی پی پی کے کسی مخصوص میڈیا سیل سے تعلق رکھتا ہے۔ "
کیا عرض کروں ماسوائے اس کے کہ آپ درست کہتے ہیں، کس نے کس کو ڈھال بنایا اور آسانیاں حاصل کیں یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ماضی سے بہت سیکھ کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
پھر بھی عرض کردوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں شریف خاندان اور اس کے درباریوں نے جتنی بدزبانی کی اس کا سواں حصہ بھی جواب دعوی میں پیپلز پارٹی والے استعمال کرتے تو شریفوں کے چودہ طبق روشن ہوجاتے۔
بہت ساری خامیوں کے باوجود پی پی پی ایک سیاسی جماعت ہے، اس لئے وہ اپنے حریفوں کی طرح زبان استعمال کرتی ہے نہ ہتھکنڈے۔
پیپلزپارٹی کے حامی جوابی طور پر اگر کچھ کہہ رہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ خاموش بیٹھے گالیاں، طعنے سنتے رہیں۔
میری دانست میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے حامی پچھلے چند دنوں سے جو کہہ لکھ رہے ہیں وہ درست نہیں، مثال کے طور پر نون لیگ کی لاہور سے ایک خاتون ایم پی اے، جن کی زبان تالو سے نہیں لگ رہی، اگر انہیں جوابی طور پر آئینہ دکھایا گیا تو شور مچ جائے گا کہ خواتین کی توہین ہوگئی۔
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں فرشتہ کوئی نہیں سبھی انسان ہیں، بس دوسروں پر الزام اُچھالتے وقت گھر اور گریبان میں جھانک لیا کریں تو اچھا ہے۔
رہی یہ بات کہ تحریر نویس پیپلزپارٹی کے میڈیا سیل سے تعلق رکھتا ہے، سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے بڑے مجھ فقیر کو جانتے تک نہیں، چند ایک جو جانتے ہیں وہ میری آزاد خیالی سے نالاں ہیں۔ سیاسی جماعت کی ملازمت کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا محنت مزدوری کرتے ہوئے، اس عمر میں میڈیا منیجری کی کالک منہ پر کیوں مل لوں؟
حرف آخر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو حقیقی جمہوری نظام کی طرف بڑھنا ہوگا لیکن پہلے وہ اپنی پارٹیوں کے اندر تو جمہوریت لائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

%d bloggers like this: