اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محسن ڈیرہ لالہ داس رام بگا ئی||عباس سیال

”میرا من کرتا ہے کہ ہندو اورمسلمانوں کے بچے بستے اٹھا کر اکھٹے سکول جائیں،انکا پیٹ بھرا ہو،تن پر کپڑے ہوں، مثبت سوچیں ہوں اور مستقبل کا ڈیرے وال ایک پڑھا لکھا،باشعور اورتعمیری ذہن کا مالک ہو“۔(داس رام بگائی)اپنے اردگرد مٹی کی اینٹوں سے بنی ایک مضبوط فصیل کے اندر 22 ہیکٹرز کے وسیع رقبے پر مستطیلی شکل میں پھیلی یہ شہری بستی ایک اندازے کے مطابق اپنے وقتوں میں دس ہزار سے پندرہ ہزار جیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہوا کرتی تھی ۔بستی میں جگہ جگہ ابھرے بلندٹیلے اور ان ٹیلوں کے اردگرد ترتیب سے بنائی گئی گلیاں، ڈیرہ سے بنوں جاتے ہوئے بنوں روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہیں ۔مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی حفاظتی چار دیواری،دیواروں پر کندہ کی گئی مختلف جانوروں مثلاً پہاڑی بکرے ، بچھو اور مینڈک کی تصاویر اور مخصوص فاصلے پربنائے گئے حفاظتی واچ ٹاور نما برج نمایاں ہیں ۔کھدائی کے دوران ملنے والے مختلف پتھر،اینٹیں اور مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن جن پر نقش و نگاراورآڑھی ترچھی لکیریں کھینچی ہوئی ملی ہیں۔گھریلو استعمال کی اشیاء کے علاوہ اس وقت کی زراعت کے آلات،گندم کے دانے اور پالتو جانوروں کی ہڈ یاں بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ سب نتائج اس بستی کی قدامت اور شاندار تاریخ کے ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے چپے چپے پر گمشدہ اور گزری تہذیبوں کے آثار وافر موجو د ہیں، جو اس خطے کی عظمت کی دلیل ہیں ان میں سے زیادہ تر کو غیر ملکیوں نے آکر دریافت کیا اور انگریزی میں کتابیں تحریر کیں۔آج بھی آسٹریلیا اور برطانیہ کی لائبریریا ں سرائیکی وسیب کے لٹریچر اور ریسرچ سے بھری پڑی ہیں،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی بھی بڑ ی تہذ یب کے مقابلے میں ہماری تہذ یب بڑی زورآور ہے،لیکن افسوس کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان کو سامنے لائے۔ رحمان ڈھیری کو ہی لے لیجئے کہ جہاں اب ٹھیکریاں باقی بچی ہیں۔سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث جس کے جی میں آیا وہ یہاں سے نادر اشیاء نکال کر لے گیا۔کاش اس شہر کے صاحبان علم و ادب اپنے ”اوریجن“ کی طرف متوجہ ہو ں اور وقت کے حکمرانوں کے گوش گزار کریں کہ اس خطے کی تاریخی اہمیت کے سبب گومل یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپا رٹمنٹ کھولا جائے اور ا سکے ساتھ ہی ان سارے علاقوں کی دریافت شدہ باقیات کیلئے علیحدہ سے ایک میوزیم قائم کیا جائے۔رحمان ڈھیری، بھڑکی کا قبرستان کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے محفوظ بنایا جائے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور آثار قدیمہ سے متعلقہ افراد خصوصاً طلباء کو اس خطے کی تاریخ سے آگاہی دی جائے۔

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میرا من کرتا ہے کہ ہندو اورمسلمانوں کے بچے بستے اٹھا کر اکھٹے سکول جائیں،انکا پیٹ بھرا ہو،تن پر کپڑے ہوں، مثبت سوچیں ہوں اور مستقبل کا ڈیرے وال ایک پڑھا لکھا،باشعور اورتعمیری ذہن کا مالک ہو“۔(داس رام بگائی)

 

بلاشبہ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا، داس رام بگائی بھی ایک ایسی ہی نادر ونایاب ہستی تھیں۔ وہ 1879 میں رائے کنہیا لال بگائی جیسے بااثر زمیندار گھر میں پیدا ہوئے،بگائی خاندان اس وقت ڈیرہ کی اشرافیہ پر چھایا ہوا تھا۔ا پنی ابتدائی تعلیم بھاراتری سکول ڈیرہ سے حاصل کرنے کے بعد باپ نے انہیں مزید تعلیم کی غرض سے لاہور بھیج دیااور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کرنے کے بعد وہ واپس ڈیرہ لوٹ آئے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ اگر کوئی مڈ ل پاس کر لیتا تو دور دراز کے علاقوں سے لوگ اُس ہونہار سپوت کو دیکھنے کے لیے امڈ آیا کرتے،مگرعلم کے موتیوں سے بھرے شہر ڈیرہ کو داس رام جیسے ذہین نوجوانوں نے علم وہنر کا مرکز بنا دیا۔ایک علمی اور ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فٹبال اور ٹینس کے بھی مانے ہوئے کھلاڑی تھے،انہوں نے 1905 ءمیں فٹبال کے کھیل پر انگریزی زبان میں ”Football Players“ نامی ایک مفیدکتاب بھی لکھی۔ڈیرہ کی ہر دلعزیز زمیندار برادری سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شاید سیاست میں حصہ لیں لیکن انہوں نے اپنے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس میں صرف مشکلات اور کھٹنائیاں تھیں۔اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں لیکن اس نے دوسروں کے لیے جی کر دکھایا۔ داس رام جوان ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں ڈیرہ کو وسیبی علاقوں (بھکر، لیہ، دریا خان، ڈیرہ غازی خان) سے کاٹ کر صوبہ سرحد میں ضم کرنے کا غم ابھی تازہ تھا اور ہندو ڈیرہ وال برادری اس غیر فطری تقسیم کو کسی بھی صورت قبول کرنے کیلئے ہرگز تیار نہ تھی۔اس وقت ہندو برادری کے روح رواں شری ٹھاکر دت دھوّن تھے جو اپنے زمانے سے آگے آنے والے زمانوں کو دیکھ رہے تھے،اسی لیے انہوں نے انگریزوں کے اس سفاکانہ فیصلے کے خلاف ایک زبردست مہم چلا ئی،ایسے میں دانش اور وژن کے حامل داس رام کیسے پیچھے رہ سکتے تھے،ڈیرے کا یہ سپوت بھی ٹھاکر دت کیساتھ اٹھ کھڑا ہوا،اور انہوں نے ڈیرہ کی جغرافیائی اور ڈیرے والوں کیساتھ سماجی نا انصافیوں کے خلاف صدائے حق بلند کی۔ڈیرہ کے ساتھ ہونے والی اس تاریخی نا انصافی نے ان کی زندگی کو ایک نیا رخ دیااور پھر وہ آخری سانسوں تک دھرتی کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔اُن کا ایمان تھا کہ تمام لوگوں کے دکھوں کا مداوا صرف انصاف اورمساوات میں پوشیدہ ہے۔وہ کہتے تھے کہ 1901 کے انگریزی فیصلے کے بعد ہم سب ڈیرے وال صدیوں کی سماجی اورمعاشی غلامی میں چلے گئے ہیں۔وہ جہاں کہیں بھی جاتے عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش کیا کرتے لیکن افسوس کہ اس وقت کی مسلمان اکثریتی آبادی اپنی اشرافیہ کے ہتھے چڑ ھی ہوئی تھی۔

سیٹھ داس رام ایک روشن خیال انسان تھے جو سماج کی نچلی ترین سطح پر زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ مل جل کرکام کرنا چا ہتے تھے۔ہندو مسلم فسادات کے موقع پر انکا ایک ہی نعرہ ہوتا ”تشدد نہیں بلکہ علم ہی ہمارا ہتھیار ہے،ہمیں امن کا پودا لگانا ہے جسکی چھاؤں میں ہماری آنے والی نسلیں سکون سے جی سکیں“۔وہ ہندو،مسلمان سب کیلئے تعلیم چاہتے تھے،وہ سب بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھناچاہتے تھے۔ٹھاکر دت اپنی ہندو برادری کیلئے جب وی بی سکول کی بنیاد ر کھنے لگے تو سیٹھ بگائی نے سکول کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس نیک مقصد کے لیے اپنی جیب سے اسی ہزار روپے کی خطیر رقم ٹھاکر دت کی جھولی میں ڈال دی اور اسکے بعد جو فیض کا یہ دریا بہنا شروع ہوا تو کبھی رکنے میں نہ آیا۔انہوں نے وی بی سکول کی تعمیر کے بعد کالج کی خوبصورتی کے لیے فوارہ اور سٹوڈنٹ نوٹس بورڈ کے لیے ایک پورچ بھی الگ سے بنوایا، ساتھ ہی طلباء کے لئے جم بھی قائم کیا۔وی۔ بی سکول کی کامیابی کے بعد انہوں نے آریا سماج کالج ڈیرہ کی عمارت بھی اپنے پیسوں سے تعمیر کروائی۔

 

1823ء؁ کے اندوہناک سیلاب کے بعد ڈیرہ شہر کو ہر سال طغیانیوں کا سامنا رہتا تھا، گرمیوں میں دریا میں تیزی آنے کیوجہ سے زمین کا کٹا ؤ شروع ہو جاتا اور سارا شہر دریا کے رحم وکرم پر آجاتا،ایسے میں اپنی دھرتی کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کیلئے ہندو اشرافیہ نے 1923 ءمیں ”ریور انڈس فلڈ سیفٹی کمیٹی“قائم کی،مشن سکول کے پرنسپل مسٹر گائیر کمیٹی کے صدر جبکہ سیٹھ داس رام بگائی اعزازی سیکرٹری مقرر ہوئے،کمیٹی کی میٹنگ میں سیٹھ بگائی جیسے ذہین شخص نے دریا کے گرد ایک مضبوط پشتہ باندھنے کی تجویز پیش کی،مگراس کام کیلئے لاکھوں روپوں کی ضرورت تھی چنانچہ انہوں نے مالی بحران کا شکار چلی آرہی گورنمنٹ آف انڈیا کو اپنی کاوشوں سے قائل کر کے ڈیرہ کیلئے حفاظتی پشتہ تعمیر کروانے کی مد میں 16 لاکھ روپے کے قرضہ کی منطوری دلوائی،چوہدری رُچی رام کھتر جی کو اسکا ٹھیکہ دیا گیا جبکہ اتنے بڑی رقم کو خرد برد سے بچانے کے لیے کمیٹی نے ٹکے ٹکے کا حساب اپنے پاس رکھا اور آخر کار محسن ڈیرہ سیٹھ داس رام کی ذاتی دلچسپی سے یہ طویل پشتہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور ڈیرہ کو شیر دریا کی طوفانی موجوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفو ظ بنا لیا گیا۔پشتے کو مزید تقویت دینے کے لیے منشی شیو شاہ”Shiv Shah“(گلی شیو شاہ کے ہندو رہائشی) نے اپنے ذاتی خرچ پر دریا کے کنارے شیشم کے درخت لگوائے۔آج وہی طویل حفاظتی پشتہ جسے ہم دریا کا کنارہ کہتے ہیں اور دریا کے کنارے اُگے وہ سارے درخت جسکی ٹھنڈی چھاؤں میں ہم سب بیٹھتے ہیں،یہ ہندو ڈیرے والوں کی محنتوں، محبتوں اور خلوص کا ثمر ہیں۔

 

زمینوں کی دیکھ بھال، شہر کیلئے علمی اور عملی خدمات کے ساتھ ساتھ اعصاب شکن سیٹھ بگائی سرکاری نوکری بھی کرتے رہے اور1928ءسے 1936 ء؁ تک سب جج کے عہدے پر فائز رہے۔جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد جب شہر میں ا نفلو ئنزا کی وبا پھوٹی تو متاثرین کے علاج کے لیے سیوا سمتھی کے نام سے جوانوں کی ایک تنظیم قائم کی۔

 

سیٹھ داس رام بگائی نے کسی لالچ اور سیاسی وابستگی کے بغیر بے شمار ایسے کا م کیے کہ جنکا مقصد صرف اور صرف ڈیرے والوں کی فلاح وبہبود اور ترقی تھا۔ انکا اصول تھا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو اضافی رقم بچ جاتی اسے رفاعی کاموں پرخرچ کر ڈالتے اور اہل خانہ کے بیحد اصرار کے باجود کبھی بچت کا نہ سوچتے۔جہاں انہوں نے ہندوؤں کی فلاح و بہبود پر خطیر رقم خرچ کی وہیں مسلمانوں کیلئے بھی اپنی جیب سے ر قم خرچ کی۔ انہوں نے سول ہسپتال ڈیرہ میں ٹی بی وارڈ کیلئے خطیر رقم عطیہ کی جبکہ بیس ہزار روپے کی لاگت سے پرانے کمپنی باغ (ٹاؤن ہال اور سول ہسپتال کے بیچ بنا باغ)کے نزدیک سر جارج کنگھم ٹی بی ہسپتال قائم کیا۔ ڈیرہ کے جنوب میں زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے ٹیوب ویل لگایااور ساتھ ہی وہاں پرایک کلینک بھی کھولا۔1941 ءمیں سیٹھ بگائی نے اپنے مسلمان مزارعوں کیلئے جندہ نامی گا ؤ ں میں ایک خیراتی ڈسپنسری اور مسلمان بچوں کیلئے ایک پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔1946 ء؁ میں اس ان داتا نے سول ہسپتال میں بچوں کیلئے چلڈرن وارڈ تعمیر کروایا، اسی سال انہوں نے مختلف فلاحی کاموں پر ایک لاکھ کے قریب رقم خرچ کی۔

 

علم دوست سیٹھ داس رام ایک اجلی ا ور بے لوث شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے ہندی میں مقالے بھی لکھے، انگریزی کی مشہور کتاب ”سٹوری آف اے نیگرو سرونٹ“ کا ”حبشی غلام کی سرگزشت“کے نام سے اردو میں ترجمعہ بھی کیا جو ڈیرہ کے اہل علم طبقے میں کافی مقبول ہوئی۔کتابوں کے رسیا لالہ داس رام کچھ عرصہ کیلئے ڈیرہ میونسپل لائبریری کے سیکرٹری بھی رہے،ساتھ ہی وی بی کالج اورآریا سماج کالج کے سیکرٹری کے بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔

 

1946 ءمیں راکھ میرن کے قریب انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں زرعی پیداور بڑھانے کی خاطر انگریزوں سے ایک وسیع و عریض زرعی رقبہ ٹھیکے پر لیا، جہاں انکی پہلے سے ذاتی دو ہزار ایکڑ اراضی موجو دتھی۔ سارے رقبے کو قابل کاشت بنانے کے لیے انہوں نے اپنی دیگر شہری جائیداد فرخت کر دی اور سب کچھ اس ز مین پر لگا دیا،لیکن بدقسمتی سے شہر میں بلوے فساد پھوٹ پڑے اور جب وہ کٹائی کی غرض سے زمینوں پر پہنچے تو وہاں مزارعوں کے تیور بدلے دیکھے۔ وہ مسلمان مزارعے جنکے لئے بگائی سیٹھ چھ سال سے مفت ڈسپنسری چلا نے کیساتھ ساتھ انکے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے،انہی لوگوں نے موقع ملتے ہی اپنے محسن کی فصل کا بڑا حصہ لوٹ لیا اور سیٹھ بگائی چپ چاپ خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔

1947 ء میں انکے ترقیاتی منصوبوں میں اپنے خرچہ سے گورنمنٹ کالج میں طالبعلموں کیلئے سوئمنگ پول اور آریہ سماج زنانہ سکول کیلئے کھیل کا میدان بنوا نا تھا جبکہ میگا پراجیکٹ میں ڈیرہ شہر کے اندر ایک پرشکوہ گھنٹہ گھر کی تعمیر بھی انکا مستقبل کا خواب تھا، مگر ڈیرہ کی بد قسمتی کہ ان سب تعمیری کاموں کو شروع کرنے سے پہلے ہی نسلی فسادات کے منصوبہ ساز شہر میں گھس آئے جنکے خوف سے شہر کی دیواریں پیلی پڑ گئیں اور شعلہ اگلنے والی انگارہ آنکھوں نے اس پر امن شہر کے درو دیوار کو آگ لگا دی، مجبوراً ہندوؤں کو اپنی جنم بھومی کو الوداع کہنا پڑا، سیٹھ بگائی اپنا سب کچھ ہار کر بال بچوں سمیت مشرقی اتر پردیش اپنے بیٹے پُنوں لعل کے پاس جا پہنچے۔ بگائی کے چلے جانے کے بعد حکومت پاکستان نے انکی فصل فروخت کر کے حاصل شدہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی۔ تقسیم کے فوراً بعد بگائی اسی امید پر ڈیرہ واپس لو ٹے کہ شاید امن ہو جائے اور وہ کسی طور ڈیرہ میں بس جائیں لیکن انکی ساری جائیداد اور زرعی اراضی سرکاری تحویل میں جا چکی تھی اور ڈیرہ کے اس سپوت کیلئے شہر کی گلیاں تنگ ہو چکی تھیں،وہاں اس بے آسرا کا رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔وہ ہاتھ چومنے کے لائق تھے کہ جنہوں نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا،جب بھی مانگا ا پنی دھرتی ،اپنے لوگوں کیلئے مانگا اور اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر کے دکھی دل سے ڈیرہ کے درو دیوار کو چومتے ہوئے کبھی نہ واپس آنے کا عزم لیکرہندوستان چل دیئے۔

 

قدرت کے بھی کیا انوکھے کھیل ہیں،وہ داس رام بگائی جو ڈیرہ کا سیٹھ جب ہندوستان پہنچا توسر چھپانے کیلئے دو کمروں کا مکان بیس روپے ما ہانہ کرائے پر لینا پڑا، کافی تگ و دو کے بعدانہیں ہندوستانی سرکار کی طرف سے 8 مربع گز کا ایک چھوٹاسا مکان الاٹ ہوا۔ ہندوستانی سرکار نے انہیں انبالہ کے دور افتادہ علاقے میں 101 ایکڑ زرعی رقبہ بھی الاٹ کیا،مگر سارا ر قبہ بارانی اور ناقابل کاشت تھا اور اس کے بل بوتے پرکنبے کی کفالت کرنا نا ممکن تھی جبکہ ہندوستان میں انکی آمدنی کا واحد ذریعہ بیٹے کی سرکاری نوکری تھی۔ اس مایوسی کے عالم میں بھی سیٹھ بگائی اپنے سوہنے ڈیرے کو نہ بھولے اور وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں اور غیر سیاسی لوگوں سے خط و کتابت جاری رکھی۔

 

دہلی میں ہمارے دوست مکیش اسیجہ کے والد کہتے ہیں کہ”ڈیرہ شہر میری نظر میں نہ کبھی ہندو تھا نہ ہی مسلمان،بلکہ ڈیرہ تو صرف ڈیرہ تھا،جب ہم لوگ ڈیرہ سے نکل رہے تھے تو ہمیں صاف پتہ تھا کہ یہاں کا بھولا مسلمان ہمارے بغیر کبھی بھی اپنے حقوق کی جنگ نہیں لڑ پائے گا اور بہت جلد سارا شہر اُن لوگوں کے قبضے میں چلا جائے گا جن سے ہم ڈیرہ کو مدتوں بچاتے چلے آئے تھے، اب بھی جب کبھی میں ڈیرہ کیساتھ نا انصافیوں کی خبریں سنتا ہوں تو من اداس ہو جاتا ہے“۔

 

مکیش کے والد ہوں یا سیٹھ داس رام بگائی یہ سب وہ لوگ تھے جو تمام عمر اپنے شہر کی ہواؤں کو ترستے رہے،اپنی مٹی سے جدا ہونے کا غم اور اسکی معطر خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے انکے گالوں پر آنسوؤں کی جھالر بن جایا کرتی تھی۔ سیٹھ بگائی کی پوتی اینجلی بگائی بتاتی ہیں کہ جس تڑپ سے ان کے دادا ڈیرہ کو یاد کیا کرتے تھے، کوئی اپنی محبوبہ کو بھی اتنا یاد نہیں کریگا۔

 

محسن ڈیرہ سیٹھ داس رام بگائی جیسے ماں جائے کی علمی خدمات پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ جانے وہ کیسے لوگ ہوا کرتے تھے؟۔انکاجیون کیسا ہوتا تھا، انکی سوچ کیسی ہوتی تھی؟یہ وہ اشرافیہ تھے کہ جو پیدا تو عالیشان محلوں میں ہوئے لیکن انکا جیون اور انکی سانسوں کا بند ھن اپنی دھرتی ماں اور اسکے سینے سے اگے غریب لوگوں سے بندھا رہا۔ اسماعیل خان بلوچ کی دھرتی کتنی خوش بخت تھی کہ جسے ایسے ترا شیدہ ہیرے اور نایاب موتی نصیب ہوئے،مگر افسوس ہم نے ان سُچے موتیوں کی قدر نہ کی،صد افسوس ہم نے اپنے شہر کی غربت سے لڑنے والے ان نڈر سپاہیوں، ہماری ذہانتوں کی پرورش کرنے والی ان معصوم نرسریوں اور ہر غریب کیلئے علم کی شمع جلانے والی ان کامیاب ہستیوں کو نہایت ہی دل شکستہ اور دل گر فتہ کر کے شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

 

سیٹھ بگائی عمر کے آخری حصے میں ڈیرہ سے محرومی، دہلی کی اجنبیت اور اپنے سرمائے کی لوٹ کھسوٹ کے باعث عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے اور آخرکار وہ1954 ءمیں اپنے جلتے ارمانو ں کی ایک ایسی تپتی راکھ بن گئے جو سندھ دریا میں بہنے کی حسرت دل میں لیے گنگا ندی میں بہا دی گئی۔سیٹھ بگائی ایک کھرے اور پکے ڈیرے وال تھے۔وہ ہمارے دھرتی جائے تھے، اسی رشتے سے وہ ہم سب کے تھے،انکی راکھ پر بھی ہم سب کا حق تھا،کاش انکی تھوڑی سی راکھ ہم ڈیرہ والوں کو بھی کہیں سے مل جاتی جو ہم انکی حسرت بھری یاد میں بہنے والے آنسوؤں کے سندھو دھارے کے سپرد کر سکتے۔

 

ہماری بدقسمتی کہ ہم اپنی دھرتی کے وہ سچے عاشق گنوا بیٹھے جنکا جسم ہندوستان میں تو روح آج بھی ڈیرہ میں کہیں گڑھی ہوئی ہے۔اپنی مٹی سے ایسا اندھا عشق کرنے والے لوگ اب صرف قصے کہانیوں میں ہی ملا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط24)۔۔۔ عباس سیال

 پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: