مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آموں کے باغ کا رونا||رؤف کلاسرا

آدھی قوم میرے پچھلے کالم سے ناراض ہے کہ جناب آپ کو اب یاد آیا کہ ملتان میں آموں کے باغ کا قتل عام ہوا۔ کچھ کا خیال ہے ویڈیو کلپ‘ جس میں آموں کی باغات کی بربادی دیکھی جا سکتی ہے‘ چھ ماہ پرانی ہے

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدھی قوم میرے پچھلے کالم سے ناراض ہے کہ جناب آپ کو اب یاد آیا کہ ملتان میں آموں کے باغ کا قتل عام ہوا۔ کچھ کا خیال ہے ویڈیو کلپ‘ جس میں آموں کی باغات کی بربادی دیکھی جا سکتی ہے‘ چھ ماہ پرانی ہے۔ کچھ کے خیال میں چھ سال پرانی ہے۔ مطلب پرانی بات ہے‘ لہٰذا منہ بند رکھیں۔ سب سے مزے کا کام وہ لوگ کررہے ہیں جو یہ فرماتے ہیں کہ جناب یہ کسانوں کی زمین ہے، کسانوں کے باغات ہیں اگر انہیں اچھا ریٹ مل رہا ہے تو ان کی مرضی‘ ریاست کون ہوتی ہے ان کی ذاتی ملکیت میں ٹانگ اڑانے والی؟ جس کا جو دل چاہے‘ کرے۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ جس کا جو دل چاہے اپنی زمین اور فصل کے ساتھ وہ سلوک کرے؟ ایسا نہیں ہے۔ ہر سال صوبہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کے موقع پر دفعہ 144 لگا کر فصل کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے‘ فصل ایک ضلع کی حدود سے دوسرے ضلع کی حدود میں نہیں لے جائی جا سکتی۔ اسی طرح گندم پنجاب سے خیبر پختونخوا اور سندھ یا بلوچستان کوئی کسان نہیں لے جا سکتا‘ جہاں اسے پنجاب کی نسبت زیادہ ریٹ مل سکتا ہے۔ اسی طرح گنے کے سیزن میں بھی ڈپٹی کمشنر دفعہ ایک سو چوالیس لگا دیتے تھے‘ جس کے تحت کسان اپنے کھیت میں اگنے والے گنے سے اپنے کھیت میں ہی اپنی ملکیت کی زمین پر گڑ نہیں بنا سکتا تھا۔ شوگر ملز مالکان کو خطرہ ہوتا ہے کہ گنے سے گڑ بننا شروع ہو گیا تو ان کی ملز کیلئے کم پڑ جائے گا اور پھر حکومتوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے کہ ملک میں چینی کم پیدا ہوئی تو باہر سے ڈالرز خرچ کرکے منگوانا پڑے گی۔ اس طرح جب حکومت کوئی پروجیکٹ شروع کرتی ہے جیسے کوئی ڈیم بنانا ہو تو وہاں کے لوگوں سے علاقہ خالی کرا لیا جاتا ہے اور انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے جس پر ہمیشہ متاثرین رولا ڈالتے ہیں۔ اسی طرح ہر ضلع میں ایک ٹرم استعمال ہوتی ہے: ڈی سی ریٹ‘ جس کے تحت ضلع کا ڈی سی مرضی سے ریٹ لگاکر کوئی بھی زمین کسی مقصد کیلئے ایکوائر کرسکتا ہے۔ اس وقت مارکیٹ کے بجائے ڈی سی یا سرکاری ریٹ لگایا جاتا ہے۔ ابھی لاہور کے قریب ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ اس کی زمین بھی کسانوں سے دھڑا دھڑ خریدی جا رہی ہے اور اس پر بھی احتجاج ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اب ذرا اندازہ کریں‘ ایک لاکھ ایکڑ پر نیا شہر بنے گا۔ یہ تین اضلاع کی زمین ہے۔ مزے کی بات یہ ہے اس ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین پر نیا شہر بسانے سے پہلے کوئی سرکاری سروے نہیں کرایا گیاکہ اگر ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین پر سریا، سیمنٹ، لوہا دھرتی کے سینے میں ڈالا جائے گا تو اس علاقے کے ماحول پر کیا اثر پڑے گا؟ اندازہ کریں کہ ایک لاکھ ایکڑ پر شہر کا منصوبہ منظور کرکے زرعی زمین کی خریدوفروخت بھی شروع ہو چکی ہے لیکن کسی نے یہ جائزہ نہ لیاکہ اس کا ماحول اور انسانوں پر کیا اثر ہوگا؟ جنرل ایوب خان کے دور میں قوانین بنائے گئے تھے کہ جو زمین کمرشل اور انڈسٹریل استعمال کیلئے دی جائے گی‘ اس پر اور کوئی کام نہیں ہوگا۔ مطلب‘ اگر کوئی زمین صنعت اور انڈسٹری کیلئے مختص ہے‘ تو اس پر ہمیشہ انڈسٹری لگے گی‘ چاہے اس کا مالک وہ زمین بیچ ہی کیوں نہ دے۔ اس زمین پر کوئی اور پروجیکٹ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح سکول، ہسپتال یا پارک کی جگہ پر کمرشل یا انڈسٹریل پروجیکٹس نہیں شروع ہو سکتے۔ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ ایک قانون کے تحت پنجاب میں زوننگ سسٹم شروع کیا گیا تھا‘ یعنی رائس، گنا‘ کاٹن اور گندم کے ایریاز کو الگ الگ کیا گیا تھا۔ اس زوننگ سسٹم کے تحت کاٹن ایریاز میں شوگر ملیں نہیں لگ سکتی تھیں۔ مقصد وہی تھاکہ کاٹن کی جگہ لوگ شوگر کین کاشت نہ کریں۔ پھر شریف خاندان کا انہوں نے اپنی اتفاق فائونڈری کا لوہا اور ملیں بیچنے کیلئے صوبے میں شوگر ملوں کا جال بچھا دیا اور اس قانون کو ہی ختم کر دیا۔ اب اسّی سے زائد ملیں ہیں‘ جنہوں نے سرائیکی علاقوں کے کراپ سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان‘ جو پہلے ہر سال کپاس باہر بھیجتا تھا‘ اب ایک ارب ڈالر کی باہر سے خریدتا ہے کیونکہ اس زوننگ سسٹم کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ڈپٹی کمشنر کسی کسان کو اس کی مرضی سے اپنے کھیت کا گڑ نہیں بنانے دیتا تھا اب وہ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں کیسے بنانے دے رہا ہے؟ وہ زوننگ سسٹم کہاں گیا جس کے تحت کاٹن یا گنے کے علاقوں میں دیگر انڈسٹری نہیں لگ سکتی تھی؟ کاٹن اور آم‘ جو ایکسپورٹ ہوتے ہیں اور ملک کیلئے ڈالر لاتے ہیں‘ کے زونز میں کیسے یہ سارا کھیل دن دہاڑے کھیلا جارہا ہے؟ گندم تو کسان مرضی سے ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں نہیں بیچ سکتا تو پھر وہ مرضی سے ہزاروں ایکڑ آم کے باغات کیسے دھڑا دھڑ بیچ رہا ہے؟ کسان کو یہ اجازت تو ہے کہ وہ زرعی زمین کسی اور کو بیچ دے جس پر اس بندے نے بھی زراعت کرنی ہو اور یہ کلچر ہر جگہ عام ہے‘ لیکن وہ زرعی زمین کو ایسے پروجیکٹ کیلئے کیسے بیچ سکتا ہے جس پر زراعت نہیں ہو گی؟ حکومتیں ایسے پروجیکٹس کیلئے اگر زمین دیتی ہیں تو وہ زرعی علاقے نہیں ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں زمینیں اور باغ بیچ رہا ہے؟ دراصل کسان بیچارہ رُل گیا ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ کسان سے گندم چودہ سو روپے فی من خریدی گئی جبکہ چالیس لاکھ ٹن روسی کسانوں سے ڈالروں میں خریدی گئی‘ یوں ایک من بائیس سو سے چوبیس روپے میں پڑا۔ اب ہم نے اربوں روپے روسی کسانوں کو دے دیے‘ اپنے کسانوں کو نہیں دیے۔ اگر یہی اربوں روپے دیہی اکانومی میں جاتے، کسانوں کو ملتے تو آج زراعت کی گروتھ منفی نہ ہوتی‘ نہ کسان غربت کا مارا اپنے کھیت بیچ کر خود شہروں میں مزدوری تلاش کررہا ہوتا۔اس ملک میں زراعت اب منافع بخش نہیں رہی لہٰذا زرعی زمینیں بیچی جارہی ہیں۔ کبھی زمیندار ہونا ایک فخر تھا‘ اب زمیندار رقبے بیچ کر گزارے کررہے ہیں۔ اچھا ریٹ مل گیا تو فوراً بیچ دی کہ اس پرکوئی کوئلے کے پاور پلانٹ لگائے جیسے ساہیوال میں کیا گیا‘ یا آموں کے باغ کاٹ کر کوئی پروجیکٹ شروع کر دے۔
ملتان گرم علاقہ ہے جہاں سال کے بارہ ماہ گرمی رہتی ہے۔ گرین ایریاز بہت کم ہیں۔ درخت نہ ہونے کے برابر ہیں اور اب ملتان کے زرعی کھیت ختم کرکے وہاں لوہا، سیمنٹ اور بجری ٹھوکی جا رہی ہے۔ کیا زرعی زمینیں ان منصوبوں کو دینے سے پہلے کوئی سروے کیا گیا؟ زوننگ سسٹم کی خلاف ورزی کی اجازت کیسے دی گئی؟ جو زمین کاٹن، گندم یا آموں کے باغات کیلئے ہے‘ اس پر یہ بڑے منصوبے شروع نہیں کیے جا سکتے۔ ان منصوبوں کی منظوری ڈپٹی کمشنر ملتان یا ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کیسے دے دی؟ محکمہ ماحولیات کہاں ہے؟ کچھ اندازہ ہے کہ اس سے ان علاقوں کا سارا نظام کیسے متاثر ہوگا؟ موسمیاتی تبدیلیاں پہلے ہی تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ابھی کل پرسوں کی بارشوں نے کسانوں کی گندم کی تیار فصل تباہ کر دی ہے۔ اب جو کسان سارا سال محنت کے بعد بارشوں کے ہاتھوں گندم تباہ کرا بیٹھے‘ پھر وہ یہ زمینیں بیچے گا؟ اسے کوئی پروا نہیں رہے گی کہ گندم کی قلت ہو، آم نایاب ہو جائیں، لوگ فاقے کریں یا کروڑوں ڈالرز روسی کسانوں کو دے کر گندم منگوائیں۔ اس پوری تباہی میں ہم سب شامل ہیں۔
حیران ہوں جس شہر کا ڈپٹی کمشنر کسان کو گندم دوسرے ضلع میں فروخت نہیں کرنے دیتا، اسے اپنے کھیت کے اپنے گنے سے گڑ نہیں بنانے دیتا وہ طاقتور لوگوں اور مافیا کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ہزاروں ایکڑ آموں کے باغات اجاڑ دیں‘ چاہے اس کے بعد ملک میں قحط پڑیں، لوگ فاقے کریں یا موسمیاتی تبدیلیاں بارشوں کی شکل میں گندم کی فصلیں تباہ کر دیں یا گرم علاقے مزید گرم ہو کر لوگوں کا جینا حرام کریں۔
کمال ہے!

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

%d bloggers like this: