مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا:عوام اور حکومت تعاون کریں ||سارہ شمشاد

اب کوئی حکومت کو خواب خرگوش سے جگائے اوربتائے کہ کورونا کے دنوں میں عوام کی قوت خرید میں 32فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف ٹیکس چوری کا جواز بتاکر حکومتوں کی جانب سے عوام کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا کی تیسری لہر میں تیزی کے بعد ملک کے کئی شہروں میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون نافذ کردیا گیا ہے جس سے عوام شدید پریشان ہیں کہ پچھلے ایک برس سے کورونا نے ان کی حالت اس قدر خستہ کردی ہے کہ اب ان کو سانس لینا بھی مشکل لگنے لگا ہے۔ کورونا نے بلاشبہ پوری دنیا کی معیشت کو شدید متاثر کیا۔ کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں آج بھی لاک ڈائون کئی کئی ماہ سے چل رہے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کا خاص کرم ہے کہ پاکستان میں کورونا نے وہ تباہی نہیں مچائی جس کا ڈبلیو ایچ او کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ پہلی اور دوسری لہر کے بعد تیسری لہر میں یکدم تیزی کے باعث حکومت کی جانب سے لاک ڈائون کی حکمت عملی درست ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر لاک ڈائون اب مزید عرصہ جاری رہا تو عوام خودکشیوں پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ کاروباری حضرات، مارکیٹیں 6 بجے بند کرنے اور ہفتہ اتوار کو مکمل لاک ڈائون کو ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں۔ ملک میں جہاں کرونا سے پہلے42 فیصد افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے جبکہ پچھلے ایک برس میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بیروزگارہوئے جس سے یہ شرح بلاشبہ 47فیصد تک جا پہنچی ہے، اندازہ لگائیے کہ جس ملک میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 47فیصد تک پہنچ گئی ہو وہاں ترقی ایک خواب ہی ہوگی بلاشبہ حکومت کی جانب سے اپنی آمدن کے ذرائع بڑھانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کی حکمت عملی کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ صرف 12 سے 15 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں لیکن اب خان صاحب کو کون سمجھائے کہ 47فیصد تو خط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ان سے حکومت کون سا ٹیکس وصول کرناچاہتی ہے۔ یقیناً کسی ماہر معاشیات نے وزیراعظم کو غلط بریفنگ دی ہے کیونکہ عمران خان جس طرح غریبوں کا درد رکھتے ہیں اگر ان کو صحیح اعدادوشمار بتائے جائیں تو معاملات بہت بہتر ہوسکتے ہیں متوسط طبقہ کے لئے بھی ستر پوشی مشکل ہے تو ایسے میں جو بزنس مین تاجر برادری اور سرکاری ملازمین ہی باقی بچتے ہیں انہوں نے تو ٹیکس جمع کروانا ہے اگر حکومت حقائق کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی وضع کرے تو بہت سی چیزیں اس پر وا ہوجائیں گی لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہے اسی لئے تو معیشت کی ری سٹرکچرنگ کے لئے کوئی لائحہ عمل اڑھائی برس گزرنے کے باوجود نہیں کیا گیا اور رہی سہی کسر آئی ایم ایف کی من چاہی شرائط سے پوری کرکے رکھ دی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب آٹا، چینی، گھی، گوشت سمیت 26 اشیاء مہنگی ہونے کا سیکرٹری خزانہ ازخود اعتراف کررہے ہیں تو عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ مہنگائی کے عذاب کا علم ہونے کے باوجود اس کی روک تھام کے لئے کسی قسم کے اقدامات سے حکومت کیونکر انکاری ہے جبکہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پرکے مصداق ٹیکسوں کے جنجال پورے میں مزید اضافے کو اپنی اولین ذمہ داری کیونکر گردانتی ہے۔
اب کوئی حکومت کو خواب خرگوش سے جگائے اوربتائے کہ کورونا کے دنوں میں عوام کی قوت خرید میں 32فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف ٹیکس چوری کا جواز بتاکر حکومتوں کی جانب سے عوام کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہی کچھ ایسی ’’کاریگری‘‘ سیکھ رکھی ہے کہ ٹیکسوں میں ’’انجینئرنگ‘‘ کرنا اب کوئی بڑی گیدڑسنگھی ہمارے موجودہ نظام کے لئے رہ نہیں گئی ہے ۔ اسد عمر جو حکومت میں آنے سے پہلے پٹرول 50روپے فی لٹر ہونے کے لمبے لمبے بھاشن دیا کرتے تھے اب اس فارمولے کو نجانے کن ’’مصلحتوں‘‘ کے تحت عمران خان کو بتانے سے انکاری ہیں۔
اگرچہ چند روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کی جانب سے کہا گیا کہ اب حکومت کی توجہ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلوانے کی طرف ہوگی لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ کورونا کی تیسری لہر میں شدت آتے ہی ریسٹوررنٹس، سکولز، مارکیٹس، کاروباری مراکز بند کرنے کے اعلان سے بیروزگاری میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن حکومت محض 6بجے مارکیٹیں بند کروانے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ بیوروکریٹس اور سرکاری افسران جب کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لینے کے لئے دورہ کرتے ہیں تو خود بھی ماسک پہننے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تمام سرکاری افسران کو ہدایت جاری کرتی کہ وہ عوام کے لئے رول ماڈل بنیں ا ور کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں لیکن افسوس کہ حکومت کے نزدیک لاک ڈائون ہی تمام مسائل کا فقط حل ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ پاکستان کورونا کی وبا سے جو بڑی حد تک محفوظ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ لاک ڈائون بھی ہے جس کو بعد میں کئی ترقی یافتہ ممالک نے بھی اپنایا اور تعریف بھی کی لیکن ایک ایسے وقت میں جب ماہرین عوام کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اب دنیا کو کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہوگا اس لئے حکومت اور عوام دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور دونوں مل کر ایک ایسا راستہ اختیار کریں جس سے دونوں کا نقصان کم سے کم ہو۔ تاجر برادری کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے کہ حکومت 6بجے کی بجائے 8بجے تک کاروبار کھلا رکھنے کی اجازت دے جبکہ ہفتہ اتوار کو کاروبار بند رکھنے کا فیصلہ بھی واپس لے کیونکہ کورونا کے ساتھ معیشت بارے بھی حکومت کو سوچنا چاہیے جہاں تک ماسک پہننے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں دفعہ 144 نافذ کرکے عوام کوماسک پہننے کا پابند کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی 50یا 100 روپے فی کس جرمانہ بھی عائد کرنے کی حکمت عملی بارے سوچا جاسکتا ہے اور حکومت اور اس جرمانے سے عوام کو ماسک کی مفت فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ جب لوگ ایک دو مرتبہ جرمانہ دیں گے تو خودبخود ماسک کا استعمال کرنا شروع کردیں گے اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ وہ تعلیمی ادارے، کاروبار بند کرنے کی بجائے عوام کو ماسک پہننے کا پابند بنانے کے لئے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ خاص طورپر اس وقت جب ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ رمضان کریم اور عید جیسے بڑے مذہبی تہواروں کے مواقع پر ہی تو کاروباری حضرات کو کمانے کا موقع میسر آتا ہے۔ پچھلے برس بھی رمضان اور عیدوں کے مواقع پر کاروباری حضرات شدید متاثر ہوئے تھے۔
ملک ان دنوں بدترین دبائو کا شکار ہے اس لئے حکومت اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کا سنجیدگی سے ادراک کرنا چاہیے۔ کورونا کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ غریب کے لئے زندگی وبال نہ ہو اور کورونا کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا جاسکے۔ بلاشبہ عوام نے کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ذمہ داری کا ثبوت دیا اسی لئے تو کورونا کنٹرول میں رہا تو اب بھی جب کورونا کیسز کی مثبت شرح 7.15 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے تو ایسے میں احتیاط لازم ہے کیونکہ کورونا کا واحد علاج صرف احتیاط ہے اس لئے شعور اجاگر کرنے کیلئے حکومت میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرے اور علماء کرام سے اس سلسلے میں خصوصی درخواست کی جائے کہ وہ عوام میں اس بارے آگاہی پھیلائیں تاکہ کورونا کی وبا کے ساتھ ہی زندگی اور کاروبار سب کو رواں دواں رکھا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: