اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکمران طبقات کی عوام دشمنی ؟||عامر حسینی

قومی اسمبلی میں اس وقت جاگیردار اور زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ان میں سے 99 فیصد اراکین اسمبلی صرف بڑی جاگیروں سے ہی آمدنی نہیں کرتے بلکہ زراعت سے جڑے کئی کاروبار بھی کرتے ہیں

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج قریب قریب سب ہی اخبارات میں گندم کی سرکاری قیمت کے ازسر نو تعین کا اعلان جلی سرخیوں میں شایع کیا گیا ہے۔۔۔۔۔ انگریزی روزنامہ ڈان نے صفحہ اول پہ شہ سرخی جمائی :
Government fixes wheat support price at Rs. 1,800 per 40Kg
اور نیچے ذیلی سرخیاں ہیں
Decides to import 3m tonnes in net one year
Punjab to continue giving subsidy to maintain wheat flour price
وفاقی منسٹر برائے قومی تحفظ خوراک سید فخر امام نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے۔ وہ یہ بیان دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنی کی گئی تقریر بھول گئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر گندم کی قیمت 2000 روپے فی من رکھی جائے تب کہیں جاکر چھوتے اور درمیانے طبقے کے کسان کو فائدہ ہوگا۔ ان کے اس بیان سے کے بعد کھاد، ڈیزل، سپرے ، بیج سب کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور اس وقت جب حکومت نے گندم کی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا تب بھی کسانوں میں مایوسی تھی اور اب تو یہ اعلان اس وقت ہوا ہے جب گندم کی فصل پکنے کا وقت ان پہنچا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت اس فیصلے کا کسان طبقے کے بہت ہی چھوٹے حصّے کو فائدہ پہنچے گا، زیادہ تر اس سے فائدہ بڑی جاگیريں رکھنے والے جاگیردار، نواب ، وڈیرے اور خوانین اٹھائيں گے ،پھر تھوڑی تعداد میں گندم اگانے والا درمیانہ طبقے کا کسان اٹھائے اور چھوٹا کسان کا بہت کم سیکشن اس اعلان سے فائدہ اٹھائے گا۔
قومی اسمبلی میں اس وقت جاگیردار اور زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ان میں سے 99 فیصد اراکین اسمبلی صرف بڑی جاگیروں سے ہی آمدنی نہیں کرتے بلکہ زراعت سے جڑے کئی کاروبار بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ فصلوں کی سپورٹ پرائس ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ طبقہ سپورٹ پرائس کے ایشو پر کسانوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں کرنہیں پایا اور فنانس منسٹری کے بابوؤں کے آگے ہمیشہ گھٹنے ٹیکتا آیا ہے۔
گندم کی ملکی سطح پر کل پیداوار میں کمی کا سلسلہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے آخری تین سالوں میں شدید ترین ہوا اور یہ تب سے مسلسل کمی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے۔
پی پی پی کے دور میں آخری سال 2011-2012 میں گندم کی کل پیداوار 24 ملین ٹن تھی جو مسلم لیگ نواز کے آخری سال میں گھٹ کر 18 ملین ٹن پہ آگئی اور 2017-18 میں یہ 17 ملین ٹن اور 2019-2020 میں یہ 16 ملین ٹن پہ آگئی اور جبکہ گوشتہ سال قدرتی آفات بشمول طوفانی بارشوں،ژالہ باری اور ٹڈی دل کے حملے نے بھی فصل کو برباد کیا تھالیکن اس سال ابھی تک قدرتی آفات کا سامنا تو نہیں ہے لیکن پھر کسانوں کا اعتماد انتہائی نچلے درجے پہ ہے حکومت نے تین سالوں میں بے پناہ اخراجات مين اضافے کے باوجود کسانوں کو گندم کی سپورٹ قیمت بہت اصرار پہ اور وہ بھی گندم بیجائی کا سیزن شروع ہونے کے ایک ماہ بعد 1600 روپے فی من مقرر کی اور اب جب گندم کیکٹائی ک موسم آنے والا ہے تو تب جاکر اس نے سپورٹ پرائس میں محض 200 روپے کا اضافہ کیا ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ملکی سطح پہ کل 17 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے اور اس کے اسٹاک میں 3 لاکھ ٹن گندم موجود ہے اور جبکہ ملک کی کل ضرورت 24 ملین ٹن بنتی ہے ، حکومت نے اگلے سال 3 ملین ٹن گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس سال بھی پاکستان میں گندم اور آٹے کی قلت رہے گی اور حکومت اس قلت کو پورا کرنے کے نام پر فلور مل مالکان(سرمایہ داروں) کو کتنے پسوں کی سبسڈی عوام کے نام پہ دے گی ؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پنجاب حکومت نے ابتک فلور ملوں کو 80 ملین روپے کی سبسڈی دی ہے۔
پی پی پی کی سندھ حکومت نے پہلی بار وفاق کی طرف سے سپورٹ پرائس کے فیصلے سے ہٹ کر پہلے سے ہی 2000 روپے فی من سپورٹ پرائس کا اعلان کررکھا ہے اور اس اعلان نے بھی وفاقی حکومت کو 200 روپے فی مند قیمت بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت میں زراعت کی بربادی جو شروع ہوئی وہ پی ٹی آئی کے دور میں بدترین سطح پہ پہنچ گئی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کی حکومتیں کسانوں کے لیے بدترین حکومتیں ثابت ہوئيں اور ان کی زراعت کی پالیسیاں ناکام پالیساں ہیں، اس نے دیہی غربت میں ہی نہیں بلکہ شہری غربت کی سطح میں شدید اضافہ کیا۔
اگر آپ اس معاملے کو دو خبروں کے ساتھ ملاکر پڑھیں تو معاملہ اور سمجھ میں آئے گا، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں تیزی آئی ہے تو چھوٹے اور درمیانے درجے کی مینوفیکچرنگ میں بڑی کمی آئی ہے اور ٹیکسٹائل کی انڈسٹری کی گروتھ 3۔4 فیصد کمی آئی ہے۔ بڑےشہروں کی طرف چھوٹے شہروں اور دیہاتی آبادی کی نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی شہروں میں کچے مزدروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے اور سستی لیبر ضرورت سے زائد ہے جس سے بہتر سہولتوں کی مانگ کرنے والی اور زیادہ تنخواہ والی ورکنگ فورس میں کمی کرنے اور نئے دستیاب کچے مزدوروں کی بھرتی کا رجحان ترقی پارہا ہے۔ حکومت کی مجموعی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو ان کے جتنے بڑے منفی اثرات ہیں وہ سب سے زیادہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیانے اور نچلے طبقات پر پڑے ہیں –
اب سوال جو اوپر کیا گیا اس کا تو صاف جواب مل جاتا ہے اور وہ یہ ہے پاکستان کے حکمران طبقات میں طاقتور ترین طبقہ مالیاتی سرمایہ کا مالک طبقہ ہے اور اس طبقے کے اپنے اندر "قدر زائد” کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے لڑائی بھی موجود ہے اور یہ جو مالیاتی سرمائے کا مالک حکمران طبقہ ہے اس کے سب سے بڑے اور درمیانے طاقتور گروہ مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی میں براجمان ہیں جو عالمی مالیاتی سرمائے داروں کے رہین اور ان سے جڑے ہوئے ہیں جو عرف عام میں نیو لبرل سرمایہ دار طبقہ کہلاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے پوری دنیا کے کمزور اور غریب ممالک کے حکمران طبقے کو اپنا کاسہ لیس بناکر ان ممالک کے غریب عوام کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی قدر زائد پہ قابض بڑے، درمیانے اور چھوٹے سرمایہ دار طبقے کے کنٹرول میں ہے اور پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ غالب سرمایہ دار طبقے کے پیچھے ّپیچھے چلتی ہے ایسے میں اس سیاست پہ فی الحال ورکنگ کلاس کا کوئی ایسا دباؤ نہیں ہے جو موجودہ سیاست میں ان کے مفادات کو زیرغور لائے اور مین سٹریم سیاست میں سرمائے اور محنت کے تضاد میں محنت کے کیمپ کے مطالبات مین سٹریم ہوں۔ ورکنگ کلاس بشمول شہری اور دیہی غریبوں کے لیے حاکم طبقات کے پاس سہانے خواب ہيں دکھانے کو ( نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم، احساس پروگرام، لنگر پروگرام، پناہ گاہ پروجیکٹ ، انڈے ، مرغیاں، کٹّے پال پروگرام ) ۔۔۔۔۔ جب حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ اگلے سال دو ہزار روپے کے احساس کفالت پروگرام میں مزید 20 ملین عورتیں شامل کریں گی تو صاف صاف سمجھ جائیں کہ مزید دو کروڑ غریب عورتیں ہیں جو دو ہزار روپے ماہانہ سے گھر چلانے کے قابل سمجھی جارہی ہیں اور اگر ہم اوسط گھرانا چھے افراد پہ مشتمل فرض کرلیں بو صاف صاف مطلب 6 کروڑ پاکستانی ایسے غریب ہیں جو ابھی ماہانہ انکم سپورٹ پروگرام سے خارج ہیں اور وہ داخل ہوں گے۔
جبکہ محنت کش طبقات پر بدترین بوجھ گھر گھرداری چلانے پہ ہے تو حکومت وقت کے پاس ان کا یہ بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ کچھ اور منصوبے بھی ہیں جیسے ڈیلی ڈان کے بیک پیج پہ ایک خبر ہمیں بتاتی ہے
Government Moves swiftly to secure $500m IMF tranche
یہ جو پھرتی کے ساتھ آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالر کی رقم حاصل کرنے کے لیے حکومت متحرک ہورہی ہے ، یہ پھرتی ہے کس میدان میں؟
کارپوریٹ ٹیکس کے نام سالانہ 142 عرب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنا مقصود ہے یعنی دو سالوں میں 284 ارب روپیا کارپوریٹ ٹیکس کے نام پہ اور ایسے ہی دو سالوں میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 36۔5 روپے اضافے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں مطلب یہ ہوا دوسالوں میں میں 276 ارب روپے یہ رواں سال سے 2021 تک وصول کرے گی جبکہ اس سے اگلے سال یہ 215 ارب روپیا وصول کرے گی یعنی اس سال مزید 5۔2 روپے فی یونٹ قیمت بڑھائی جائے گی اور اس طرح سے قریب قریب 8 روپے فی یونٹ بچلی کی قیمت میں تین سالوں میں اضافہ کیا جائے گا اور یہ اضافہ کوئی نیولبرل حکومت واپس نہیں لے سکے گی۔ یہ تو محض کارپورٹ ٹیکس اور پاور ٹیرف میں اضافے سے پڑنے والا بوجھ ہے جو عوام قریب قریب تین سالوں میں کم از کم سات کھرب روپے کی صورت میں عوام کو ادا کرنا ہوگا۔ جبکہ بزنس پیج پہ ڈان میں ہی شایع خبر ہمیں بتاتی ہے:
Discos seek tariff hikes to recover Rs.96bn
بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیاں ایندھن کی قیمت اور کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسمنٹ کی مد میں 66 پیسہ اور 91 پیسہ بالترتیب صارفین بجلی سے وصول کرنا چاہتی ہیں اور یہ بنے گا 96 ارب ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بجلی کی یہ تقسیم کار کمپنیاں لائن لاسز، بجلی چوری سے ہونے والے نقصانات بھی صارفین بجلی سے ہی وصول کررہی ہیں۔
اب آکر ہم کسانوں کو ہی دی جانے والے سبسڈی کا موازانہ ان پہ حکومت کی آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالر کی قسط وصول کرنے کی پھرتیوں اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ہدف ریکوری سے کرلیں اور پھر یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ جنوبی پنجاب کے دو بڑے فرٹیلائزر گروپوں کو سستی اور بلامنقطع گیس کی فراہمی کی اجازت سے ان سرمایہ داروں کوکتنا فائدہ ہوگا تو صاف پتا چلے گا کہ اگر کسانوں کو اس ہاتھ کچھ دیا تو اس سے چوگنا دوسرے ہاتھ سے لے بھی لیا۔ یہی اصول دوسرے کمزور اور پسے ہاوئے طبقات کو سبسڈیز دینے کے نامپر اپنای؛ا جاتا ہے۔ ایسے میں جب(نیو) لبرل دانشور طبقاتی تضاد کی خلیج ، بھوک ، ننگ، بیماری ، بے روزگاری جیسے مسائل کے حل کے لیے اور ایک ہموار سطح کی ترقی کے لیے منڈی کی معشیت کو ہی واحد حل بتاتے ہیں تو مجھے ان کی دانش اور فکر کے افلاس پہ ترس آتا ہے کیونکہ ایسی تبلیغ اور ایسا پروپیگنڈا ان کی معاشی پریشانیاں ضرور دور کرتا ہے لیکن کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں اس طرح کے افلاس فکر و خیال سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: