اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز شریف اور لفافہ صحافت||محمد شعیب عادل

صحافیوں کو لفافہ دینے یا دوسرے لفظوں میں ان کا معاوضہ بڑھانے کی روایت جنرل ضیا الحق نے ڈالی تھی۔ اس سے پہلے صحافیوں کو آئی بی کی طرف سے40یا 50 روپے یا بہت زیادہ ہوگئے تو 80 روپے ماہانہ ملتے تھے۔

محمد شعیب عادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحافیوں کو لفافہ دینے یا دوسرے لفظوں میں ان کا معاوضہ بڑھانے کی روایت جنرل ضیا الحق نے ڈالی تھی۔ اس سے پہلے صحافیوں کو آئی بی کی طرف سے40یا 50 روپے یا بہت زیادہ ہوگئے تو 80 روپے ماہانہ ملتے تھے۔
جنرل ضیا کے دور میں جب پروگریسیو صحافیوں کو دیوار سے لگا دیا گیاتوان کی جگہ جماعت اسلامی کے صحافیوں کی لاٹری نکل آئی۔ افغانستان میں جہاد شروع ہوا تو پھر آئی بی کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی بھی صحافیوں میں ریوڑیاں بانٹنے لگی۔ ان کے پاس وسائل زیادہ تھے لہذا ان صحافیوں نے افغانستان میں فساد اور قتل وغارت کو جہاد جیسا ایک عظیم مقدس مشن بنادیا۔
چونکہ میاں نواز شریف نے بھی ان دنوں جنرل ضیا کی سرپرستی میں سیاست شروع کی تھی۔ لہذا انھوں نے اپنا امیج بنانے کے لیے صحافیوں کے معاوضوں میں مزید اضافہ کردیا ۔ جس سے ہمیں پتہ چلا کہ میاں صاحب ایک بہت مدبر اور گہری سوچ والے رہنما ہیں جو کم بولتے ہیں لیکن ان کا ویژن بہت زیادہ ہے جو شاید چھوٹے صوبوں والے رہنماوں میں نہیں ہے۔ صحافیوں اور وکیلوں کو لفافے اور پلاٹ دینے کا رواج بھی میاں نوازشریف کا ویثرن تھا۔ اب کا تو علم نہیں لیکن نوے کی دہائی میں ایک بات صحافیوں میں عام تھی کہ اگر کسی صحافی کی شادی ہوتی تو انہیں صرف یہ بتانا ہوتا تھا کہ کس شادی ہال میں اس کا ولیمہ ہوگا،بل ادا کرنا کسی اور کی ذمہ داری ٹھہرتی تھی۔
میاں صاحب جب سرور پیلس سعودی عرب میں رہائش پذیر تھے تو بڑے اور عظیم صحافیوں کو ٹکٹ اور معاوضہ دے کر اپنا انٹرویو کرواتے تھے۔ جبکہ ویثرن جہاد افغانستان کو پرموٹ کرنے والے مذہبی صحافیوں کا ہوتا تھا۔ میاں صاحب کے ویثرن کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب میاں صاحب سے پبلک میں کوئی صحافی اوکھا سوال کردے تو ان کا فوری جواب یہ ہوتا ہے کہ بھئی آپ بتائیں آپ کا کیا خیال ہے؟
ایک دفعہ جاتی امرا میں نوا ز شریف کی پریس کانفرنس تھی، مسلم لیگ کی بیٹ کا رپورٹر شاید چھٹی پر تھا اس کی جگہ کسی نوجوان صحافی کو بھیج دیا گیا اسے شاید جاتی امرا کے قواعد وضوابط کا علم نہیں تھااس لیے اس نے کچھ الٹے سیدھے سوال پوچھ لیے تو احسن اقبال ہوں یا آصف کرمانی انھوں نے جنگ کے اسائنمنٹ ایڈیٹر کی جان کھا لی کہ کس نالائق کو بھیج دیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کے لفافے والے صحافی اب اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ اب وہ میاں صاحب کو سیاست کے مشورے بھی دیتے ہیں اور جب کوئی دوسرا رہنما میاں صاحب کی سیاسی تجویز سے اختلاف کرے تو ویثرن والے صحافی پھر اس کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں۔
نیا زمانہ کی ڈائری
یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: