اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ووٹ پہ ڈاکہ|| آفتاب احمد گورائیہ

صادق اور امین وزیراعظم کے قول و فعل میں واضح تضاد موجود ہے لیکن دعوی پھر بھی نیک پروین ہونے کا ہے اور تقریریں ایسے جھاڑی جاتی ہیں کہ جیسے ان سے سچا اور صالح انسان کوئی اور ہے ہی نہیں۰

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینٹ انتخابات کا مرحلہ اپنی تمام تر طلاتم خیزیوں کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۰ جمعہ والے دن چیرمین اور ڈپٹی چیرمین سینٹ کے انتخاب کے ساتھ ہی سینٹ انتخاب 2021 پہلے ہونے والے کئی چوری شدہ انتخابات میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ کرنے کے بعد اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۰ چیرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر صدر کی طرف سے نامزد کردہ پریزائیڈنگ افسر، ان کے اتحادی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ دشمنی اور آمرانہ قوتوں کے ساتھ وابستگی کا ایک طویل ریکارڈ رکھنے والے جی ڈی اے کے سینیٹر سید مظفر شاہ کی جانب سے سید یوسف رضا کے سات ووٹ مسترد کئے جانے کے بارے دی جانے والی یکطرفہ رولنگ نے چیرمین سینٹ کے انتخاب کو متنازعہ بنا دیا ہے۰ پی ڈی ایم نے چیرمین سینٹ کے انتخاب کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے معاملے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۰ مسترد کئے جانے والے سات ووٹ بادی النظر میں الیکشن رولز کے مطابق مستند ووٹ تصور کئے جا رہے ہیں جو سید مظفر شاہ کی غلط اور یکطرفہ رولنگ کے باعث مسترد قرار دئیے گئے تاکہ صادق سنجرانی کی جیت کی راہ ہموار کی جا سکے۰

پی ڈی ایم اس بارے کافی پُر امید ہے کہ ہائیکورٹ کے لئے یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہو گا کیونکہ مسترد شدہ ووٹ نہ صرف الیکشن رولز کے مطابق مستند ووٹ ہیں بلکہ اس کے بارے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا کیس ریفرنس بھی موجود ہے جس میں ڈاکٹر شیرافگن کے کیس میں سابق چیف جسٹس محمد حلیم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ “مہر” کواسکی مطلوبہ مقام سے باہر لگانے سے ووٹ ضائع نہیں ہوتا اگر یہ واضح ہو رہا ہو کہ ووٹرکس کو ووٹ دینا چاہتا ہے۰ اس لئے یہ ایک سیدھا سادا ووٹ درستگی کا کیس ہو گا۰ پی ڈی ایم کی اُمید اپنی جگہ، اور ہائیکورٹ سے شائد جلد ریلیف مل بھی جائے لیکن ہائیکورٹ کے فیصلے کے اگلے روز جب معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا تو وہاں معاملات شائد اتنے آسان اور سیدھے نہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہاں سٹے آرڈر دینے کے بعد معاملے کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا جائے اور اس دوران تین سالہ مدت بھی گزر جائے۰ اس طرح کی بہت ساری مثالیں پہلے سے موجود ہیں۰ موجودہ دور کی سب سے بڑی مثال تو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی ہے جو کافی عرصے سے سٹے آرڈر پر چل رہے ہیں اور ان کے کیس کی سماعت کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۰

سینٹ انتخابات کے آغاز سے لے کر اختتام تک پیسے کے لین دین اور ووٹ بیچنے خریدنے کے الزامات اگر کسی پارٹی پر لگے ہیں تو وہ ہے صرف اور صرف صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف۰ اس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ الزام لگانے والے بھی کوئی اور نہیں تحریک انصاف کے اپنے اراکین ہیں۰ عمران خان نے خود الزام لگایا کہ بلوچستان میں سینٹ کی سیٹ کا ریٹ ستر کروڑ روپے ہے جبکہ آج حقیقت یہ ہے کہ ستر کروڑ روپے میں سینٹ کی سیٹ خریدنے والا شخص عبدالقادر آج تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے۰ ایسے ہی الزامات سندھ اور خیبرپختونخواہ میں بھی لگائے گئے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پیسے لے کر سینٹ کی ٹکٹیں دی ہیں۰ تحریک انصاف کے بھونپووں کی جانب سے سب زیادہ غم و غصہ قومی اسمبلی کے ممبران کے ووٹوں منتخب ہونے والے سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی کی سیٹ پر نکالا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی ایک بڑی تعداد اپنے انتخابی مستقبل کے بارے فکرمند ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی بدترین کارکردگی اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے واضح کر دیا ہے کہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کا ٹکٹ سراسر گھاٹے کا سودا ہو گا۰ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی سے سینٹ کی سیٹ پر پیسہ نہیں چلا بلکہ ٹکٹ کے وعدے پر تحریک انصاف کے اراکین نے پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا۰

حقیقت یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے تمام اسمبلیوں میں اپنی سیٹوں کے مطابق ہی سینٹ کی سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں اپوزیشن کے نو ووٹ زائد حاصل کئے اور اپنے حصے سے دو سیٹیں زیادہ حاصل کی ہیں۰ تحریک انصاف کے ارب پتی امیدواروں نے اپنی جیت کے لئے درکار ان زائد ووٹوں کا بندوبست کیا۰ اسے منافقت ہی کہا جا سکتا ہے کہ سب سے زیادہ واویلا کرنے اور شور مچانے والی جماعت ہی سب سے زیادہ ووٹ کی کرپشن میں ملوث پائی گئی ہے۰ چیرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر بھی درجنوں حکومتی ترجمان دن رات اس پروپیگنڈہ میں مصروف رہے کہ اپوزیشن ووٹ خرید رہی ہے اور بریف کیسوں کے منہ کھل چکے ہیں جبکہ نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہوا اور اپوزیشن کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی اپنے 53 پکے ووٹوں میں سے صرف 49 ووٹ حاصل کر سکے۰ اب صادق اور امین وزیراعظم سے کون پوچھے کہ ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کے مطابق اپوزیشن جو ووٹ خرید رہی تھی وہ ووٹ کدھر گئے؟ اور حکومتی امیدوار نے اپنے ووٹوں سے زیادہ ووٹ کیسے حاصل کر لئے؟

صادق اور امین وزیراعظم کے قول و فعل میں واضح تضاد موجود ہے لیکن دعوی پھر بھی نیک پروین ہونے کا ہے اور تقریریں ایسے جھاڑی جاتی ہیں کہ جیسے ان سے سچا اور صالح انسان کوئی اور ہے ہی نہیں۰ جہانگیر ترین اراکین اسمبلی سے جہاز بھر بھر کر لائے تو کہتے ہیں کپتان وکٹیں گرا رہا ہے اور اگر اپوزیشن سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے یا ٹکٹوں کے وعدے پر حکومت سے ناراض اراکین کو اپنے امیدوار کو ووٹ دینے پر آمادہ کرے تو یہ کرپشن ہے۰

کیا صادق اور امین وزیراعظم بتانا پسند کریں گے کہ ان کے اسی فیصد امیدوار جو ارب پتی ہیں انہوں نے تحریک انصاف کب جوائن کی؟ کیا ان پیرا شوٹرز کو ٹکٹ دینا پارٹی ورکرز کی حق تلفی نہیں ہے؟ کیا آج تک وزیراعظم بتا سکے کہ وہ کون سی نامعلوم وجوہات اور خفیہ صلاحیتیں تھیں جن کی بنیاد پر دو ہزار اٹھارہ کے انتخاب سے صرف دو ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی بنا دیا گیا؟ خیبر پختونخواہ کے جس وزیر کو کچھ ہفتے پہلے پیسوں کے لین دین کی ویڈیو میں موجود ہونے کی بنا پر نکالا گیا اسے دوبارہ ساتھ ملا لیا گیا تاکہ سینٹ کے انتخاب میں اس کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۰ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دو تین ماہ میں اسکی وزارت بھی بحال کر دی جائے گی۰

و یراعظم کے قول و فعل میں تضاد کی ایک اور بڑی مثال فیصل واوڈا ہے جس کو قومی اسمبلی کی سیٹ پر جعلی بیان حلفی دینے پر نااہلی کا سامنا تھا اس کو سینیٹر بنوا دیا اور اس نے قومی اسمبلی میں ووٹ دینے کے بعد عدالت میں اپنا استعفی جمع کروا دیا۰ کیا وزیراعظم جواب دینا پسند کریں گے کہ کیا یہ گڈ پریکٹس ہے؟

اپوزیشن پر بیڈ پریکٹس کا الزام لگانے والوں نے چھانگا مانگا کی یاد تازہ کرتے ہوئے سینٹ انتخاب کے موقع پر، وزیراعظم کے نام نہاد اعتماد کے ووٹ کے موقع پر اور پھر چیرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر اپنے اراکین پارلیمنٹ کو ایجنسیوں کے پہروں میں قید کئے رکھا۰ اپوزیشن نے تو ان تمام مواقع پر اپنے کسی ایک رکن کو بھی کسی جگہ پابند نہیں کیا۰ کیا یہ بھی وزیراعظم کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ کیوں ان کے اراکین ہی کو قید کرنے کی ضرورت پیش آئی جبکہ یہ حکومتی اراکین ہیں ان کو تو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۰ خطرہ تو اپوزیشن اراکین کو ہوتا ہے کہ کہیں کوئی حکومتی ایجنسی ان کو اٹھا نہ لے۰ لیکن اصل خطرہ اور ڈر تو وزیراعظم کو خود ہے کیونکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی حکومت کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے ان کے اراکین اپنے حلقوں میں جانے اور عوام کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے اس کے علاوہ وزیراعظم کا اراکین کے ساتھ رویہ، یہ سب معاملات ہیں جن کی وجہ سے تحریک انصاف کے ارکان پارلیمان وزیراعظم سے سخت ناراض ہیں اور اس ناراضگی کا اظہار ان اراکین نے حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو سینٹ کی سیٹ پر ووٹ نہ دے کر کیا بھی ہے۰

چیرمین سینٹ کے انتخاب سے دو دن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ حکومت چیرمین سینٹ کا انتخاب جیتنے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرے گی اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا کیا بھی گیا۰ کیا صادق اور امین وزیراعظم جواب دینا پسند کریں گے کہ کسی بھی مہذب ملک کا وزیراطلاعات ایسا بیان دے سکتا ہے؟ کیا وزیراطلاعات کا بیان ان کے نام نہاد اصولوں کے عین مطابق ہے؟ وزیراعظم جو ہر روز اخلاقیات کا بھاشن دیتے ہیں کیا وزیراطلاعات کا یہ بیان بھی اخلاقیات کے ہی زمرے میں آتا ہے؟

وزیراعظم کی طرف سے وزیراطلاعات کے بیان پر ردعمل تو کیا آنا تھا لیکن چیرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر وزیراطلاعات کے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کے بیان کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں ضرور آ گیا۰ چیرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر بنائے جانے والے پولنگ بوتھ سے خفیہ کیمرے برآمد ہونا موجودہ حکومت کا وہ سیاہ کارنامہ ہے جس کو لکھتے ہوئے مورخ بھی شرمندہ ہے لیکن کسی حکومتی عہدیدار کی جانب سے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار تو درکنار اس کا الزام بھی پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۰

اس وقت صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ریاست کے لاڈلے کھلاڑی

مسلسل دھاندلی کرکےریاست کی جڑیں کاٹ رہے ہیں کیونکہ عوام میں ان کی جڑیں ختم ہو چکی ہیں۰ ریاست کے وہ ادارے جو دھاندلی کو روکنے کے ذمہ دار ہیں وہ یا تو اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے بیٹھے ہیں یا اس دھاندلی کے عمل کا حصہ بن چُکے ہیں۰ اگر کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری ادا کرنا بھی چاہے تو اس کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۰ اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران یہ بھول چکے ہیں کہ یہ اقتدار عارضی ہے اسے جلد یا بدیر ختم ہونا ہے اور عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں، حکمرانوں کے خلاف عوام کی نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ حکومتی اراکین کا اپنے حلقوں میں جانا مشکل ہو چکا ہے۰ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ زبانِ خلق کو نقارہ خُدا سمجھا جاتا ہے اور جس نے ایسا سمجھنے سے انکار کیا اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۰ ایک طوفان کے آثار ہیں عوام میں، ایک لاوہ ہے جو پھٹنے کو تیار ہے اور یہ سب کو صاف نظر آرہا ہے سوائے دھند میں گُم حکمرانوں کے۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

%d bloggers like this: