مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

! پاکستان میں شیعہ نسل کشی:افسانہ یا حقیقت||ہدایت مہدی

نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے رونبسٹین کہتے ہیں: نسل کشی کسی بھی گروپ کے سبھی یا اکثر لوگوں کو محض اس گروپ کے ممبر ہونے کی وجہ سے ارادے کے ساتھ مارنا ہے۔

ہدایت مہدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں شیعہ نسل کشی بارے میڈیا اور سول سوسائٹی نے جس بیانیہ کوفروغ دیا ہے اس میں شیعہ نسل کشی کو بین المسلک لڑائی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر شیعہ کی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ، امام بارگاہوں اور عاشورہ محرم کے جلوسوں، مجالس پر حملوں کو شیعہ سنی لڑائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار کے قریب رویے غالب ہیں کہ شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی کی جارہی ہے

 اس موضوع پہ عامر حسینی صاحب نے ”پاکستان میں شیعہ نسل کشی: افسانہ یا حقیقت“ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی  ہے- یہ اسی سوال کو اٹھاتی ہے کہ کیا پاکستان میں شیعہ نسل کشی ہو رہی ہے یا نہیں؟

اس کتاب میں عباس زیدی کا مقالہ "بے رحم شیعہ نسل کشی” میں لکھا ہے؛

نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے رونبسٹین کہتے ہیں: نسل کشی کسی بھی گروپ کے سبھی یا اکثر لوگوں کو محض اس گروپ کے ممبر ہونے کی وجہ سے ارادے کے ساتھ مارنا ہے۔

مہدی ہدائت

پاکستان میں شیعہ کے منظم قتل کا واقعہ 3جون 1963 میں پہلی مرتبہ سامنے آیا۔ یہ واقعہ خیرپور سندھ میں پیش آیا جہاں دس محرم کے جلوس پر وہابی مسلمانوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا اور شیعہ مرد، عورتوں کو چھریوں اور بغدے کی مدد سے قتل کر دیا گیا۔اس حملے میں 118 شیعہ قتل ہوئے،لاشوں کے ٹکڑے کر دیے گئے اور جو بھی عاشور پر تعزیہ، علم اور دیگر تبرکات تھے سب جلا ڈالے گئے۔اس زمانے میں کوئی ٹیلی ویژن نہیں تھا اور چند اخبارات تھے جن میں اکثر پر سرکاری کنٹرول تھا۔ اس المناک حادثے کی خبریوں رپورٹ ہوئی،”عاشورہ کے موقع پر لاہور اور خیرپور کے گاؤں ٹھری میں فرقہ وارانہ فسادات میں چند جانیں چلی گئیں، متعدد زخمیوں کو ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔“

کتاب کا ایک پورا باب بھی پاکستان میں ”مذہبی تشدد کی میڈیا کوریج“ پر بحث کرتا ہے۔ پاکستانی اخبارات مذہبی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کسی کو حق تو کسی کو باطل ثابت کرنے کا بہترین ہنر رکھتے ہیں۔ مین ا سٹریم میڈیا بہت سے واقعات کو نظر انداز کر دیتاہے یا ایسے رپورٹ کرتا ہے کہ شدت پسند گروہوں کی شناخت چھپا دی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو میڈیا ایک مخصوص قسم کی مہم چلا کر لوگوں کی ذہن سازی کرتا ہے، دوسرے مکاتب فکر کے برعکس جب شیعہ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ان کی شناخت اور عبادت گاہوں کے نام لکھنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور پر جنوری 2013 کو لشکر جھنگوی کی جانب سے کیے گئے حملے میں 93 شیعہ مارے گئے۔ اس واقعہ پر ملک کے تین بڑے اخبار نے یوں ہیڈ لائنز لگائیں

:
Dawn: At least 93 lives lost in Quetta explosions.
Daily Times: Death Rains on Pakistan
Express Tribune: Black Thursday; Bloodbath in Quetta

ان تینوں اخبارات کی ہیڈلائن سے ذرا بھی

 پتا نہیں چلتا کہ مرا کون؟ اور مارا کس نے؟ کتاب میں کئی اور اس طرح کی مثالیں موجود ہیں جہاں میڈیا کا کردار مبہم سا رہا۔
مصنف لکھتے ہیں: 1963ء کے بعد پاکستان میں چھوٹے موٹے انتشار چھوڑ کر تقریبا سارے ”شیعہ قتل“ کے پیچھے تکفیری دیوبندی ہیں۔ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور جیش محمد سب تکفیری دیوبندی ہیں۔ یہ گروپ سرکاری طور پر کالعدم ہیں،لیکن ان کو اس سے قبل سیاست میں حصہ لینے، الیکشن لڑنے اور بڑی جماعتوں سے اتحاد بنانے کی اجازت رہی ہے۔

کتاب میں شیعہ کے خلاف فتوؤں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ مولویوں کی تصدیق کے ساتھ شیعہ کے ارتداد کا ایک جامع فتویٰ 1986 میں سامنے آیا۔ یہ فتویٰ دینے والوں کی فہرست میں کئی اہم دیوبندی مولویوں کے نام شامل تھے، جیسے مولوی محمد یوسف لدھیانوی اور مفتی نظام الدین شامزئی۔ شیعہ کے مرتد ہونے کے فتاوے بھی جاری ہوتے رہے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے 1986 میں شیعہ کے خلاف ارتداد کا فتویٰ جاری ہوا، جس میں شیعہ کے ساتھ کھانا پینا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا اور ان کو سنی قبرستان میں دفنانے سے منع کر دیا گیا۔ دوسرا فتویٰ جامعہ اشرفیہ لاہور سے جنرل ضیاء الحق کے رشتے دار مولوی محمد مالک کاندھلوی نے جاری کیا۔ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں مخصوص مکتب فکر کے لوگوں کو نیشنل سیاسی لیڈر کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس میں ایک بڑا نام محمد احمد لدھیانوی کا تھا،جسے پہلی بار ٹاک شو میں بلایا گیا تو اس کے ساتھ کوئی بیٹھنے کو تیار نہیں تھا۔ مگر شیعہ کلنگ کے اس بڑے ”کردار“ کو میڈیا نے چند دنوں میں اسلامی اسکالر اور مفکر بنا دیا۔ جامعہ بنوریہ کے مفتی محمد نعیم کے فتوے کی بنیاد پرتو کراچی میں اسماعیلی شیعہ کی ایک بس پر فائرنگ کی گئی، جس میں متعدد مردو خواتین مارے گئے۔ اسی طرح 2014 میں ایک بڑے تکفیری گروہ نے فتوی جاری کیا کہ ”تمام شیعہ واجب القتل ہیں“ جس کی بنیاد پر بلوچستان میں شیعہ کا قتل کیا گیا۔

کتاب کا ایک باب ”مذہبی دہشت گردی کی متاثرہ خواتین کے تجربات“ پر مشتمل ہے۔ ان خواتین کا صرف جذباتی اور نفسیاتی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس  باب میں کہیں صغریٰ کا دکھ ہے، جس کے شوہر کو مارا گیا اور اس کا بیان ہے کہ ”اگر لشکر جھنگوی ہمیں نہیں مارے گی تو غربت مار ڈالے گی“، دوسری جانب اس شیعہ ہزارہ عورت کے اپنے چھوٹے بھائی بارے ارمان لٹنے کی داستان ہے جو ایک بہن نے بھائی کے بارے سجا رکھے تھے۔ اس باب میں ایسی مثالیں بھی ہیں کہ خاندان کے مردوں کی موت کے بعد بھی خواتین
کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا۔
کتاب کا اگلا باب ”دیوبندی جہاد ازم کی تاریخی جڑیں“ پر ہے۔ دیوبندی ازم اسلام کا ایک ہندوستانی مکتبہ فکر ہے جو کہ برٹش حکمرانی کے دنوں میں انیسویں صدی میں سامنے آیا۔ اس نے جنوبی ایشیا میں پہلے سے موجود نرم اور صلح کل طرز کے اسلا م کے مقابلے میں زیادہ سخت اسلام کا تصور پیش کیا۔ دیوبندی ازم کے بانیوں نے اپنی تحریک کے جو مقاصد بتائے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ شیعہ کا اسلام بدعت زدہ ہے،جس سے ان کو نجات دلانا دینی فریضہ ہے۔ دیوبندی ازم نے ہندوستان میں پائے جانے والے صوفیانہ تصورِ جہاد کی بجائے وہابی تصورِ جہاد کو ترجیح دی۔ دارالعلوم دیوبند کو بطور ادارہ شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب کے ریڈیکل نظریات و خیالات پر استوار کیا گیا۔
پاکستان وجود میں آنے کے بعد 80ء کی دہائی تک تقریباََ تمام مکاتبِ فکر کے درمیان تعلقات کافی حد تک پرسکون اورپرامن تھے۔مگر ضیاء الحق کی اسلامائزیشن نے فرقہ پرستی کو پروان چڑھنے میں مدد فراہم کی۔ شیعہ سنی اختلاف کی خلیج اس وقت مزید شدید ہوگئی جب ایرانی انقلاب کے بعد ایران کے شیعہ رجیم اور سعودی عرب کے وہابی رجیم آمنے سامنے آگئے۔ ایسی صورت میں شیعہ ازم کے خطرے کو روکنے کے لئے سعودی عرب نے نہ صرف اہل حدیث مکتبہ فکر کے مدارس اور تنظیموں کو فنڈز دیئے بلکہ پین اسلام ازم کی ایسی تحریکوں کو بھی پیسے دیے جو
خود کو فرقہ پرستی سے پاک کہتی تھیں مگر ان میں محمد بن عبد الوہا ب اور ابن تمیمہ کے ریڈیکل نظریات کے لیے جگہ موجود تھی۔
اسی دور میں ”سپاہ صحابہ“ وجود میں آئی جس کا مقصد شیعہ کے خلاف دشمنی کو ہوا دینااور نفرت پھیلانا تھا۔ اس تنظیم نے پنجاب میں شیعہ کو احمدیوں کی طرح غیر مسلم قرار دینے کے لئے تحریک چلائی۔  یہ تنظیم صرف جارحانہ فرقہ وارانہ تبلیغ تک محدود نہ رہی بلکہ دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوگئی اور 2002 میں اس پر پابندی لگ گئی۔ ایک خفیہ امریکی سفارتی مراسلہ کے مطابق جیش محمد بھی سپاہ صحابہ سے ہی نکلی ایک تنظیم تھی۔ سپاہ صحابہ،جسے ضیاء الحق کی حمایت حاصل تھی، ایسا لٹریچر سامنے لائی جس میں شیعہ کو قرآن ِ پاک کی تحریف کے قائل قرار دیا گیا اور صحابہ کرام میں پائے جانے والے سارے اختلافات کو شیعہ کی ایجاد قرار دیا گیا۔ اسی تنظیم کی وجہ سے مجالس عزا اور جلوس نکالنے کے روٹ اور ان پر پابندی لگوانے کے لیے جھگڑوں اور تصادم کا دور شروع ہوا۔ سپاہ صحابہ نے دیوبند کے مدارس سے فتوے لئے کہ شیعہ سے شادی بیاہ کرنا، ان کی خوشی یا مرگ میں شامل ہونا،ان سے ایسے برتاؤ کرنا جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے کرتا ہے، یہ سب حرام اور گناہ ہے۔
سپاہ صحابہ سے لشکر جھنگوی نے جنم لیا، جس کے بارے میں معروف صحافی عارف جمال کہتے ہیں یہ سپاہ صحابہ کا غیر اعلانیہ ڈیتھ سکواڈ تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے 62 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جو بلوچستان میں شیعہ ہزارہ پر لشکر جھنگوی کے کیے گئے حملوں بارے اعدادوشمار ہے۔ 2008 سے لے کر اب تک کئی سو ہزارہ ان پر کئے گئے بدترین حملوں میں مارے گئے ہیں۔ جنوری و فروری 2013 میں ان پر دو بڑے خوفناک خودکش حملے کیے گئے۔ جن میں 180 افراد جاں بحق ہوئے۔ لشکر جھنگوی نے اکثر حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
شیعہ کمیونٹی کے قتل میں جیش محمد اور طالبان بھی ملوث رہے۔ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر ایک دیوبندی مدرسے بنوری ٹاؤن کراچی سے پڑھے اور یہاں کے سابق استاد بھی تھے۔ اس کے علاوہ کئی طالبان کمانڈرز نے پاکستانی دیوبندی مدارس سے تعلیم حاصل کی جن میں ملا عمر بھی شامل تھے۔ طالبان کے اہم کمانڈرحکیم اللہ مسعود نے بھی پاکستان کے ضلع ہنگو میں ایک دیوبندی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور دوران پڑھائی طالبان تحریک میں شامل ہوگئے۔ پشاور کے نزدیک اکوڑہ خٹک میں مدرسہ حقانیہ نے کئی طالبان رہنماؤں کی تربیت کی اور اس مدرسے کے کرتا دھرتا مولانا سمیع الحق ”بابائے طالبان“ کے نام سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔
کتاب کے آخر میں 1947 سے 2015 تک شیعہ نسل کشی کا ڈیٹا شامل ہے۔ تھوڑا عرصہ قبل شیعہ ہزارہ مزدوروں کا بے دردی سے ہونے والا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی شیعہ نسل کشی ایک منظم طریقے سے جاری ہے۔ پاکستان کے عوام کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ایک مذہبی اقلیت کے دل پہ کیا گزرتی ہوگی جب اس تنگ نظر معاشرے کی دیواروں پر درج ہو، کافر،کافر۔۔۔۔۔ شیعہ کافر

ہدایت مہدی پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں اور سماجی و سیاسی مسائل پہ لکھتے ہیں !

اے وی پڑھو:

اشو لال دی کہاݨی ۔۔۔۔زیبی بھٹہ

%d bloggers like this: