مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کی بے فیض عوامی سکیمیں||سارہ شمشاد

خان صاحب جو ہر وقت عوام سے وابستگی اور نوجوانوں کو اپنی طاقت قرار نہیں تھکتے۔ ان کے دور حکومت میں نوجوان جو اِن کے وفادار سپاہی ہیں، کے ساتھ یہ زیادتی سمجھ سے بالاتر ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے والی سکیم میں 10لاکھ درخواستوں میں سے صرف 5ہزار کو قرضہ ملنے کی خبر سے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔ خان صاحب جو ہر وقت عوام سے وابستگی اور نوجوانوں کو اپنی طاقت قرار نہیں تھکتے۔ ان کے دور حکومت میں نوجوان جو اِن کے وفادار سپاہی ہیں، کے ساتھ یہ زیادتی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح اپنا گھر جیسی بڑی سکیم کی تعریف کرتے وزیراعظم تھکتے نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہاں بھی معاملہ خاصا گڑبڑ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں سے اس امید پر درخواستیں جمع کرائی گئیں کہ جلد خان صاحب کے دور حکومت میں ان کی اپنی چھت ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا لیکن افسوس کہ حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھاگئے کے مصداق عوام کا یہ خواب بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایک لمحے کےلئے سوچئے کہ عمران خان کی حکومت نے کرپشن پر اب تک کیا کیاہے اور وہ اگلے انتخابات میں کارناموں کی فہرست لے کر عوام کی عدالت میں جائیں گے تو جواب صفر بٹا صفر ہی ملے گا کیونکہ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی جو لمبی چوڑی باتیں کی گئی تھیں وہ محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں آج جو چیزیں بہتات میں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک مہنگائی اور دوسرا غربت ہے۔ وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت غریبوں کے مسائل کا علم ہونے کی بات کرتے ہیں ایک ہی ماہ میں 2، 2 مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں کرتے یہی نہیں بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ عین ثواب سمجھ کر تواتر کے ساتھ کئی کئی روپوں میں صورت میں کیا جارہا ہے کہ کہیں عوام اس’’شرف‘‘ سے محروم ہی نہ رہ جائیں۔ المختصر کوئی نہیں ہے جو غریب عوام کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز گردش کررہی ہیں جن میں بے بس اور مجبورہوتے ہوئے والدین یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ 3، 3دن سے بچوں کو کھانا نہیں کھلا پائے ہیں، دل چاہتاہے کہ خودکشی کرلیں۔ ان کے دل کا کرب ان کے چہروں پر عیاں ہے اور وہ کسی بھی طرح اسے چھپانے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں۔
ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والے وزیراعظم کے دور حکومت میں عوام کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو 60فیصد سے زائد ووٹ نوجوانوں نے دیئے تھے اور حکومت کی بدترین کارکردگی کے باعث اب وہ برملا یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ انہیں اپنے انتخاب پر شرمندگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ اگر حکومت کا یہی طرز حکمرانی جاری رہا تو عنقریب پی ٹی آئی کے حکومتی نمائندوں کا سڑکوں پر عوام میں آنا ممکن نہیں رہے گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے یہ رپورٹس تواتر کے ساتھ مل رہی ہیں کہ اگر ابھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے تو تحریک انصاف کا اس کے اپنے شہروں سے صفایا ہوجائے گا اس لئے حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ معززعدالت کے ریمارکس انتہائی اہم ہیں کہ اگر حکومت کی کارکردگی اچھی ہے تو پھر بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کے پی کے کی حکومت نے ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
نوجوانوں کے لئے روزگار سکیم ہو یا اپنا گھر سکیم کے تحت قرضہ دینے کا معاملہ، حکومت نے غریب عوام کو کاغذوں کے گھن چکر میں اس بری طرح پھنسادیاہے کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ معاملات کس ڈگرپر جارہے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان جن کی دیانتداری کے آج بھی عوام معترف ہیں لیکن اب یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خالی خولی باتوں اور اپوزیشن کولتاڑنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں ہر صورت اب عوام کو ڈلیور کرنا ہوگا کیونکہ کرپشن کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نعرے سن سن کر عوام کا کان پک گئے ہیں اوراب وہ کسی ریلیف پیکیج کے منتظر ہیں اور ساتھ ہی وزیراعظم سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اڑھائی برس سے زائد گزرنے کے باوجود اب تک کتنی ریکوری ہوئی ہے اور کتنا لوٹاہوا پیسہ واپس آیاہے تو جواب نفی میں ہی ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گرد جن ’’مفکرین‘‘ کی ٹیم جمع کررکھی ہے وہ سب اچھا کی رپورٹ دینے اور اپوزیشن کو لتاڑنے میں فکر مند رہتے ہیں ظاہر ہے کہ کابینہ کی اکثریت غیرمنتخب افراد پر مشتمل ہے تو ان سے عوام کے مسائل حل کرنے کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔ ادھر یہ بات بھی حکومت بالخصوص وزیراعظم کو ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ عوام اب مزید مہنگائی اورتنگدستیٔ حالات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح حکومت اپنی ناقص کارکردگی کاملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر کسی صورت بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ یہی نہیں بلکہ کوروناکوبھی ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرانے کی پالیسی زمینی حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق کرپشن میں 4درجے ’’ترقی‘‘ کرچکا ہے اس پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ حکومتی نمائندے آئیں بائیں شائیں کرنے پر ہی اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں اور عوام کو حسب روایت بیوقوف بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہیں کہ یہ ڈیٹا نواز دور حکومت میں اکٹھا کیا گیا تھا۔ اب کوئی حکومتی نمائندوں کو سمجھائے کہ سوشل میڈیا کے دور میں عوام سے کون سی چیز چھپی ہے اس لئے بے پر کی اڑانے کی بجائے اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ آٹا، تیل، گھی، چینی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس بارے وزیراعظم یہ کہہ کر کسی صورت بری الذمہ نہیںہوسکتے کہ گھر کے حالات خراب ہوں تو سب کو تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے تو اس ضمن میں جان کی امان پاتے ہوئے خان صاحب سے درخواست کروں گی کہ کیا وہ غریب عوام کو سچ میں ’’سکون قبر میں ہی ہے‘‘ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں کیونکہ زمینی حقائق تو کچھ اسی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ حکومت عوام کو قبر میں لے جانے میں کسی قسم کی تاخیر نہیں چاہتی۔
پاکستان آج جن محاذوں پر نبردآزما ہے اس کے باعث حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیاسی مفاہمت کے ساتھ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے کیونکہ اب صرف تندوتیز بیانات سے کام مزید نہیں چلایا جاسکتا کہ سب کیا دھرا ماضی کی حکومتوں کا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اگلے الیکشن جیتنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں نوجوانوں کے اپنے ووٹ بینک پر بھی نظررکھنی چاہیے اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اپنا گھر سکیم کے ساتھ نوجوان روزگار قرضہ فراہمی کی کامیابی کو ہی کم ازکم یقینی بنائے وگرنہ ’’داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ کا معاملہ بھی ہوسکتاہے۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: