اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ احوال ٹی ہاوس میں منعقدہ ایک سیمینار کا ||حیدر جاوید سید

یہ عرض کروں کہ وزیراعظم نے دو روز قبل کہا ہم نے بیس کروڑ ڈالر کے قرضے ادا کئے۔ یقیناً ادا کئے ہوں گے مگر یہ تو بتائیے کہ قرضوں کی یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجاہت مسعود کی دونوں باتیں شعوری اور تاریخی طور پر درست تھیں۔
اولاً یہ کہ برصغیر کی تقسیم کے باوجود ہمارا پروانۂ آزادی ہم تک ابھی نہیں پہنچا۔
’’وہ کہہ رہے تھے کہ عدالت کسی قیدی کی رہائی کا حکم دے تو جیل حکام روبکار کے بغیر قیدی رہا نہیں کرتے۔ ہماری روبکار ابھی پہنچی نہیں تو آزاد کیسے ہوں۔‘‘
دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ جس جماعت کا دعویٰ ہے کہ آزادی اس نے لے کر دی ہے اس جماعت کو اگر 1940ء کی دہائی میں وڈیرے ، مخدوم ، سردار ، خان نہ ملتے تو آزادی کیسے ملتی؟
"اس کا پس منظر یہ ہے کہ ان طبقات نے ہمیشہ درباری سیاست کی۔
ڈپٹی کمشنروں کے اشارئہ اَبرو پر جماعتیں بدلیں۔”
تقسیم کے بعد سے اب تک کی سیاست میں ان طبقات کی ہجرتیں یا قلابازیاں ہی اس کا ثبوت ہیں کہ 1940ء کی دہائی میں اشارہ کہاں سے ہوا ہوگا۔
وجاہت مسعود ملتان ٹی ہاوس میں سخنور فورم اور ملتان ٹی ہاوس کے اشتراک سے منعقدہ
’’پولیٹیکل اکانومی کیا ہے کیسے کام کرتی ہے اور اس کا ہماری سیاسی اور معاشی ترقی میں کیا کردار ہے؟‘‘
کے عنوان کی مناسبت سے گفتگو کر رہے تھے۔
رضی الدین رضی نے وجاہت مسعود کو گفتگو کی دعوت دیتے ہوئے کہا۔ بلوچوں کی تفریح کا سامان اب ملتان میں ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ ڈی ایچ اے میں ہوئے سکوائش ٹورنامنٹ کی طرف تھا۔
تقریب میں کچھ تاخیر سے پہنچا اس لئے ڈاکٹر شفیق بھٹی کی گفتگو نہ سن پایا۔ البتہ ماہر معاشیات علی سلمان کی نصف گفتگو میرے حصہ میں آئی۔ ان کے دلائل اور تنقید و تجاویز نے اس طالب علم کو یہ سمجھایا کہ کیپٹل پولیٹیکل اکانومی کی ترجمانی کیسے ہوتی ہے۔
وقت کی ضرورت کے مطابق منصوبوں کی بجائے اگر 25 سال بعد کی ضرورت والے منصوبے قبل از وقت مکمل ہوجائیں تو بہ برا نہیں۔
سٹیج پر برادر عزیز شاکر حسین شاکر ، شوکت اشفاق ، ہمارے مرحوم دوست خان محمد رضوانی کے لخت جگر جمشید رضوانی ، وجاہت مسعود ، ڈاکٹر شفیق بھٹی اور ذیشان ہاشم جلوہ افروز تھے۔
پاکستان ایسے ملک میں جو 73 سال بعد بھی یہ فیصلہ نہ کرپایا ہو کہ وہ ہے کیا ، وہاں یہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ ایک بھی ایسی معاشی پالیسی نہیں جس پر یہ کہا جاسکے کہ یہ عوام دوست ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی معیشت والا ملک ہے اور میک اپ کے ذریعے اسے صنعتی حوالے سے ترقی پذیر ملک دکھانے کی کوششیں جاری و ساری ہیں۔ مشکل سے دس کروڑ آبادی کی بنیادی ضروریات پیدا کرنے والا ملک اپنے بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ زبردستی کے افغان مہاجرین اور دوسرے غیر قانونی تارکین وطن کو پالتا ہے جس کے بارے میں ہماری ریاست کبھی کہتی تھی کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ہر مسلمان کا اس پر حق ہے۔
کیا خوب بات بتائی مالکان نے۔
ارے صاحب! اسلام کا جہاں ظہور ہوا اس ملک پر دنیا کے مسلمانوں کا حق کیوں نہیں؟
کڑوا سچ یہ ہے کہ زراعت کو یکسر نظرانداز کرکے ہم نے خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی جو درگت بنائی وہ سب کے سامنے ہے۔
ڈپٹی کمشنروں کے اشارہ اَبرو پر سیاسی ہجرتیں کرنے کا رواج اب بھی ہے۔
ہم اگر غور سے دیکھیں تو مقبوضہ علاقوں میں (وہ جب بھی ہوئے ہوں) حکمران اسٹیبلشمنٹ ایسے معاون طبقات تیار کرتی ہے جو نسل در نسل اُس طرزِ حکمرانی کے محافظ ہوتے ہیں جو رعایا کو عوام نہ بننے دے، یہی ہمارا بنیادی المیہ ہے۔
ثانیاً یہ کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک ہم تہتر برسوں میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں بنا پائے جو تعمیر و ترقی کے اہداف کی سمت رہنمائی کرے۔
اس طرح انسان سازی ہماری ترجیحات کا حصہ بھی کبھی نہیں رہی۔ غالباً اسی لئے ہم بلاسوچے سمجھے آدمیوں کا جنگل بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔
ذاتی طور پر مجھے ملال بھی رہے گا کہ مقررین کی گفتگو مکمل طور پر نہ سن سکا۔ بدقسمتی سے ہمارے کام کا وقت اور سیمینار کا وقت دونوں ٹکراگئے۔ پھر بھی حاضری بہرطور لگوائی تاکہ سند رہے۔
حالانکہ گئے اس خیال سے تھے کہ نہ صرف گفتگو سنیں گے بلکہ ایک دو سوال بھی مقررین کے سامنے رکھیں گے۔ دوستوں سے بھی ملاقات رہے گی لیکن ہائے روزگار کے غم ، بہرطور یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ اس طرح کی تقاریب کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔
خوش آئند بات یہ تھی کہ ٹی ہاوس کا کانفرنس ہال انسانوں سے بھرا ہوا تھا۔ جتنی گفتگو سن پایا وہ شاندار تھی۔
ہمیشہ ان سطور میں عرض کیا ، مکالمہ ہونا چاہئے حالات کیسے بھی ہوں ، لوگوں کو بتایا جانا چاہئے کہ غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کیسے پڑے اور بڑے ان قرضوں سے قرضوں کو اتارنے میں کتنی رقم خرچ ہوتی ہے اور دیگر مدوں پر کتنی۔
یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ مصارف کے شعبے اور تفصیل بتانے کی بجائے صرف سیاست دانوں پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ خیر کچھ قصور ان سیاست دانوں کا بھی ہے جو سمجھوتہ برانڈ اقتدار قبول کرتے ہیں۔ سینہ ٹھوک کر غلامی فرماتے ہیں اور پھر روتے رہتے ہیں۔
یہ عرض کروں کہ وزیراعظم نے دو روز قبل کہا ہم نے بیس کروڑ ڈالر کے قرضے ادا کئے۔ یقیناً ادا کئے ہوں گے مگر یہ تو بتائیے کہ قرضوں کی یہ رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی۔
حرف آخر یہ کہ دوستوں سے ملاقات نہ ہوسکنے کا ملال ہے۔ کام کاج کے جھمیلے ہیں جن کی وجہ سے ٹی ہائوس سے دفتر کی طرف دوڑ لگانا پڑی۔ خیر یار زندہ ملاقاتیں بہت۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: