مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرا افغان دوست، بوستان کریم||حیدر جاوید سید

جی نہیں میرے والد کا خاندان لگ بھگ نصف صدی سے کاروبار کے لئے قندھار کی بجائے مزار شریف میں مقیم تھا۔ ننھیال اور دھدیال کے خاندان طویل عرصہ سے پڑوسی تھے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاجک ماں اور پشتون باپ کا فرزند بوستان کریم مجھے پہلی بار سال 1996ء میں یونیورسٹی روڈ پشاور پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں ملا تھا۔ شام کے کھانے کے لئے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو تقریباً ساری میزوں پر لوگ بیٹھے تھے کونے میں ایک میز پر تنہا ایک نوجوان کوبیٹھے دیکھ کر میں اس کی طرف بڑھا تو ویٹر نے آگے بڑھ کر اس نوجوان سے فارسی نما پشتو میں کچھ کہا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ہاتھ ملاتے ہوئے بولا، میں اکیلا ہی ہوں جناب آپ تشریف رکھیں لیکن ایک شرط ہے، میز کے دوسری طرف کرسی پر بیٹھتے ہوئے میں نے پوچھا کیا شرط ہے؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں چونکہ پہلے سے موجود ہوں اس لئے آپ میرے مہمان ہوں گے۔
کھانا لگنے سے قبل ہم ابتدائی تعارف کا مرحلہ طے کرچکے تھے۔ یہ سن کر میں ’’مشرق‘‘ پشاور سے منسلک ہوں اس نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا میں کل سے دیکھوں گا میرے والد ایک پشتو اخبار کے علاوہ ’’مشرق‘‘ بھی خریدتے ہیں۔ بوستان کریم اس وقت پشاور یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا۔ اس ملاقات کے بعد اگلے دو تین سال ہم دوچار دن کے وقفے سے ملتے اور گپ شپ کرتے۔ اپنے مادر وطن افغانستان کے ابتر حالات سے وہ دوسرے افغان مہاجر نوجوانوں کی طرح باخبر بھی رہتا اور پریشان بھی۔ فارسی، پشتو، اردو اور انگریزی روانی سے بولنے والے اس نوجوان سے ایک دن میں نے پوچھاآپ کے والد پشتون اور والدہ تاجک ہیں دو مختلف ثقافتی پس منظروں کی وجہ سے مسائل پیدا نہیں ہوتے؟
جی نہیں میرے والد کا خاندان لگ بھگ نصف صدی سے کاروبار کے لئے قندھار کی بجائے مزار شریف میں مقیم تھا۔ ننھیال اور دھدیال کے خاندان طویل عرصہ سے پڑوسی تھے۔ میری ایک پھپھو میری ممانی بھی ہیں۔ بوستان کریم 1999ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ روانہ ہوگیا۔
امریکہ روانگی سے قبل اس سے طویل نشست ہوئی۔ اس کے والد اور والدہ کے علاوہ چھوٹا بھائی علی کریم اور بہنیں بھی موجود تھیں۔ سال 1999ء کے بعد وہ دو تین بار ہی پاکستان آیا ایک بار اپنی والدہ کی وفات پر اور بعدازاں بہنوں کی شادی کے موقع پر۔
ای میل رابطے کا ذریعہ رہی پھر فیس بک اور وائٹس ایپ۔ تین سال قبل وہ اپنے آبائی وطن افغانستان واپس منتقل ہوگیا۔ مزار شریف میں اس کے والد عبدالکریم خان اور بھائی علی کریم اس کی واپسی پر خوش تھے۔ افغانستان کی صورتحال پر اس کے چند سطری تبصرے دلچسپ بھی ہوتے تھے اور گاہے رُلاتے بھی۔
ایک دن واٹس ایپ پر اس کا پیغام موصول ہوا
’’دوست ! امن چوری ہوئے خوابوں کی طرح ہے۔ درندے افغانوں کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں ہمارے عالمی ہمدردوں کے کیا کہنے۔ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریاں اور ہمارے وار لارڈز چل اور پل رہے ہیں‘‘
ایک اور پیغام میں اس نے لکھا
’’میں علی کے ساتھ کابل گیا تھا تین چار دن رہا لوگوں کی آنکھوں میں مایوسی ناچتی دیکھی، فضا میں بارود کی بو رچی ہوئی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پرامن جمہوری افغانستان اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پائوں گا‘‘۔
جوابی میسج میں اس مایوسی کی وجوہ دریافت کی گئی تو کئی دن کے وقففے سے اس کا جواب آیا۔
دوست! دعا کرو بیماری شدید ہورہی ہے۔ پاکستان آجائو، میں نے میسج کیا۔ جواب ملا میں آخری دنوں میں اپنے وطن کو جی بھر کے دیکھنا چاہتا ہوں۔ پچھلے کئی ماہ سے اس کا کوئی پیغام نہیں آیا۔ واٹس ایپ اور فیس بک بند۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تشویش میں اضافہ ہوتا رہا۔
پچھلی اتوار کی سپہر واٹس ایپ پر میسج ملا۔ دوست میں نماز مغربین کے بعد تمہیں فون کروں گا۔مصروفیات سمیٹ کر بوستان کریم کے فون کا انتظار کیا۔ فون کی جگہ میسج موصول ہوا۔ میں بات کرنے میں مشکل محسوس کررہا ہوں۔
پیغامات کے تبادلے میں اس نے لکھا امریکہ، اشرف غنی اور طالبان، افغانوں سے کسی کو دلچسپی نہیں تینوں اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ اسی دوران اس نے اپنے والد کے سانحہ ارتحال کی المناک خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ علی کریم کے کاغذات مکمل ہوگئے ہیں وہ چند دنوں میں جنوبی افریقہ منتقل ہوجائے گا جہاں اسے ایک اچھی ملازمت بھی مل گئی ہے۔
مجھے اس کے والد یاد آئے خوبصورت، شفیق اور مہربان۔ زندگی کاروبار کرتے گزری جوان کے دادا نے قندھار سے مزار شریف منتقل ہوکر شروع کیا تھا پھر ہجرتوں کے عذاب بھگتے۔
ہجرت کے بعد پہلے ایران گئے پھر خاندان سمیت پشاور میں آن بسے۔ نئے سرے سے زندگی کو منظم کیا۔ علی کریم اور دو بیٹیاں پشاور میں پیدا ہوئیں۔ بوستان مزار شریف میں پیدا ہوا تھا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی پھر والدین کے ہمراہ پہلے ایران اور بعدازاں پاکستان آن مقیم ہوا۔
عبدالکریم خان کا خاندان مزار شریف میں قالینوں کے علاوہ خشک میوہ جات کا کاروبار کرتا تھا پشاور میں انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ کام بانٹ لئے۔ خود قالینوں کا کاروبار کرتے تھے اور چھوٹا بھائی واجد محبوب خان خشک میوہ جات کراچی تک کے دکانداروں کو فراہم کرتا۔
پچھلی اتوار کی شام واٹس ایپ پر پیغامات کا تبادلہ آخری رابطہ ثابت ہوا کچھ دیر قبل علی کریم نے بوستان کے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا،
’’شاہ جی محترم، بوستان بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی تدفین کردی گئی ہے وصیت کے مطابق افغانستان، ایران اور پاکستان تینوں ملکوں کی مٹی ایک پوٹلی کی صورت میں کفن میں رکھ دی گئی تھی۔ میں بوستان کریم کی وفات پر آپ سے تعزیت کرتاہوں”
آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ ایک اچھے دوست سے محروم ہوگیا ہوں۔ مجھے ایک ایک کرکے ساری ملاقاتیں، ان میں ہوئی باتیں، اس سے پہلی ملاقات سب یاد آرہے ہیں۔ سال 1996ء میں قائم ہوا دوستی اور احترام بھرا تعلق تمام ہوا۔
بوستال کریم اپنے والد کی طرح فارسی ادب کا دلدادہ تھا۔ اسے اپنی جنم بھومی مزار شریف سے جنون کی حد تک لگاو تھا اور یہ فطری بات ہے۔ چند سال قبل وہ زیارات و عمرے کے لئے شام، عراق اور سعودی عرب گیا۔ ہر جگہ اس نے مجھے یاد رکھا جس حرم میں پہنچتا واٹس ایپ پر ویڈیو کال کرکے کہتا، دوست! دعا مانگ لو میں نے سپیکر آن کردیا ہے۔
اس کے برادرِ عزیز علی کریم نے بتایا کہ بھائی جان نے آپ کی کتاب ’’یہ عشق نہیں آساں‘‘ کا فارسی ترجمہ مکمل کرلیا تھا بس آپ پر اپنی تحریر مکمل نہ کرسکے۔ تحریر کے لئے نوٹس موجود ہیں میں انشاء اللہ اپنے مرحوم بھائی کی اس محنت کو شائع کراوں گا۔
ان لمحوں مجھے بوستان کریم اس کے شفیق والدین اور خاندان کے دوسرے افراد یاد آرہے ہیں اس کی دونوں بہنیں اپنے خاندانوں سمیت امریکہ میں مقیم ہیں۔
والدہ پشاور کے ایک قبرستان میں اور والد مزار شریف میں مدفن ہیں۔ خود وہ بھی اپنے شفیق والد کے پہلو میں مٹی کی چادر اوڑھ کے سوگیا۔
بوستان کریم کو گلے کا کینسر تھا اس بیماری کے ابتدائی علاج کے بعد ہی وہ امریکہ سے مزار شریف منتقل ہوا۔ ہمیشہ کہتا تھا، دوست دعا کرنا میں آخری سانس اپنے جنم شہر میں لوں اور جنم شہر کی مٹی اوڑھ کے سوجاوں قیامت کے انتظار کے لئے۔ اس کی دونوں خواہشیں پوری ہوئیں۔
مجھے سامی یاد آرہے ہیں۔ کہا تھا ’’دوست سندھوندں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی طرح ہوتے ہیں‘‘۔ لاریب وہ ایک مہربان دوست، علم پرور انسان اور وطن کی محبت میں گندھا افغان تھا۔ حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: