مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا وہ مل جائے گا؟۔۔۔عامر حسینی

یہ سُن کر اُس نے میرے سامنے اپنے موبائل کی اسکرین کردی، سامنے کے ٹو پہاڑ پہ دو کوہ پیما کھڑے تھے، اُن کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا جھنڈا تھا جس پہ سفید رنگ سے "مظلوم حسین" لکھا تھا...... کہنے لگا "یہ تھا محمد علی صد پارہ......."

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹیلا وہاں نہیں تھی
کیا وہ مل جائے گا؟
ملتان کے ایک کیفے میں چائے کی چسکیاں لگاتے لگاتے، اُس نے اپنا کپ میز پہ دھرا اور مجھ سے کہنے لگا:
کیا وہ مل جائے گا؟
میں نے کہا،
کون؟
"محمد علی صد پارہ”
میں نے پھر پوچھا وہ کون؟
کہنے لگا کہ "عجب حال ہے تمہارا، جس شخص نام سارے پاکستان میں گونج رہا ہے، اُس سے تُم واقف نہیں… پاکستان کی آن، شان قائم کرنے والا کوہ پیما ہے…..”
” میں کوہ پیمائی بارے کچھ نہیں جانتا، نہ ہی میں نے اس بارے میں کچھ پڑھا ہے”، میں نے جواباً کہا-
“مستنصر حسین تارڈ کے سفرنامے نہیں پڑھے- اُن کو کیسا لکھنے والا سمجھتے ہو؟ ‘، اُس نے پوچھا
” اُس کے سفر ناموں سے تو بہت دور رہا ہوں ہاں اُس کی کہانیاں اور چند ناول پڑھے ہیں (پھر ازراہ مذاق کیا) اور اُن کے بارے میں آپ کا لحاظ کچھ کہنے سے روکتا ہے…”
"محمد علی صد پارہ سے میری بڑی دوست تھی، وہ جب بھی پاکستان ہوتا اور کہیں کوہ پیمائی نہ کررہا ہوتا تو مجھے اکثر فون کرتا اور ملاقات کی آرزو ہوا کرتی تھی-
ایک بار کا قصہ سنانے لگا کہ کوہ پیمائی کا سفر تھا ایک آسٹریلوی لڑکی سٹیلا کہنے لگی مجھے بھی ساتھ لے چلو، اُسے منع بھی کیا لیکن چلنے پہ مصر تھی سو چل پڑی، ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے سٹیلا سب سے پیچھے تھی، تھوڑی دیر بعد میں نے پیچھے مڑ کر آواز دی اورصتیلا کو پکارا تو وہ وہاں تھی نہیں، ادھر ادھر نظر دوڑائی، کہیں کچھ نظر نہیں آیا، ہم سب پھر آگے چل دیے…. میں نے صدپارہ سے پوچھا، کیوں تلاش کیوں نہ کیا تو کہنے لگا کہ جس پگڈنڈی پہ ہم چل رہے تھے، اُس سے اِدھر اُدھر ہونے والا غائب ہوجاتا ہے، وہ پھر نہیں رہتا- سو ہم چل دیے…… "
وہ یہ سب کہہ کر پھر مجھ سے پوچھ بیٹھا، ‘ہم اُسے کیسے ڈھونڈیں؟’
” تُم تو پھر ‘صدپارہ’ کو کسی حد تک اُس کے ٹریک پہ ڈھونڈنے نکل سکتے ہو، میں تو اس ٹریک کی ابتداء میں سٹیلا ثابت ہوں گا، پیچھے مڑ کر تم مجھے آواز دو گے اور میں نہیں ہوں گا تو تم چل دوگے“
یہ سُن کر اُس نے میرے سامنے اپنے موبائل کی اسکرین کردی، سامنے کے ٹو پہاڑ پہ دو کوہ پیما کھڑے تھے، اُن کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا جھنڈا تھا جس پہ سفید رنگ سے "مظلوم حسین” لکھا تھا…… کہنے لگا "یہ تھا محمد علی صد پارہ…….”
میرے منہ سے بے اختیار نکلا ‘آہ! ابدا واللہ یا زھرا، ماننسی حسینا…. اُسے کے ٹو پہاڑ کی بلند ترین چوٹی سر کرتے وقت بھی یاد رہا – – – گویا یہ بھی ہمارا کامریڈ ساتھی ہے/تھا……

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: