بلاول بھٹو:ہیلو مس میم نون، سلام، آپ کیسی ہیں؟ ہائو اِز یور فادر؟

مریم نواز:تھینک یو مسٹر بے بے، میں بالکل ٹھیک ہوں، میاں صاحب بھی خیریت سے ہیں۔ مجھ سے میاں صاحب کہہ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کے حوالے سے زرداری صاحب اور بلاول صاحب سے رابطہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے درمیان میں کچھ خلا پیدا ہو رہا ہے جس سے ہمارے مخالفین کو ہمارا مذاق اڑانے کا موقع مل رہا ہے۔

بلاول بھٹو:آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں لیکن میری اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن پہلے دن سے واضح ہے اور ہم اُسی پر کھڑے ہیں۔

مریم نواز:مسٹر بے بے، آپ تو پچھلی دو میٹنگز میں آئے نہیں۔ اسلئے بہت سے اہم فیصلے نہیں ہوسکے۔

بلاول بھٹو:مس میم نون، ہمارا گلہ یہ ہے کہ اجلاس کی تاریخوں کے بارے میں ہمیں صرف بتایا جاتا ہے، ہم سے تاریخوں کے بارے میں مشورہ نہیں کیا جاتا۔ پارٹی کی مصروفیات ہوتی ہیں، بہت سی تاریخیں پہلے سے طے ہوتی ہیں اِس لئے میں حاضر نہ ہو سکا اور میں نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔

مریم نواز:اس معاملے کا مجھے تو علم نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن، اجلاس کے بارے میں پہلے مشورہ کرتے ہیں پھر تاریخ طے کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو:شیری رحمٰن کو آواز دیتے ہوئے۔ میڈم آپ مس میم نون کو بتائیں کہ میں پچھلے دو اجلاسوں میں کیوں نہیں آ سکا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخوں کے بارے میں آپ سے تو مشورہ کیا مگر ہمیں صرف تاریخوں سے آگاہ کیا، اُن دونوں تاریخوں پر میری پارٹی مصروفیات تھیں۔

مریم نواز:میرا خیال ہے کہ آج آپ کے آنے سے تاریخوں کی غلط فہمی تو دور ہو گئی ہے۔ آئندہ اجلاس سے پہلے تاریخوں پر مشورہ کر لینا چاہئے مگر مسٹر بے بے، آپ کی پارٹی استعفوں اور لانگ مارچ کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے؟

بلاول بھٹو:اچھا ہوا مس میم نون، آپ نے براہِ راست مجھ سے یہ بات پوچھ لی۔ اس معاملہ پر کنفیوژن دور کرنا ضروری ہے (اپنے فون کے اندر سے کچھ تلاش کرتے ہوئے) سنیے مس! پی ڈی ایم کا ڈیکلریشن صاف طور پر کہتا ہے کہ عدم اعتماد سمیت تمام آئینی طریقے استعمال کریں گے، لانگ مارچ اور استعفے بھی اس میں شامل ہیں۔ سو اگر آج ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے عدم اعتماد کا آپشن استعمال کریں تو ہم دراصل پی ڈی ایم ہی کے ڈیکلریشن کے مطابق ہی چل رہے ہیں۔

مریم نواز:مسٹر بے بے، یہ تو مانیں کہ پی ڈی ایم کے حوالے سے عوامی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔

بلاول بھٹو:مس میم نون، توقعات کو اس قدر اوپر کون لے گیا، وقت سے پہلے ٹیمپو بڑھا دیا گیا، ہماری ابھی تیاری ہی کہاں تھی پھر لاہور کا جلسہ اس قدر کامیاب نہ ہو سکا جس قدر اس کی توقع یا امید تھی، فرض کریں لاہور کا جلسہ بہت بڑا ہو جاتا تو خود بخود تحریک بن جانی تھی اور خود بخود لانگ مارچ کا فیصلہ ہو جانا تھا۔

مریم نواز:مسٹر بے بے، لاہور کا جلسہ اتنا ناکام بھی نہیں تھا۔ ہمارے کارکنوں نے بھرپور کام کیا، اصل بات یہ ہے ہم نے جلسہ گاہ کی جگہ غلط چن لی، وہاں اندھیرا تھا، لوگ نظر ہی نہیں آتے اور پھر سردی بھی تھی۔ اصل بات جو لوگ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کوئی بڑا رسک لینے کو تیار نہیں۔ نہ سندھ حکومت چھوڑنا چاہتی ہے نہ اسمبلیوں اور سینیٹ میں جگہ خالی کرنا چاہتی ہے، اگر واقعی یہ بات ہے تو پی ڈی ایم کے ماضی کے اجلاسوں میں پیپلز پارٹی نے یہ وعدے کئے کیوں تھے؟

بلاول بھٹو:مس میم نون، بڑے ادب سے گزارش ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے قربانیاں دینے والی جماعت رہی ہے مگر ہم سے یہ توقع تو نہ کی جائے کہ ہمیں آنکھیں بند کر کے اندھیری گلی میں چھلانگ لگا دیں۔ ہماری پارٹی ہے، ہمارا مستقبل ہے، ہم کیوں بلا سوچے سمجھے استعفے دے دیں۔ پہلے استعفوں کا ماحول بنے تو ہم استعفے بھی دے دیں گے۔

مریم نواز:اگر ہم پہلے مرحلے کے ٹیمپو کو تیز رکھتے تو اب تک ہم حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکے ہوتے۔

بلاول بھٹو:مس میم نون، ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کو دیکھ کر مشترکہ فیصلے کرنے چاہئیں بغیر تیاری کے استعفے دینے کا مطلب سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف حکومت کو لانا ہو گا اُس سے پی ڈی ایم کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟

مریم نواز:مسٹر بے بے۔ آپ کی بات درست ہے ہم یہ تو نہیں چاہتے ہم تو چاہتے ہیں کہ جب استعفے ہوں تو پھر حکومت کی عمارت دھڑام سے گر جائے اور اس وقت سوائے نئے انتخابات کے کوئی آپشن باقی نہ ہو۔

بلاول بھٹو:مگر مس میم نون، فی الحال تو ایسا ماحول ہی نہیں ہے نہ ہی لوگ تیار ہیں، پہلے ہمیں عدم اعتماد کی طرف جانا چاہئے، اعداد و شمار میں ہم زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی ناراضیاں ہیں اور اتحادیوں میں بھی مسائل ہیں ہمیں اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

مریم نواز:سینیٹ چیئرمین کا انتخاب یاد کریں مسٹر بے بے، ہمارے پاس اکثریت تھی مگر فرشتوں نے ایسی چمت کار دکھائی کہ ہماری اکثریت دھری کی دھری رہ گئی۔ آپ پی ڈی ایم کے سامنے اپنے کارڈز دکھائیں، کتنے لوگ ہمارا ساتھ دیں گے؟

بلاول بھٹو:مس میم نون، ہمیں مل کر پہلے عدم اعتماد کے لئے فضا بنانی ہو گی، اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے پھر کہیں جا کر راستہ نکلے گا۔ ہمیں اندر اور باہر دونوں جگہ دبائو ڈالنا چاہئے۔

مریم نواز:ہمیں تو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کامیابی نظر نہیں آتی، ہمارے پاس صرف عوامی دبائو کی آپشن موجود ہے ہمیں اسے ہی استعمال کرنا ہوگا۔ ہم دبائو ڈالیں گے تبھی جا کر اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کا اتحاد ٹوٹے گا۔

بلاول بھٹو:ہمیں حکومت کو اندر اور باہر دونوں طرح سے آزمائش میں ڈالنا چاہئے۔ ہم اگر اچھی لابی کریں تو تحریک انصاف کے ناراض اراکین بھی ہمارے ساتھ آ کھڑے ہوں گے۔

مریم نواز:میرے خیال میں تو ہمیں زیادہ توجہ لانگ مارچ کی کامیابی کی طرف دینی چاہئے۔ اسمبلیوں اور تحریک انصاف کے اراکین کسی ادارے کے اشارے کے بغیر اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔

بلاول بھٹو:لانگ مارچ پر تو ہمارا اتفاق ہو چکا ہے اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانا چاہئے مگر پنجاب میں تحریک عدم اعتماد اور چودھریوں کے ساتھ رابطے اس حکومت سے چھٹکارا پانے کا واحد قابلِ عمل راستہ ہے، ہمیں اس پر توجہ دینی چاہئے۔

مریم نواز:مسٹر بے بے، آپ کی بات درست ہے مگر فی الحال تو لانگ مارچ پر پورا زور لگانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ سینیٹر منتخب کروانا چاہئیں۔

بلاول: مس میم نون، یہ ہوئی نا، بات