اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعلی کردار کی مثالیں ۔۔۔گلزار احمد

اجلاس میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پیش کی گئی اور ووٹنگ کا فیصلہ ھوا۔اس وقت ممبران کی تعداد 66 تھی اور جب ووٹنگ ھوئی تو دونوں طرف 33 ..33 ووٹ پڑے۔ یعنی تحریک کے حق میں اور مخالفت میں ووٹ برابر برابر تھے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

۔۔
یہ 1971ء کا واقعہ ھے جس کا تعلق آسٹریلیا سے ھے۔اس وقت آسٹریلیا کے وزیراعظم اور پارلیمنٹری لبرل پارٹی کے صدر مسٹر جان گارٹن تھے۔انکی پارٹی کسی وجہ سے ان سے ناراض ھوئی اور شکائیتیں بڑھتی گئیں۔ آخر ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئیے پارٹی کی پارلیمانی باڈی کا خصوصی اجلاس ھوا جو قاعدہ کے مطابق انہیں کی صدارت میں ہی ہوا۔
اجلاس میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پیش کی گئی اور ووٹنگ کا فیصلہ ھوا۔اس وقت ممبران کی تعداد 66 تھی اور جب ووٹنگ ھوئی تو دونوں طرف 33 ..33 ووٹ پڑے۔ یعنی تحریک کے حق میں اور مخالفت میں ووٹ برابر برابر تھے۔
اب فیصلہ صدر کے ایک زائد ووٹ س ھونا تھا۔صدر نے جب اپنا ووٹ استعمال کیا تو اپنے خلاف کیا اور خود اپنے ووٹ سے شکست کھائی۔اس کے بعد وہ پارٹی کی صدارت سے علیحدہ ھو گئے اور کہا جب ممبران کی اتنی بڑی تعداد صدر کے خلاف ھے تو صدر کو اس عھدے پر رھنے کا کوئی جواز نہیں۔۔۔
جعفر شاہ پھلواری بر صغیر کے ایک بھت بڑے عالم گزرے ہیں ان کی بھت سی قیمتی تصانیف ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے سو سال پرانا واقعہ لکھا کہ پھلواڑی شریف بہار میں دو رئیس رھتے تھے ایک کا نام قاضی غلام امام اور دوسرے کا قاضی مخدوم عالم تھا۔ دونوں رشتہ دار تھے اور کسی وجہ سے دونوں میں جھگڑا ھو گیا۔اور مقدمہ بازی کی نوبت آگئی ۔مخدوم عالم سرکاری مالازمت میں تھے۔
اسی دوران ان کا تبادلہ دور کے مقام پر ھو گیا۔جہاں سے پٹنہ کی عدالت میں حاضری مشکل تھی۔انہوں نے چاہا کہ اپنے مقدمے کی پیروی میں کسی کو مقرر کر دیں مگر کوئی مناسب شخص نہ ملا ۔آخر وہ فریق مخالف قاضی غلام امام کے پاس آے اور کہا میں شھر سے دور جا رہا ھوں اور کوئی موزوں آدمی نہیں مل رہا جو مقدمے کی پیروی کرے اس لئیے آپ ہی یہ فائل لے لیں اور میرے مقدمے کی پیروی کریں۔ اور یہ کہ کر وہ روانہ ھو گئیے۔
اب قاضی غلام امام وضع دار اور ایماندار آدمی تھے اور ان کا اس اعتماد کو مجروح کرنا ناممکن تھا انہوں نے مخدوم عالم کا مقدمہ اپنے ہاتھ لے لیا اور اپنے کاغذات کسی اور شخص کو دے دئیے کہ وہ اس کی جگہ مقدمہ لڑے۔اب صورت یہ بنی کہ قاضی غلام امام کے مقدمے کی پیروی تو دوسرا شخص کر رہا ھے اور وہ خود اپنے فریق مخالف قاضی مخدوم عالم کے مقدمے کی پیروی کر رھے ہیں۔ نتیجہ یہ ھوا کہ وہ خود ہار گئیے اور قاضی مخدوم عالم جیت گئے۔
کچھ واقعات ہمارے سامنے بھی گزرے جو اعلی کردار کا نمونہ تھے۔ کئی سال پہلے جنرل الیکشن کا زمانہ تھا اور پہاڑیور پنیالہ کی نشست سے جاوید اکبر خان مرحوم ایم پی اے کے امیدوار تھے۔ پہاڑپور سائڈ سے غالباً میجر ریٹائرڈ حسین بخش ۔۔۔نام صحیح یاد نہیں۔۔۔ بھی اس نشست کے امیدوار تھے۔
میجر صاحب نئے نئے ریٹائر ہوۓ تھے اور پنیالہ سے کم واقف تھے ۔ایک دن وہ گاوں پہنچے تو راستے میں جاوید اکبر خان سے ملاقات ھوئی اور ان سے کہا میں پنیالہ کےلوگوں کو نہیں جانتا اور آپ میرے ساتھ رہنمائی کریں تاکہ ووٹ مانگوں۔وہ جاوید اکبر سے بھی نا واقف تھے۔ جاوید اکبر نے کہا ٹھیک ھے چلتے ہیں اور ان کے ساتھ پنیالہ گاوں ان کے لئےووٹ مانگنے لگے۔ اور پھر چاے پانی سے تواضع بھی کی۔۔۔۔
جاوید اکبر خان کو اللہ جنت نصیب کرے بڑا جانانہ آدمی تھا۔۔ ایک اور واقعہ جو پچھلے سال میں نے ٹی وی پر دیکھا وہ برطانیہ کے ہاوس آف لارڈز کا ھے۔اس ہاوس میں ایک وزیر مائیکل بیٹس صرف ساٹھ سیکنڈ لیٹ پہنچے جب وہاں سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ پچھلے پانچ سال سے ہاوس میں حکومت کی جانب سے جواب دیتے رھے تھے۔اس دن ایک منٹ لیٹ ھونے کی وجہ سے وہ ایک سوال کا جواب نہ دے سکے۔
انہوں نے ہاوس سے معافی مانگی اور کہا میں سخت شرمندہ ھوں اور استعفے کا اعلان کر دیا۔ اپنا بیگ اٹھایا اور ہاوس سے باھر چلے گئے۔ بہر حال بعد میں اراکیں نے انہیں واپس منالیا۔ ان تمام واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ آدمی بہادری اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اصولوں کے آگے جھک جاۓ۔نہ کہ وہ اصولوں کو خود اپنے آگے جھکاۓ۔وہ نقصان اور فائدہ عزت اور بے عزتی کے خیال سے اوپر اٹھ کر اصولوں کے تقاضے کو اپنا لے۔
اسی طرح یہ اس کی بہادری اور اعلی ظرفی کی مثال ھے کہ اگر اس کا مخالف بھی اس کے اوپر اعتماد کرے تو وہ اس کے اعتماد کو مجروح نہ کرے۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کی رات گھر سے روانہ ھونے والے تھے تو ان کے مخالفین کافر تلواریں لے کر گھر کے ارد گرد گھیرا ڈال کر کھڑے تھے مگر ان کی اپنی امانتیں حضور کے پاس موجود تھیں اور دشمنوں کو بھی اعتماد تھا کہ ان کا مال محفوظ ھے اس وجہ سے حضور اکرمؐ نے حضرت علؓی کو گھر پہ چھوڑا تھا کہ وہ امانتیں دے کر ہجرت کریں۔دنیا کی تاریخ ایسی مثال دینے سے قاصر ھے۔

%d bloggers like this: