مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوہ قاف کی پریاں دیکھنے کا خواب (2)۔۔۔گلزار احمد

ہمارے ہاں پریوں سے متعلق سیف الملوک کی داستان بہت مشھور ہے جسے ہم بچپن میں سنتے رہے پھر ناران جا کر سیف الملوک جھیل پر بھی وہاں کھڑے قصہ گو لوگوں سے بھی سنی

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ڈیرہ کے دانشور دوست ڈاکٹر شاھد مسعود خٹک جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں نے گزشتہ روز کا پریوں سے متعلق کالم پڑھ کر فرمائش کی کہ میں پریوں پر دوسری قسط لکھوں تو جناب یہ قسط حاضر ہے۔
ہمارے ہاں پریوں سے متعلق سیف الملوک کی داستان بہت مشھور ہے جسے ہم بچپن میں سنتے رہے پھر ناران جا کر سیف الملوک جھیل پر بھی وہاں کھڑے قصہ گو لوگوں سے بھی سنی۔وہ داستان کچھ اس طرح ہے۔
ایک مصر کا بادشاہ تھا جس کا نام عاصم تھا اور اس کے بیٹے کا نام سیف تھا جس کے نام پر جھیل سیف الملوک کا نام رکھا گیا ہے۔
سیف شھزادہ ایک رات خواب دیکھتا
ہے جس میں اس کو یہ جھیل دکھائ دیتی ہے اور ایک خوبصورت پری نظر آتی ہے جس کا نام بدیع جمال یا بدری جما ل ہے۔ وہ اس وقت اس پری کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنے بادشاہ باپ سے اس کا ذکر اور اس کو ملنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ باپ اس کو بتاتا ہے یہ جگہ اور پری ملنا دشوار ہے تم یہ خیال دل سے نکال دو مگر شھزادہ سیف رخت سفر باندھ کر روانہ ہو جاتا ہے اور جنگلوں پہاڑوں تلاش جاری رکھتا ہے۔ ایک سال تو اسکو مصر میں ہی لگ گیا اسکو کسی بھی طرح اس جھیل کا سراغ نہ ملا سال کے بعد اللہ کی قدرت سے ایسا ہوا کہ چاند کی چودھویں رات تھی مصر میں اسکو ایک بزرگ سے ملاقات ہو گئ۔بزرگ نے شھزادے کی کہانی سن کر بتایا کہ ایک ملکہ پربت پہاڑ ہے شاید ملکہ پربت اس چوٹی کو کہتے ہیں جو سیف الملوک جھیل سے شمال کی جانب واقع ہے جھیل اسی چوٹی کے دامن میں ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ آج تک کوئی اس چوٹی کو سر نہیں کر سکا کہا جاتا ہی کہ اس پر جنوں اور پریوں کا قبضہ اور بسیرا ہے ۔بزرگ نے شہزادے کو کچھ کلمات سکھاۓ جس کے مدد سے دو جن شہزادے کے طابع ہوگئے جنہوں نے شہزادے کو وہاں سے اٹھایا اور سیف الملوک جھیل کے سامنے پہنچا دیا جس جگہ ایک چھوٹی مسجد بنی ہوئی تھی۔
اس وقت یہاں سے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا جھیل بہت بلند تھی اور ملکہ پربت کے دامن تک پھیلی ہوئی تھی۔
شہزادہ وہاں پہنچ کر جھیل کو پہچان گیا شہزادے نے 40 دن تک مسجد میں چلا کاٹا اور عبادت کی۔ چالیسویں دن کے بعد چاند کی چودھویں رات تھی شہزادے نے دیکھا کہ جھیل کے اندر پریاں اتر کر نہا رہی ہیں اور ایک پری کے ساتھ سات پریاں الگ ہیں اور ایک پری ان میں سے مختلف ہے جو بدیع الجمال کی شکل کی تھی اور باقی سات اسکی باندیاں لگتیں تھیں۔ شہزادے نے فورا ان دو جنوں کو طلب کیا اور پوچھا کہ کیسے وہ اس پری کو حاصل کرے گا ۔جنوں نے پریوں میں سے پری بدیع الجمال کا تاج اٹھایا اور شہزادے کو دے دیا پریاں جب جھیل سے نکلی اور اپنے اپنے تاج پہنے تو ملکہ کا تاج غائب تھا ملکہ نے تاج کے بارے دریافت کیا تو باقی پریاں پریشان ہوگیں اور گھبرا گئیں۔اسی گھبراہٹ میں وہ بھاگ گئیں اس دوران شہزادہ ۔۔بدیع الجمال کے سامنے اگیا شہزادے کے پاس تاج دیکھا تو پری نے کہا کہ میرا تاج مجھے واپس دے دو میں ایک دیو کے قبضے میں ہوں اور وہ دیو یہاں پہنچاتو تمھیں اور مجھے مار ڈالے گا
شہزادے نے یہ بات نہ مانی اور کہا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا تم میرے ساتھ چلو شہزادے پری کو ساتھ لے کر ناران کی طرف نکل آیا ناران اس وقت بیابان جنگل ہوتا تھا وہاں شہزادہ ساتھ ساتھ دعا بھی مانگتا رہا
دوسری طرف جو پریاں واپس گئی تھی انہوں نے جاکر فوراً دیو کو بتادیا کہ آج جھیل میں ہم سے بدیع الجمال بچھڑ گئی یے دیو فوراً جھیل پر پہنچا اور اس نے جھیل پر پری کو تلاش کیا اسکو پری نہ ملی اسکو غصہ آیا اسنے جھیل کی سامنے والی جانب پاؤں مارا جس سے جھیل ٹوٹ گئی اور جھیل کا سارا پانی نیچے کی جانب بہنے لگا پانی فلڈ کی شکل میں ناران میں داخل ہوا پری اور شہزادہ راستے میں تھے انہوں نے پھر دعا مانگی انکی دعا قبول ہوئی زمین کے اندر ایک غار بن گئی پری اور شہزادہ اس میں داخل ہوگئے دائیں اور بائیں جانب سے سیلاب گزر گیا ۔
کہا جاتا ہی کہ وہ غار آج بھی موجود ہے ۔ دوسری طرف دیو نے تلاش نہ چھوڑی وہ دوسری جانب نکلا پہاڑ کی دوسری جانب جلکھڈ کے پاس اس کا پاوں دلدل میں پھنس گیا جس جگہ کو آج پیالہ جھیل کہتے ہیں اس میں پانی زیر زمین زخیرے سے آتا یے۔کافی دن تلاش کرنے کے بعد اسکو پری نہ ملی تو اس نے ایک بلند پہاڑ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ پری اور شہزادہ بہت عرصہ تک اس غار میں رہے بعد میں ان جنوں نے جو شہزادے کے قبضے میں تھے انہوں نے شہزادے کو بتایا کہ دیو اب ختم ہوچکا ہے اب تم اپنے ملک واپس جا سکتے ہو پری اور شہزادے کو انہوں نے اٹھایا اور مصر پہنچا دیا اور وہ خوشی سے باقی زندگی بسر کرنے لگے۔اس شہزادے کے نام سے جھیل سیف الملوک کا نام مشہور ہوا ملوک اسکو اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں شہزادے کی پری سے ملاقات ہوئی یہ کہانی اگلی نسلوں کو پتہ لگی اور نسل در نسل منتقل ہوتی یہاں تک پہنچی۔
چاند کی چودویں رات کو اس جھیل کا منظر بہت خوب صورت ہوتا یے جب چاند جوبن پر ہوتا ہے تو رات کو جھیل کا منظر دیدنی ہوتا ہے ۔چاند پہاڑ رات اور ستارے صاف دکھائ دیتے ہیں ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہی کہ اس رات کو برگزیدہ بندوں کو جن اور پریاں نظر بھی اتی ہیں۔
کہانی یہاں ختم ہوئ اور عرض یہ ہے کہ یہ افسانوی اور رومانوی طلسمی کہانیاں ہزاروں سال سے سنائ جا رہی ہیں شاید ان کا مقصد بچوں میں مہم جوئ اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا تھا ۔یہ کہانیاں ہر ملک و قوم میں رائج ہیں۔ کوہ قاف بھی چچنیا میں کوہ قفقار کے نام سے مشھور ہے جہاں کی پریاں مشھور ہیں ۔ انسان فطری طور پر حسن پسند ہے اس لیے حسن کی تعریف میں پھولوں ۔پریوں ۔ ہرنیوں۔ وغیرہ سے تشبیہات تلاش کرتا رہا۔ پریوں کے اڑنے کی تشبیہات سے آخرکار ہوائ جہاز ایجاد ہوئے اور انسان فضاٶں میں اڑنے لگا۔ مگر سائنس میں پریوں کی حقیقت نہ مل سکی۔

%d bloggers like this: