اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

 رحیم یار خان کی خبریں

رحیم یار خان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے

 رحیم یار خان

گنے کے کاشتکاروں کا ہائی کورٹ میں کیس لڑنے والے ترنڈہ محمد پناہ تحصیل لیاقت پور کے زمیندار، سابق نائب ضلع ناظم و رٹ پیٹیشنر ملک جنید اسلم نائچ نے کسان بچاؤ تحریک پاکستان کے

چیئرمین چودھری محمد یسین، جمیل ناصر چودھری، پاکستان کسان اتحاد کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر جام ایم ڈی گانگا اور ملک زاہد اسلم نائچ ایڈوؤکیٹ کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 20جنوری کو

ہائی کورٹ نے کین کمشنر پنجاب کو حکم دیا تھا کہ 25جنوری کو تمام متعلقہ فریقین کو سنیں اور اگلی پیشی پر عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کریں.

اس دوران اسی ایک ہی تاریخ و ایک دن میں یعنی 25جنوری کو مجھے ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان کے آفس میں بھی بلایا لیا گیا. میں حیران و پریشان ہوں کہ ایک بندہ ایک ہی دن میں چھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر دو مختلف جگہوں پر کیسے پیش ہو سکتا ہے.

آج میں کسان رہنماؤں چودھری محمد یسین چودھری جمیل ناصر، جام ایم ڈی گانگا کے ہمراہ رحیم یار خان ڈپٹی کمشنر کے پاس حاضر ہوا. کل 26 جنوری کو کین کمشنر پنجاب کے پاس لاہور حاضر ہوں گا

ہم نے درمیانی صورتحال اور ایک ہی تاریخ سے متعلق ٹیلی فون پر کین کمشنر پنجاب میاں محمد زمان وٹو کو آگاہ کر دیا ہے.

ملک جنید اسلم نائچ نے کہا کہ کسانوں کو انصاف ملنے تک ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے. چودھری محمد یسین نے کہا کہ

ہمیں کین کمشنر پنجاب اور ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع اور امید ہے.

ایک سائل و پیٹیشنر کو ایک ہی دن میں دو جگہوں پر پابند کرنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کوئی درپردہ چال ہے یا حکمت اس کو بھی وقت ثابت کر دے گا.


: رحیم یار خان

ایک پیٹیشنر کو ایک ہی دن میں دو مقامات پر بلوا

ایک پیٹیشنر لاہور اور رحیم یار خان ایک ساتھ کیسے حاضر ہو

آج ڈپٹی کمشنر کے پاس حاضر ہوا تھا. جنید اسلم نائچ

26 جنوری کو کین کمشنر پنجاب کے پاس لاہور جاؤں گا. پیٹیشنر

انصاف ملنے تک جدوجہد جاری رکھیں گے. جنید اسلم نائچ

بیک وقت دوجگہوں پر بلانا درپردہ کوئی چال ہے. چودھری محمد یسین

کسان حوصلے اور استقامت سے کیس لڑیں گے. جام ایم ڈی گانگا

آج 24/1/20 کے روزنامہ خبریں کے تمام اسٹیشنوں سے شائع ھونے والا کالم۔

خبریں کا سالانہ21واں سرائیکی مشاعرہ


(دردنگر سے)تحسین بخاری press78282@gmail/com

ہمیشہ کی طرح روزنامہ خبریں کے 21ویں سالانہ سرائیکی مشاعرہ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو میں نے حسب معمول شرکت کا فیصلہ کیا، سرائیکی تحریک سے وابستہ ہمارے کچھ دوستوں کو

اس مشاعرے میں ہماری شرکت سے اگرچہ اختلاف تھا مگر میں نے یہ سوچ کر شرکت کا فیصلہ کیا کہ ایک تو خبریں نے سرائیکی صوبے کی تحریک کو اس وقت اٹھایا جب سرائیکی صوبے کا نام لینا گناہ تصور کیا جاتا تھا،

تب خبریں نے تحریک کو ایسے اٹھایا جیسے اٹھانے کا حق ہو تا ہے،ہمارے اکثر دوست کہتے ہیں کہ خبریں نے اپنا نام اور مقام پیدا کرنے کیلیے اس تحریک کو اٹھایا تھا

مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ملتان ریجن سے اخبار تو اور بھی شائع ہوتے ہیں،نام اور مقام پیدا کرنے کی خواہش اور کوشش بھی سب کی ہوتی ہے

مگر اخبار ات اپنے مالکان کی پالیسی کے تابع چلتے ہیں اور سوائے خبریں کے کسی اخبار مالک کی پالیسی میں سرائیکی صوبے کی تحریک کو تقویت پنہچانے کی پالیسی تھی نہ ہے۔خبریں کے مالک جناب ضیا شاہد صاحب زبان کے اعتبار سے پنجابی ہیں لازمی بات ہے کہ پنجابی زبان کے ایک صحافی کو سرائیکی زبان کی تحریک کا کھل کر ساتھ دینے پر

باتیں بھی سننا پڑتی ہونگی،مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہوگا مگر ہر مخالفت کا سامنے کرتے ہوئے انھوں نے تحریک کیلیے وہ کام کیا جو خود ہم اپنی زات کیلیے نا کر سکے،رنجشیں پیدا ہونا اور اختلاف رائے رکھنا اپنی جگہ مگر محسن کشی ہمیشہ آ پ کے اپنے پاؤں کا کانٹا بن جایا کرتی ہے،

راستہ آپ کا اپنا دشوار ہونے لگتا ہے اور منزل آپ کی اپنی مزید فاصلے پر چلی جا رہی ہوتی ہے اس لیے منزل تک پنہچنے کیلیے جب آپ کو کوئی سپورٹ کر رہا ہو تا ہے تواس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اسے مشکوک نظر سے دیکھنا غیر مناسب سی بات ہے،

کوئی شکوہ اگر ہے تو اس کے سامنے بیٹھ کر کیجیے۔سرائیکی شعرا کی خاطر جس اخبار کے مالک نے عملی طور پر جھولی پھیلا کر چندہ اکٹھا کیا

آج اس کے مشاعرے میں شرکت کرنا جرم کیوں بن گیا۔اس مشاعرے میں شریک ہونے کی میری دوسری وجہ یہ تھی کہ شاعر اور مشاعرے کا آپس میں کوئی جھکڑا نہیں ہوتا،

میں ایک نظریا تی قلم کار ہوں،میں اپنے سینے میں ماں دھرتی کا درد رکھنے والاادنیٰ سا لکھاری ہوں،میں مشاعروں میں جا کر رنگ و رخسار کی باتیں نہیں کرتا،میں محبوب کی زلف میں سجے پھول کی منظر کشی نہیں کرتا،میں محبوب کے پاؤں میں بندھی پائل کے گھنگھرو کی چھنکار کی طرف نوجوان نسل کو متوجہ نہیں کرتا،میں محبوب کی آنکھ کے کاجل کو لفظوں کی خوبصورتی دیکر اسے

سندھ دریا کے کنارے ڈھلتی شام کے منظر سے تشبیح نہیں دیتا،میں محبوب کے رخسار کی لالی کو قوس و قزح کے سات رنگوں سے منسلک نہیں کرتا،میں محبوب کی مسکراہٹ کو ساون رت میں چمکتی بجلی کا نام نہیں دیتا،میں محبوب کے گالوں کو جھوم جھوم کر چومنے والی

زلف کی لٹ کو ناگن بنا کر پیش نہیں کرتا،میں محبوب کے بولنے پر اس کی باتوں سے پھول جھڑنے کا تذکرہ نہیں کرتا،میں محبوب کے چلنے کے انداز کو مورنی کا انداز یا ہرنی کی چال نہیں کہتا،میں نوجوان نسل کو اپنی غزل یا نظم کے زریعے سسی پنوں،ہیر رانجھا،

سوہنی ماہیوال کے قصے بھی نہیں سناتا،اور تو اورمجھے محبوب کے چہرے کو چاند کہ کر پکارتے ہوئے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے،میں ماں دھرتی کا نوحہ لکھنے والا ایک شاعر ہوں۔جس دن سے میرے اندر کے لکھاری کی شعوری فکر نے محسوس کیا کہ میری دھرتی پر ڈاکہ پڑ چکا ہے،میری دھرتی کے نوجوان کا حق چھین لیا گیا ہے،

میری نازک نازو جٹی کی مٹیوں کے گھبکار خاموش ہو چکے ہیں،ٹوبھا خشک ہونے پر مرے ہوئے مال کی لاش پر بیٹھ کر روہیلا وینڑکررہا ہے،جس دن سے میں ہاتھو ں میں ڈگریاں لیکر رزق کی تلاش میں اپنی دھرتی کے پڑھے لکھے نوجوان کورزق کیلیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا دیکھا ہے،جس دن سے میں نے بوڑھے باپ کا سہارا بننے کیلیے پردیس جانے والے

بیٹے کی عید کے روز بوڑھے باپ کو جوان بیٹے کی لاش وصول کرتے دیکھا ہے،تب میرے پاس دو راستے تھے یا تو غم دوراں سے نظریں چرا کر محبتوں کی پر خمار راہوں پر من کی مورتی کے ہاتھ کو مظبوطی سے تھام کر چلتا رہوں،یا پھر میں اس سے بیوفائی کا فیصلہ کر کے اسے محبتوں کے تپتے صحرا پر تن تنہا چھوڑ دوں۔

لہٰذ میں نے من کی مورتی کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھا،دو آنسو بہائے اور اس کا ہاتھ چھوڑکر دھرتی پر ڈاکہ ڈالنے والے چوروں کے تعاقب میں چل نکلا،کیونکہ میں عزیز شاہد،امان اللہ ارشد،یا مقصود بخاری یا رازش لیاقت پوری تو نہیں تھا کہ محبوب کے رخسار کو چومتی زلف کو بھی ناراض نہ ہونے دیتا اوردھرتی کا حقوق پامال کرنے والے چوروں کا تعاقب بھی نہ چھوڑتا،

یہ الگ بات ہے کہ میرے اندر کے شاعر کے اس تلخ فیصلے پر من کی مورتی نے آنسو بھی نا بہایا،بیوفائی کا طعنہ بھی نہ دیا اور خوشی خوشی سے نئی منزل کی طرف جانے کی اجازت بھی بخش دی،جب میں اس نئی راہ کا مسافر بن کر تھوڑا آگے

پنہچاتو چوروں کے تعاقب میں پہلے سے رواں دواں مجھے ایک بہت بڑا قافلہ ملا اور قافلے کیلیے جو راستہ ہموار کر رہا تھا وہ خبریں تھا،تو میں خبریں کے اس عمل کو کیسے فراموش کر دوں،اور پھر ہمارا مشن تو نوجوان نسل میں شعور بیدار کرنا ہے انھیں پیغام پنہچانا ہے،انھیں نئی راہ دکھانی ہے،تو ہم اپنے اس مشن سے کیوں پیچھے ہٹیں،

ہم تو پہلے ہی من کی مورتی کو عشق مجازی کے تپتے صحراؤں میں تنہا چھوڑنے کا جرم سرزدکر چکے ہیں اور پھر اس نئے راستے پر بھی ہمیں کوئی اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرے گا تو یہ زیادتی ہو گی۔دوسری بات یہ کہ مجھے اپنے وسیب زادوں سے مسلسل ایک شکوہ رہاہے

اور وہ یہ کہ انھوں نے ہمیشہ دھرتی کے شعرا کو تقسیم کیا ھے،ہر مشاعرے میں زاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر شعرا کو بلایا جاتا ہے،

یہاں تک کہ بعض اوقات تین سو کلو میٹر دور والے شاعر کو تو بلا لیا جاتا ہے مگر جس شہر میں مشاعرہ ہو رہا ہوتا ہے اسی شہر کے شاعر کو دانستہ طور پراگنور کر دیا جاتا ہے چاہے وہ کتنا قد کاٹھ کیوں نہ رکھتا ہو،اور ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ

صاحب پروگرام سے اس شاعر بیچارے کے قدرے مراسم اچھے نہیں ہوتے،میں ایسی کوئی مثال پیش کرنے سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزرے گی،سرائیکی تحریک کو زندہ رکھنے میں جتنا کردار شاعر کا ہے

اور کسی کا نہیں، مگر افسوس کہ ہمارے کچھ تحریکی دوستوں نے ایک مخصوص لسٹ بنا رکھی ہے کہ کون شاعر ہے

اور کون نہیں۔یہ اعزاز خبریں ہی کو ہے کہ وہ سرائیکی صوبے کا وعدہ کر کے منحرف ہونے والوں کو شاعر کے سامنے لاکر بٹھا دیتا ہے اور شاعر انھیں اپنی مزاحمتی شاعری کے زریعے منہ پر وہ عہد و پیمان یاد دلا رہا ہوتا ہے،

امتنان شاہد صاحب نے اس سرائیکی مشاعرے میں شروع سے لیکر آ خر تک بیٹھ کر یہ پیغام دیا کہ خبریں نے آج سے اکیس سال پہلے جو سلسہ شروع کیا تھا

وہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا اور وسیب کے لکھاریوں کی آواز ااستحصال کرنے والوں تک پنہچائی جاتی رہے گی

%d bloggers like this: