اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری ڈائریاں۔۔۔خضرجسکانی

پرائمری کلاس کے بعد میں دیہات سے شہر میں پڑھنے کی غرض سے چلا گیا۔ اساتذہ کرام نے لکھنے کا شوق دیکھ کر میری توجہ ڈائری لکھنے کی طرف دلائی۔

خضرجسکانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈائری ایک ایسا ساتھی ہے جسے آپ اپنے دلوں کے اہم راز بھی بتا سکتے ہیں۔ میں نے اب تک اندازہ لگایا کہ کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جو آپ اپنے گہرے ترین ساتھی کو بھی نہیں بتاتے مگر وہ ڈائری میں لکھ سکتے ہیں۔ اس لیے با اخلاق معاشروں میں ڈائری کو انسان کی نجی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس میں مداخلت نہیں کی جاتی۔ پرائمری کلاس کے بعد مَیں دیہات سے شہر میں پڑھنے کی غرض سے چلا گیا۔ اساتذہ کرام نے لکھنے کا شوق دیکھ کر میری توجہ ڈائری لکھنے کی طرف دلائی۔ غرضیکہ مَیں ایک تالے والی ڈائری لے آیا اور اُس پر لکھنا شروع کر دیا۔ پورا سال تواتر سے ڈائری لکھتا رہا۔ ساتھ ہی یہاں رائج معاشرتی رویوں کی وجہ سے ڈائری کو چھپا کر رکھنا پڑتا تھا۔ میرے بہت سے رازوں کی امین ڈائری جِسے میں ہر کسی سے چھپا کر رکھتا تھا۔ خیر سال مکمل ہو گیا اور ڈائری بھی۔ میں اگلے سال کے آغاز میں نئی ڈائری شروع کر چکا تھا۔ کچھ دن ہی گزرے تھے کہ مَیں ایک دن سکول سے واپس آیا تو میری پہلی ڈائری ایک رشتہ دار کھولے پڑھ رہا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک قریبی عزیز نے مجھ سے کسی بات پر غصے ہو کر صندوق کا تالا توڑا اور وہاں سے ڈائری نکالی، اس کا تالا توڑا اور اسے مذکورہ بالا رشتہ دار کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ مجھے اپنے کچھ راز افشا ہونے کا بہت افسوس ہوا۔ وہ دن ڈائری لکھنے کا آخری دن ثابت ہوا۔ اگلے دن وہ رشتہ دار گھر آیا تو میں آگ کا بڑا الاؤ لگائے بیٹھا تھا، جن میں دونوں ڈائریاں جل کر خاکستر ہو چکی تھیں۔
اُس واقعے کے بعد ڈائری لکھنے کا دل نہیں کیا۔
یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو پھر ڈائری لکھنے کا شوق گیا۔ پہلے دو دن ہی لکھی تھی کہ تیسرے دن کلاس سے واپس روم میں آیا تو ایک رومیٹ وہ ڈائری اٹھائے پڑھ رہا تھا۔ بس وہ ڈائری وہیں چھوڑ دی اور پھر نہ لکھی۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے آخری دن تھے کہ پھر ڈائری لکھنے کا شوق چڑھا۔ نیت کی کہ کل سے لِکھوں گا مگر اُسی شام، وٹس اپ پر کسی دوست کی ڈائری کی تصاویر مجھے کسی نے بھیجیں تو کچھ چیزیں پڑھ کر افسوس ہوا۔ لیکن ڈائریوں سے متعلق معاشرتی اخلاقی گراوٹ دیکھ کر دل پھر ٹوٹ گیا۔ لکھنے کا ارادہ پھر ترک کر دیا۔ صبح اٹھا تو ایک رومیٹ کی ڈائری بستر کے قریب پڑی تھی۔ اسی طرح بند ڈائری اٹھا کر اس کے بیگ میں رکھ دی تاکہ اس کی پرائیویسی کی حفاظت ہو سکے۔

نیا سال شروع ہونے سے پہلے میں نے ایک بار پھر ارادہ بنایا کہ ڈائری لکھوں گا۔ لیکن جیسے حضرت جون ایلیا نے فرمایا تھا کہ
"جنہیں ابھی پڑھنا چاہیئے تھا وہ لکھ رہے ہیں”۔
پس سوچا کیوں نا پہلے یونیورسٹی کے آخری ایام میں دوستوں سے لکھوائی گئی الوداعی ڈائریاں پڑھ لی جائیں۔ پڑھتے پڑھتے اکثر یونیورسٹی کے دنوں کی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں، اکثر بُھولے ہوئے واقعات یاد آگئے اور دل کے ٹانکے اُدھڑ گئے کہ

ہم اُس بیاباں میں دن گزار آئے
اب خزاں آئے کہ بہار آئے

ڈائری پر سب سے آخری ڈائری میرے آخری چار پانچ ماہ کے رومیٹ اور یونیورسٹی کے مشکل ترین وقت کے ایک ساتھی کی لکھی ہوئی تھی۔ جس میں یہ سطر تھی کہ، "خوبصورت لمحات میں سے یہ کمبخت رات کے اڑھائی بجے والی روٹین مجھے راس نہیں آئی”۔ اس سطر نے بہت کمال کی یادیں تازہ کر دیں۔ یونیورسٹی کے آخری ایام میں گرمیوں کا موسم تھا، رات کے اڑھائی بجے جس وقت ہاسٹل کے گارڈ صاحب بھی خراٹے لے رہے ہوتے تھے، ہم اکثر پیدل یونیورسٹی سے باہر نکل جاتے اور دور کسی ڈھابے پر بیٹھ کر فاسٹ فوڈ یا کچھ اور کھاتے، چائے پیتے، شاعری سنتے اور چار بجے کے قریب واپس آ جاتے۔ پھر صبح اپنے سیکشن کی کلاس کے وقت سوتے رہتے اور کسی دوسرے سیکشن کے ساتھ وہ کلاس لے لیتے۔
خیر اُس کی لکھی گئی آخری ڈائری کے اگلے صفحے پر میں نے تب ایک منتخب غزل کے یہ چند اشعار لکھے تھے ملاحظہ فرمائیں۔

تیرے ہی لمس سے اُن کا خراج ممکن ہے
تیرے بغیر جو عُمریں گزار آئے ہم

پھر اُس گلی سے گزرنا پڑا تیری خاطر
پھر اُس گلی سے بے قرار آئے ہم

کیا سِتم ہے کہ اِس نشئہ محبت میں
تیرے سِوا بھی کسی کو پکار آئے ہم

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: