نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط23)۔۔۔ عباس سیال

بشیر خان کو پٹڑی سے اترتا دیکھ کر مجھے واپس اُسے ٹریک پر لے آنا پڑا۔وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوئے جیسے ذہن میں الفاظ اکھٹے کر رہے ہوں اور پھر تواتر سے بولنے لگے۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فرید آباد: فرید آبادایک تاریخی شہر ہے جسے مغل شہنشاہ جہانگیر کے درباری شیخ فرید نے آباد کیا تھا۔تقسیم کے بعد جواہر لعل نہرو نے فرید آباد میں کارخانے لگوائے تھے،اسی لئے فرید آباد کو ہندوستان کا صنعتی شہر بھی کہا جاتا ہے۔دلی،گڑ گاﺅں اور نوئیڈا کے درمیان واقع فرید آباد ریاست ہریانہ کا ایک بڑا شہر مانا جاتاہے مگر میرے لئے یہ شہر اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستانی سرکار نے یہاں پر پاکستان کے سرائیکی علاقوں سے آئے ہندوﺅں کیلئے یہاں شرنارتھی کیمپ لگائے تھے۔

سرائیکی ہندوﺅں کی ایک بڑی تعداد آج بھی فرید آباد میں مقیم ہے ۔تقریباًایک گھنٹے کی مسافت کے بعد جونہی ہماری گاڑی ریاست ہریانہ کی حدود میں داخل ہو ئی تو میرے موبائل کی اسکرین پر رومنگ سروس ایکٹو ہو گئی ۔موبائل نیٹ ورک کی بدولت میں سکائپ اور وائبر ایپلی کیشنزکے سہارے گزشتہ ایک ہفتے سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آسٹریلیا سے جڑا ہوا تھا مگر انٹرنیٹ کی سہولت ختم ہوتے ہی رابطہ منقطع ہو گیا تھا ۔

میرے قریب بیٹھا سکھ لڑکا میری باڈی لینگو یج نوٹ کرر ہا تھا ،وہ میرے موبائل پر لکھے رومنگ پیغام کو پڑھتے ہی شکایتی لہجے میں بولا۔ ہمارے انڈیا میں اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ موبائل سروس کا مسئلہ نہ جانے کب ختم ہو گا ؟اگر یہ بات ہے تو پاکستان انڈیا سے اس لحاظ سے بہتر ہے کہ بندہ چاہے کراچی کا موبائل پشاور لے جائے یا لاہور،ملک کے ہر کونے اور ہر صوبے میںموبائل سروس کام کرتی ہے ۔اچھا کیا آ پ پاکستانی ہیں؟

جی ہاں ۔ پاکستان میں کس جگہ سے ؟ پاکستان کا نام سنتے ہی دونوں پتی پتنی کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ کیاآپ لا ئلپوری ہیں؟ ۔لڑکی نے غیر ارادی طور پر مجھ سے پوچھ لیا ۔ ابھی میں اسے جواب دینے کیلئے لب کھول ہی رہا تھا کہ ساتھ بیٹھا لڑکابے قراری سے بول اٹھا۔ آپ جھنگ سے تو نہیں ہیں؟ نہ میں جھنگ سے ہوں اور نہ ہی لائل پوری ہوں، اگر آپ جھنگ سے ویسٹ کی طرف چلیں تو انڈس ریور کے پار میرا شہر آتا ہے جسے ڈیرہ اسماعیل خان کہتے ہیں ، جو ملتان،پشاور اور جھنگ کے درمیان میں واقع ہے ۔ آپ دونوں نے جھنگ اور لائپلور کا نام کیوں لیا؟۔ میرے پوچھنے پر لڑ کے نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا ۔میرا نام بکرم سنگھ ہے اور یہ میری پتنی ہیں پرنیت کو، جن کے دادا کا تعلق جھنگ سے تھا جبکہ میرے دادا لا ئل پوری تھے۔

ہم دونوں کی پچھلے مہینے شادی ہوئی ہے اورہم تاج محل دیکھنے جا رہے ہیں۔ پرنیت بولی کہ اس کے دادا کاکوئی تین چار سال پہلے 86 برس کی عمر میں دھیانت ہو گیا ہے۔ وہ ایک بار جھنگ میں اپنا گھر بھی دیکھ آئے تھے اور جھنگ کو کافی یاد کیا کرتے تھے کیونکہ جھنگ میں ان کا بچپن گزرا تھا ۔دادا کہتے تھے کہ جھنگ کے ہندو سکھ مسلمان مل کر شانتی سے رہتے تھے،پھر پتہ نہیں نفرت کہاں سے آگئی تھی؟ ۔

پرنیت یہ کہہ کر چپ ہو گئی۔اس موقع پر مجھے مکیش کے والد منوہر اسیجا کی بات یاد آگئی کہ ہمارے بیچ نفرت وقتی تھی اور یہ نفرت اس خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح تھی جو پیڑوں کے نیچے خودبخود اُگ آتی ہے اورجسے اگر وقت پر نہ کاٹا جائے تو یہ لحظہ بہ لحظہ بڑھتی چلی جاتی ہے،یہاں تک کہ تنومند پیڑوں کی جڑوں کو چوس کر اسے کھوکھلا کر دیتی ہے ۔

اصل قصور وار کون ؟ شاید ہم سب۔ کیونکہ ہم ہی اس باغ کے مالی تھے اور یہ ہمارا کام تھا کہ چھوٹی چھوٹی خودرو جڑی بوٹیوں کی وقتا فوقتاً کانٹ چھانٹ کرتے رہتے تو شاید ہمارے پیڑ سلامت رہتے۔وہ دونوں مجھے میری عینک کی وجہ سے کوئی بہت بڑا فلاسفر سمجھ بیٹھے تھے حالانکہ میں ان کے سامنے منوہر اسیجا کی باتیں دہرا رہا تھا۔

            بھائی صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں،لیکن اب دھیرے دھیرے دھند چھٹ رہی ہے اوردونوں دیشوں کی جنتا کو پتہ چل گیا ہے کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو مل جل کر رہنا ہوگا ۔ میں بکرم سنگھ کی بات کاٹتے ہوئے بولاکہ فی الحال تو یہ بہت ہی مشکل لگ رہا ہے ،ہاں اگر کانگریسی سرکار ہوتی تو شاید بات بن جاتی لیکن مودی سرکار کے ہوتے ہوئے امن کی توقع رکھنا عبث ہے۔ابھی گفتگو جاری تھی کہ خان صاحب نے اعلان کیا کہ فرید آباد، پلوال اور ہوڈل کے علاقوں سے گزر کر اب ہم ریاست اُتر پردیش کی سرحد میں داخل ہو چکے ہیں اوریہیں سے آگے ہندوﺅں کا مقدس شہر ورِنداون اور متھرا سے گزرتے ہوئے ہماری منزل آگرہ ہو گی مگر کچھ دیر کیلئے ہمیں آگے ایک ریسٹورنٹ پر رکنا پڑے گا۔

            اُترپردیش کے قریب پچیس منٹ کیلئے گاڑی کو ایک ڈھابے پر روکا گیا۔گاڑی رکتے ہی کوئی منرل واٹر کی طرف بھاگا،کوئی ٹوائلٹ کی طرف دوڑا اور کوئی چائے کا آرڈر دینے کیلئے قطار میں کھڑا ہو گیا ۔چونکہ مجھے دورانِ سفرراستے میں رُکنے والے ہوٹلوں کے سامنے قطاربنا کر کھڑے مسافروں کے ہجوم اور دھماچوکڑیوں کا خاصا تجربہ رہا ہے اِسی لئے ہوٹل سے نکلتے وقت آدھا کلو سیب ،دہی کا ڈبہ،منرل واٹر کی بڑی بوتل،پیپسی کے دو کین ، آلو کے چپس ، دال سیﺅ ،چنے، دال مونگ کے کچھ پیکٹس ، سر درد کی گولیاں اور کچھ ڈسپوزیبل گلاس اپنے سفری بیگ میں پہلے سے رکھ لئے تھے ۔

جب سارے مسافر بس سے اتر گئے تو بڑے سکون سے اپنا بیگ کھول کر چپس کے دو پیکٹ نکالے اور بس سے باہر آگیا۔ڈھابے پر پہلے سے تین چار گاڑیاں رُکی کھڑی تھیں اور سیاحوں کا ہجوم کھانے پینے کی اشیاءکیلئے قطاریں بنائے کھڑا تھا۔مجھے چائے کی طلب تھی مگر قطار کی کوفت سے بچنا بھی ضروری تھا ،ایسے موقع پر مجھے اپنا آزمودہ نسخہ اپنانا پڑا ۔میںلمبی قطار میں کھڑے بکرم سنگھ کے پا س پہنچا اور اُس کے ہاتھوں میں چپس کا پیکٹ اور مٹھی میں گاندھی جی کا دس روپے والا نوٹ تھماکرچائے کے ایک کپ کی درخواست کر دی۔ بکرم سنگھ کی باری آنے تک میں واش روم سے منہ ہاتھ دھو کر باہر آچکا تھا۔اس نے خوشی خوشی مجھے چائے کا کپ تھمایااور میں کپ کے ساتھ چپس کے مزے لیتا گاڑی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ آہستہ آہستہ گاڑی کے باقی مسافر بھی واپس آنے لگے اوریہیں سے کچھ مسافروں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعارف ہوا۔

            ویسٹ انڈیز سے اپنی بیوی کے ساتھ ہندوستانی ٹور پر نکلا رچرڈ نامی نیگرو مجھے پہلی نظر میں ہی ایک سیدھا سادا بندہ لگا جو ریٹائرمنٹ کے بعد ہندوستان کو کھوجنے نکلا تھا ۔رچرڈ کی دائیں طرف ایک سنجیدہ ،کم گو ساﺅتھ انڈین جوڑا اپنی سانولی سی بیٹی بنسی کے ساتھ ویجیٹر ین سینڈوچز کھانے میں مگن تھا۔اس شخص کا نام بالا جی تھا اور دونوں پتی پتنی ٹوٹی پھوٹی ہندی بول سکتے تھے۔

بالا جی سے بنسی کا مطلب پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہندی میں بانسری یعنی فلوٹ Flute کو بنسی کہا جاتا ہے ۔ بالا جی کے ساتھ مزید کھڑے ہونا اپنی بوریت میں اضافہ کرنے کے مترادف تھا، اسی سوچ کے زیرِ اثر میں گاڑی کے اندر داخل ہوگیا۔اندر بشیر خان کسی پیچیدہ قسم کے حساب کتاب میں گم تھے ،چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ والی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ میری موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ دھیرے سے مسکرائے تومیرے منہ سے بے اختیار نکل پڑا ۔

خان صاحب کیا آپ واقعی پٹھان ہیں؟۔ انہوں نے اس غیر متوقع سوال پر میری جانب خاصا گھور کر دیکھا،اپنا رجسٹر بند کیا اور بو لے ۔ کوئی شک ؟۔نہیں خان صاحب ایسی کوئی بات نہیں میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا کہ آپ کا قبیلہ کونساہے ؟ میں نے چپس کا کھلا پیکٹ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ بشیر خان نے پیکٹ سے چپس کا ایک پیس نکالا اوراسے منہ میں رکھتے ہوئے اطمینان سے بولے ۔ہم قوم کے یوسف زئی پٹھان ہیں۔اچھا اچھا یوسفزئی پٹھان ۔ خان صاحب پاکستان کے پشتون علاقے خصوصاً دیر، سوات، مردان وغیرہ یوسف زئیوں کا گڑھ ہیں،آپ بتائیے آپ کا قبیلہ ہندوستان کیسے پہنچا تھا؟

۔میاں آپ مجھے کافی دلچسپ معلوم ہوتے ہیں اور شاید تاریخ کے طالبعلم لگتے ہیں کیونکہ ہندوستان میں آپ کی عمر کے لڑکے بالے اس قسم کے سوالات نہیں پوچھا کرتے ۔ میں سائنس کا طالبعلم بالکل نہیں ہوں مگر تاریخ سے تھوڑا بہت شغف ضرور رکھتا ہوں ۔اچھا آپ دِلی میں کس علاقے سے ہیں؟ میں دلی سے نہیں پاکستان سے ہوں۔واہ بھئی ۔۔کیا بات ہے ۔خان صاحب اب مکمل طور پر میری طرف متوجہ تھے ۔میںیہی سوچ رہا تھا کہ آج کل کے ہندوستانی لڑکوں کو تاریخ سے اتنا لگاﺅ کیسے ہو گیا ۔

آپ کی گفتگو سے مجھے تھوڑا بہت شک ہوا تھا کہ آپ بول چال سے ہندوستانی نہیں لگتے ۔ جی خان صاحب میں نے قبیلے کا پوچھا تھاآپ سے۔ بشیر خان کو پٹڑی سے اترتا دیکھ کر مجھے واپس اُسے ٹریک پر لے آنا پڑا۔وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوئے جیسے ذہن میں الفاظ اکھٹے کر رہے ہوں اور پھر تواتر سے بولنے لگے۔

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

About The Author